Tuesday, December 20, 2016

کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر

عصر کے بعد (بروز پیر) کسی نمازی کے مسئلہ پوچھنے پر، خلافِ عادت، امامِ مسجد نے چند مسائل بیان کیے۔ دعا کے بعد ابھی فارغ نہیں ہوئے تھے کہ وردی میں ملبوس پولیس اہلکار آگے بڑھ کر امام مسجد سے مخاطب ہوا:

اہلکار: حافظ ریاض؟
امام مسجد: جی
اہلکار: آپ کے خلاف شکایت گئی ہے کہ آپ نے لاؤڈ سپیکر ایکٹ کی خلاف ورزی کی ہے۔


(میں وہیں موجود تھا، فوراً میری نظر پولیس اہلکار کے پاؤں کی طرف گئی، وہ جوتا اتار کر آیا تھا)

امام مسجد: (دیگر نمازیوں کی طرف حیرانگی سے دیکھتے ہوئے) ایسی تو کوئی بات نہیں۔
اہلکار: نئے ایس ایچ او صاحب آئے ہیں، شاہ صاحب، اچھے بندے ہیں کہنے لگے کہ ایف آئی آر کاٹنے سے پہلے ایک مرتبہ قاری صاحب کو مل آؤ۔

(پولیس اہلکار اپنی بات جاری رکھتے ہوئے)

اہلکار: آپ کے پاس جمعہ کے خطبہ  کے دوران ایک "ملازم" بھی آیا تھا آپ نے اسے لفٹ ہی نہیں کرائی، ایس ایچ او صاحب کہہ رہے تھے جا کر میری بات کرا دینا ۔ ۔ ۔

(میں مداخلت کرتے ہوئے)
ہم تو فجر کی اذان کے بعد نعت پڑھا کرتے تھے باقاعدگی سے، اس پر شکایت گئی تھی، اب تو وہ بھی بند کر دی ہے

(اسی دوران پولیس اہلکار کے موبائیل پر کال آئی)
موبائیل ٹون: "یا نبی سلام علیك"

پولیس اہلکار: لوگوں کی بھی سمجھ نہیں آتی، بہت سوں کو چڑ ہے ۔ ۔ ۔ کیا کریں اب۔

(اتنے میں ایس ایچ او صاحب فون لائن پر آئے)

پولیس اہلکار: یہ بات کریں
امام مسجد: (امام مسجد اپنی صفائیاں پیش کرنے لگے) جی میری ولدیت ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ ہے، "نہیں یہ تاروں والا بازار نہیں ہے" ۔ ۔ ۔ ۔ "توقف" ۔ ۔ ۔ وہ حافظ ریاض ٭٭٭٭٭٭٭ ہیں ۔ ۔ ۔ وہ کچھ فاصلے پر ہیں یہاں سے

(موبائیل پولیس اہلکار کو پکڑا دیا)

اہلکار: آپ اگر ساتھ چلیں تو مہربانی ہوگی کہ "ملازم" آپ کو دیکھ کر پہچان لے گا کہ واقعی وہ آپ ہی کے پاس آیا تھا یا نہیں۔
امام مسجد: جی ضرور ٹھیک ہے (میری طرف دیکھتے ہوئے)
میں: (آنکھوں سے اشارہ کرتے ہوئے کہ ساتھ ہی ہوں)

(تمام نمازی، بمع ڈیڑھ درجن بچے، مسجد سے باہر آتے ہیں، جہاں مزید دو اہلکار ہمارے منتظر تھے اور فانٹا کی بوتل تو میں بھول ہی گیا جو امام مسجد ہی ان تینوں کو پلوا چکے تھے)

دوسرا اہلکار: یہ مسجد کے اوپر چار اسپیکر کیوں ہیں؟ یہ ایک کریں، تین اتار دیں۔
امام مسجد: چلتا ایک ہی ہے، اسی کی تار لگی ہے، باقیوں کی تار ساتھ نہیں لگی ۔ ۔ ۔
دوسرا اہلکار: پھر بھی اتار کر نیچے رکھیں، سڑک سے نظر پڑتی ہے تو مسئلہ ہوگا۔

(اتنے میں امام مسجد قائل کر چکے تھے کہ جن حافظ ریاض کی انہیں تلاش ہیں وہ دوسری طرف ہوتے ہیں اور تینوں اہلکاروں کے ساتھ ان کی طرف چل نکلے) 

//

پتہ چلا کہ ان صاحب (یعنی حافظ ریاض صاحب "مطلوب") نے جمعہ کے بعد دعا اوپر والے اسپیکر پر مانگ لی تھی، اور چونکہ "ملازم" سے بدتمیری کر چکے تھے لہٰذا فرار بھی تھے اور اگر ایس ایچ او صاحب پنگا لینے والے ہوتے تو پرچہ کاٹا جا چکا ہوتا۔ 


یاد رہے کہ جوا نہیں کھیلا، شراب نہیں پی، چوری نہیں کی، قتل نہیں کیا، ڈاکا نہیں ڈالا ہاں مگر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے قانون کی یہ خلاف ورزی کی کہ اپنے رب سے اوپر والے اسپیکر میں مانگ لیا۔

اچھا ہوتا جو پرچہ کٹ جاتا ۔ ۔ ۔ آخر کو خلاف ورزی تو خلاف ورزی ہے ناں چاہے معمولی ہی کیوں نہ ہو!

Friday, December 9, 2016

غلامی رسول صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کے تقاضے

حضرت علامہ قاضی عیاض رحمتہ اللّه تعالیٰ علیہ نے آپ صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کے مقدس حقوق کو اپنی کتاب "شفاء شریف" میں بہت ہی مفصل طور پر بیان فرمایا۔ ہم یہاں انتہائی اختصار کے ساتھ اس کا خلاصہ تحریر کرتے ہوئے مندرجہ ذیل آٹھ حقوق کا ذکر کرتے ہیں۔ (الشفاء بتعریف حقوق المصطفیٰ، القسم الثانی فیما یجب علی الانام ۔ ۔ ۔ الخ، الجزء الثانی، صفحہ 2)

1۔  ایمان بالرسول صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم
2۔ اتباع سنتِ رسول صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم 
3۔ اطاعتِ رسول صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم
4۔ محبتِ رسول صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم
5۔ تعظیمِ رسول صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم
6۔ مدحِ رسول صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم
7۔ درود شریف
8۔ قبرِ انور کی زیارت

1۔ ایمان بالرسول صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم

حضور اقدس صلی اللّه تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم کی نبوت و رسالت پر ایمان لانا اور جو کچھ آپ اللّه تعالیٰ کی طرف سے لائے ہیں صدقِ دل سے اس کو سچا ماننا ہر ہر امتی پر فرضِ عین ہے اور ہر مؤمن کا اس پر ایمان ہے کہ بغیر رسول پر ایمان لائے ہوئے ہر گز ہر گز کوئی مسلمان نہیں ہو سکتا۔ قرآن میں خداوند عالم جل جلاله کا فرمان ہے کہ

ومن لم یومن م باللّه و رسوله فان اعتدنا للکفرین سعیرا (الفتح: 13)
جو اللّه اور اس کے رسول پر ایمان نہ لایا تو یقیناً ہم نے کافروں کے لئے بھڑکتی ہوئی آگ تیار کر رکھی ہے۔

اس آیت نے نہایت وضاحت اور صفائی کے ساتھ یہ فیصلہ کر دیا کہ جو لوگ رسول صلی اللّه تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم کی رسالت پر ایمان نہیں لائیں گے وہ اگرچہ خدا کی توحید کا عمر بھر ڈنکا بجاتے رہیں مگر وہ کافر اور جہنمی ہی رہیں گے۔ اس لئے اسلام کا بنیادی کلمہ یعنی کلمۂ طیبہ لا اله الا اللّه محمد رسول اللّه ہے یعنی مسلمان ہونے کے لئے توحید اور رسول کی رسالت دونوں پر ایمان لانا ضروری ہے۔

2۔ اتباع سنت رسول صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم

حضور اقدس صلی اللّه تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم کی سیرت مبارکہ اور آپ کی سنت مقدسہ کی اتباع اور پیروی ہر مسلمان پر واجب و لازم ہے۔ رب العزت جل جلاله کا فرمان ہے کہ 

قل ان کنتم تحبون اللّه فاتبعونی یحببکم اللّه فیغفرلکم ذنوبکم و اللّه غفور الرحیم (سورة آل عمران: 31)
(اے رسول) فرما دیجیئے کہ اگر تم لوگ اللّه سے محبت کرتے ہو تو میری اتباع کرو، اللّه تم کو اپنا محبوب بنا لے گا اور تمہارے گناہوں کو بخش دے گا اور اللّه بہت زیادہ بخشنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔

اسی لئے آسمانِ امت کے چمکتے ہوئے ستارے، ہدایت کے چاند تارے، اللّه رسول کے پیارے صحابہ کرام رضوان اللّه تعالیٰ علیھم اجمعین آپ صلی اللّه تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم کی ہر سنت کریمہ کی اتباع اور پیروی کو اپنی زندگی کے ہر دم قدم پر اپنے لئے لازم الایمان اور واجب العمل سمجھتے تھے اور بال برابر بھی کبھی کسی معاملہ میں بھی اپنے رسول صلی اللّه تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم کی مقدس سنتوں سے انحراف یا ترک گوارا نہیں کر سکتے تھے۔

3۔ اطاعتِ رسول صلی اللّه تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم

یہ بھی ہر امتی پر رسول خدا صلی اللّه تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم کا حق ہے کہ ہر امتی ہر حال میں آپ صلی اللّه تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم کے ہر حکم کی اطاعت کرے اور آپ جس بات کا حکم دے دیں بال کے کروڑویں حصہ کے برابر بھی اس کی خلاف ورزی کا تصور بھی نہ کرے کیونکہ آپ صلی اللّه تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم کی اطاعت اور آپ کے احکام کے آگے سرِ تسلیم خم کر دینا ہر امتی پر فرضِ عین ہے۔ قرآن کریم میں ارشادِ خداوندی ہے کہ 

و اطیعو اللّه و اطیعو الرسول (سورة النساء: 59)
حکم مانو اللّه کا اور حکم مانو رسول کا 

ومن یطیع الرسول فقد اطاع اللّه (سورة النساء: 80)
جس نے رسول کا حکم مانا بیشک اس نے اللّه کا حکم مانا

ومن یطیع اللّه و رسوله فاولٰئك مع الذین انعم اللّه علیھم من النبین و الصدیقین و الشہدآء و الصالحین و حسن اولٰئك رفیقا (سورة النساء: 69)
اور جو اللّه اور اس کے رسول کا حکم مانے تو اسے ان کا ساتھ ملے گا جن پر اللّه نے انعام فرمایا یعنی انبیاء اور صدیق اور شہید اور نیک لوگ یہ کیا ہی اچھے ساتھی ہیں۔

قرآنِ مجید کی یہ مقدس آیات اعلان کر رہی ہیں کہ اطاعتِ رسول کے بغیر اسلام کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا اور اطاعتِ رسول کرنے والوں ہی کے لئے ایسے ایسے بلند درجات ہیں کہ وہ حضراتِ انبیاء و صدیقین اور شہدا و صالحین کے ساتھ رہیں گے۔

4۔ محبتِ رسول صلی اللّه تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم 

اسی طرح ہر امتی پر رسول اللّه صلی اللّه تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم کا حق ہے کہ وہ سارے جہان سے بڑھ کر آپ صلی اللّه تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم سے محبت رکھے اور ساری دنیا کی محبوب چیزوں کو آپ کی محبت میں آپ صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کے قدموں پر قربان کر دے۔ خداوند قدوس جل جلاله کا فرمان ہے کہ 

قل ان کان آبآؤکم و ابنآؤکم و اخونکم و ازواجکم و عشیرتکم و اموال نِ اقترفتموھا و تجارة تخشون کسادھا و مسکن ترضونھآ احب الیکم من اللّه و رسوله و جھاد فی سبیله فتربصو حتی یأتی اللّه بامرہٖؕ واللّه لا یھدی القوم الفسقین (التوبة: 24)
(اے رسول) آپ فرما دیجیئے! اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری عورتیں اور تمہارا کنبہ اور تمہاری کمائی کے مال اور وہ سودا جس کے نقصان کا تمہیں ڈر ہے اور تمہارے پسندیدہ مکان یہ چیزیں اللّه اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں لڑنے سے زیادہ پیاری ہوں تو راستہ دیکھو یہاں تک کہ اللّه اپنا حکم لائے اور اللّه فاسقوں کو راہ نہیں دیتا۔

اس آیت میں ثابت ہوتا ہے کہ ہر مسلمان پر اللّه عزوجل اور اس کے رسول صلی اللّه تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم کی محبت فرضِ عین ہے کیونکہ اس آیت کا حاصلِ مطلب یہ ہے کہ اے مسلمانوں! جب تم ایمان لائے ہو اور اللّه رسول کی محبت کا دعویٰ کرتے ہو تو اب اس کے بعد اگر تم لوگ کسی غیر کی محبت کو اللّه رسول کی محبت پر ترجیح دو گے تو خوب سمجھ لو کہ تمہارا ایمان اور اللّه رسول کی محبت کا دعویٰ بالکل غلط ہو جائے گا اور تم عذابِ الٰہی اور قہر خداوندی سے نہ بچ سکو گے۔ نیز آیت کے آخری ٹکڑے سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ جس کے دل میں اللّه رسول کی محبت نہیں یقیناً بلاشبہ اس کے ایمان میں خلل ہے۔

5۔ تعظیمِ رسول صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم


امت پر حضور صلی اللّه تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم کے حقوق میں ایک نہایت ہی اہم اور بہت ہی بڑا حق یہ ہے کہ ہر امتی پر فرضِ عین ہے کہ وہ حضورِ اکرم صلی اللّه تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم اور آپ صلی اللّه تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم سے نسبت و تعلق رکھنے والی تمام چیزوں کی تعظیم و توقیر اور ان کا ادب و احترام کرے اور ہر گز ہر گز کببھی ان کی شان میں کوئی بے ادبی نہ کرے۔ احکم الحاکمین کا فرمانِ والا شان ہے کہ 

انا ارسلنٰك شاھدا و مبشرا و نذیرا۝ لتؤمنو باللّه و رسوله و تعزروه و توقروهؕ و تسبحوه بکرة و اصیلا (الفتح: 8،9)
بے شک ہم نے تمہیں (اے رسول) بھیجا حاضر و ناظر اور خوشخبری دینے والا اور ڈر سنانے والا تاکہ اے لوگو! تم اللّه اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم و توقیر کرو اور صبح و شام اللّه کی پاکی بولو۔

6۔ مدحِ رسول صلی اللّه تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم


ہر امتی پر یہ بھی رسول اللّه صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کا حق ہے جس کو ادا کرنا امت پر لازم ہے رسول اکرم صلی اللّه تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم کی مدح و ثناء کا ہمیشہ اعلان اور چرچا کرتا رہے اور ان کے فضائل و کمالات کو علی الاعلان بیان کرتا رہے۔ حضور علیہ الصلوة و السلام کے فضائل و محاسن کا ذکرِ جمیل رب العالمین جل جلاله و اور تمام انبیاء و مرسلین علیہ الصلوة و التسلیم کا مقدس طریقہ ہے۔ حضرت حق جل مجدہ نے قرآن کریم کو اپنے حبیب صلی اللّه تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم کی مدح و ثناء کے قسم قسم کے گل ھائے رنگا رنگ کا ایک حسین گلدستہ بنا کر نازل فرمایا ہے اور پورے قرآن میں آپ کی مقدس نعت و صفات کی آیات بینات اسطرح چمک چمک کر جگمگا رہی ہیں جس طرح آسمان پر ستاروں کی بارات اپنی تجلیات کا نور بکھیرتی رہتی ہیں۔ اور انبیاء سابقین کی مقدس آسمانی کتابیں بھی اعلان کر رہی ہیں کہ ہر نبی اور رسول اللّه کے حبیب صلی اللّه تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم کی مدح و ثنا کا نقیب اور ان کے فضائل و محاسن کا خطیب بن کر عمر بھی فضائل مصطفیٰ صلی اللّه تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم کے فضل و کمال اور ان کے جاہ و جلال کا ڈنکا بجاتا رہا۔

ہر حسان بن ثابت رضی اللّه تعالیٰ عنہ اور حضرت عبد اللّه بن رواحہ، کعب بن زہیر وغیرہ صحابہ کرام رضی اللّه تعالیٰ عنھما نے دربارِ نبوت کا شاعر ہونے کی حیثیت سے ایسی ایسی نعت پاک کی مثالیں پیش کیں کہ آج تک بڑے بڑے باکمال شعراء ان کا سن کر سر دھنتے رہتے ہیں اور ان شآء اللّه تعالیٰ قیامت تک حضور سرور عالم صلی اللّه تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم کی مدح و ثناء کا چرچا نظم و نثر میں اسی شان سے ہوتا رہے گا۔ 

رہے گا یونہی ان کا چرچا رہے گا
پڑے خاک ہو جائیں جل جانے والے

7۔ درود شریف


ہر مسلمان پر واجب ہے کہ رسول اللّه صلی اللّه تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم پر درود شریف پڑھتا رہے چنانچہ خالقِ کائنات جل جلاله کا حکم ہے کہ 

ان اللّه و ملٰئکته یصلون علی النبی یآیھا الذین آمنو صلو علیه و سلمو تسلیما۝ (الاحزاب: 56)
بے شک اللّه اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں اے مؤمنو تم بھی ان پر درود بھیجتے رہو اور ان پر سلام بھیجتے رہو جیسا سلام بھیجنے کا حق ہے

حضورِ اکرم صلی اللّه تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم کا ارشاد ہے کہ جو مجھ پر ایک مرتبہ درود شریف بھیجتا ہے اللّه تعالیٰ اس پر دس پر مرتبہ درود شریف (رحمت) بھیجتا ہے۔ (الصحیح المسلم، کتاب صلوة، باب صلوة النبی صلی اللّه تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم، الحدیث، 408)


درود شریف کے فضائل و فوائد بہت زیادہ ہیں یہاں بہ نظر اختصار ہم نے اس کا ذکر نہیں کیا۔ خداوند کریم ہم تمام مسلمانوں کو زیادہ سے زیادہ درود شریف پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

8۔ قبرِ انور کی زیارت


حضور اقدس صلی اللّه تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم کے روضہ مقدسہ کی زیارت سنت مؤکدہ قریب بہ واجب ہے۔ اللّه تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے کہ 

و لو انھم اذ ظلموآ انفسھم جآؤك فاستغفروا اللّه و استغفرلھم الرسول لوجدو اللّه توابا رحیما۝ (النساء: 64)
اور اگر یہ لوگ جس وقت کہ اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں آپ کے پاس آ جاتے ہیں اور خدا سے بخشش مانگتے اور رسول ان کے لئے بخشش کی دعا فرماتے تو یہ لوگ اللّه کو بہت زیادہ بخشنے والے مہربان پاتے۔

اس آیت میں گناہگاروں کے گناہ کی بخشش کے لئے ارحم الراحمین نے تین شرائط لگائیں ہیں اول، دربارِ رسول صلی اللّه تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم میں حاضری۔ دوئم، استغفار اور سوئم، رسول اللّه صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کی دعائے مغفرت اور یہ حکم حضور صلی اللّه تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم کی ظاہری دنیاوی حیات تک ہی محدود نہیں بلکہ روضۂ اقدس میں حاضری بھی یقیناً دربارِ رسول ہی میں حاضری ہے۔ اسی لئے علمائے کرام نے تصریح فرما دی ہے کہ حضؤر علیہ الصلاة و السلام کے دربار کا یہ فیض آپ صلی اللّه تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم کی وفاتِ اقدس سے منقطع نہیں ہوا ہے۔ اس لئے جو گناہگار قبرِ انور کے پاس حاضر ہو جائے اور وہاں خدا سے استغفار کرے اور چونکہ حضور صلی اللّه تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم تو اپنی قبرِ انور میں اپنی امت کے لئے استغفار فرماتے ہی رہتے ہیں اس لئے اس گناہگار کے لئے مغفرت کی تینوں شرائط پائی گئیں۔ اسی لئے ان شاء اللّه تعالیٰ اس کی ضرور مغفرت ہو جائے گی۔

مذکور بالا آیت کے علاوہ بہت سی احادیث بھی روضۂ منورہ کی زیارت کے فضائل میں وارد ہوئی ہیں جن کو علامہ سمہودی رحمتہ اللّه تعالیٰ علیہ نے اپنی کتاب "وفاء الوفا" اور دوسرے مستند سلف صالحین علمائے دین نے اپنی اپنی کتابوں میں نقل فرمایا ہے ہم یہاں مثال کے طور پر صرف تین احادیث بیان کرتے ہیں:

1۔ من زار قبری وجبت له شفاعتی (سنن دار القطنی کتاب الحج: 2669)
جس میری قبر کی زیارت کی اس کے لئے میری شفاعت واجب ہوگئی

2۔ من حج البیت و لم یزرنی فقد جفانی (الکام فی ضعفاء الرجال، 248)
جس نے بیت اللّه کا حج کیا اور میری زیارت نہ کی اس نے مجھ پر ظلم کیا

3۔ من زارنی بعد موتی فکانما زارنی فی حیاتی ومن مات باحد الحرامین بعث من آمنین یوم القیامة (سنن دار القطنی کتاب الحج، 2668)
جس نے میری وفات کے بعد میری زیارت کی اس نے گویا میری حیات میں میری زیارت کی اور جو حرمین شریفین میں سے ایک میں مر گیا وہ قیامت کے دن امن والوں کی جماعت میں اٹھایا جائے گا۔

اسی لئے صحابہ کرام رضی اللّه تعالیٰ عنھما کے مقدس زمانے سے لے کر آج تک تمام دنیا کے مسلمان قبرِ منور کی زیارت کرتے اور آپ صلی اللّه تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم کی مقدس جناب میں توسل اور استغاثہ کرتے رہے ہیں اور ان شآء اللّه تعالیٰ قیامت تک یہ مبارک سلسلہ جاری رہے گا۔


(سیرتِ مصطفیٰ صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم از شیخ الحدیث حضرت علامہ عبد المصطفیٰ اعظمی رحمتہ اللّه تعالیٰ علیہ)

Saturday, December 3, 2016

نگار من کہ بہ مکتب نرفت و خط ننوشت

حضور صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کا مبارک لقب "اُمّی" ہے۔ اس لفظ کے مختلف معنیٰ ہو سکتے ہیں یا تو یہ "اُم القریٰ" کی طرف نسبت ہے۔ "اُم القریٰ" مکہ مکرمہ کا لقب ہے۔ اور یہ وہ شہر ہے کہ جس کی طرف ساری دنیا کھچی چلی آتی ہے۔ اس کے علاوہ قرآن حکیم کو رب عزوجل نے قرآن ہی میں "اُم الکتاب" فرمایا یعنی تمام کتابوں سے افضل، یعنی تمام فصاحت و بلاغت کی جڑ۔ 

"اُمّی" کے یہ معنیٰ ہیں کہ آپ نے دنیا میں کسی انسان سے لکھنا پڑھنا نہیں سیکھا۔ یہ حضور اقدس صلی اللّه علیہ وآلہ وسلم کا بہت ہی عظیم الشان معجزہ ہے کہ دنیا میں کسی نے بھی آپ صلی اللّه علیہ وآلہ وسلم کو نہیں پڑھایا لکھایا۔ مگر خداوند قدوس نے آپ صلی اللّه علیہ وآلہ وسلم کو اس قدر علمل عطا فرمایا کہ آپ صلی اللّه علیہ وآلہ وسلم کا سینہ اولین و آخرین کے علوم و معارف کا خزینہ بن گیا۔ اور آپ پر ایسی کتاب نازل ہوئی جس کی شان "تبیاناً لکل شئی" (ہر ہر چیز کا روشن بیان)۔ حضرت مولانا جامی رحمتہ اللّه تعالیٰ علیہ نے کیا خوب فرمایا ہے کہ

نگار من کہ بہ مکتب نرفت و خط ننوشت 
بغمرہ سبق آموز صد مدرس شد

یعنی میرے محبوب صلی اللّه علیہ وآلہ وسلم نہ کبھی مکتب میں گئے، نہ لکھنا سیکھا مگر اپنے چشم و ابرو کے اشارہ سے سیکڑوں مدرسوں کو سبق پڑھا دیا۔

ظاہر ہے کہ جس کا استاد اور تعلیم دینے والا خلاق عالم جل جلاله ہو بھلا اس کو کسی اور استاد سے تعلیم حاصل کرنے کی ضرورت ہوگی؟ اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی قدس سرہ العزیز نے ارشاد فرمایا کہ

ایسا "امی" کس لئے منت کش استاذ ہو
کیا کفایت اس کا "اقرء ربك الاکرم" نہیں

آپ صلی اللّه علیہ وآلہ وسلم کے "اُمّی" لقب ہونے کا حقیقی راز کیا ہے؟ اس کو تو خداوند علام الغیوب کے سوا اور کون بتا سکتا ہے؟ لیکن بظاہر اس میں چند حکمتیں اور فوائد معلوم ہوتے ہیں۔

اول:


یہ کہ تمام دنیا کو علم و حکمت سکھانے والے حضور صلی اللّه تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ہوں اور آپ صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کا استاد صرف خداوند عالم ہی ہو، کوئی انسان آپ صلی اللّه تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم کا استاذ نہ ہوتا کہ کبھی کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ پیغمبر تو میرا پڑھایا ہوا شاگرد ہے۔

دوم:

یہ کہ کوئی شخص یہ خیال نہ کر سکے کہ فلاں آدمی حضور صلی اللّه تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم کا استاد تھا تو شاید وہ حضور صلی اللّه علیہ وآلہ وسلم سے زیادہ علم والا ہوگا۔ 

سوم:

حضؤر صلی اللّه تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں کوئی یہ وہم بھی نہ کر سکے کہ حضور صلی اللّه علیہ وآلہ وسلم چونکہ پڑھے لکھے آدمی تھے اس لئے انہوں نے خود ہی قرآن کی آیتوں کی کو اپنی طرف سے بنا کر پیش کیا ہے اور قرآن انہیں کا بنایا ہوا کلام ہے۔ 

چہارم:


جب حضور صلی اللّه علیہ وآلہ وسلم ساری دنیا کو کتاب و حکمت کی تعلیم دیں تو کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ پہلی اور پرانی کتابوں کو دیکھ دیکھ کر اس قسم کی انمول اور انقلاب آفریں تعلیمات دنیا کے سامنے پیش کر رہے ہیں۔

پنجم:

اگر حضور صلی اللّه علیہ وآلہ وسلم کا کوئی استاد ہوتا تو آپ صلی اللّه تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو اس کی تعظیم کرنی پڑتی حالانکہ حضور صلی اللّه علیہ وآلہ وسلم کو خالق کائنات نے اس لئے پیدا فرمایا تھا کہ سارا عالم آپ صلی اللّه علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم کرے۔ اس لئے حق جل شانه نے اس کو گوارا نہیں فرمایا کہ میرا محبوب کسی کے آگے زانوئے تلمذ تہ کرے اور کوئی اس کا استاد ہو۔ (واللّه تعالیٰ اعلم) 

علامہ شرف الدین بوصیری علیہ الرحمتہ نے قصیدہ بردہ شریف میں ان الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا ہے ۔ ۔ ۔


فاق النبین فی خلق و فی خلق
ولم یدانوه فی علم ولا کرم

فان من جودك الدنیا و ضرتھا
ومن علومك علم اللوح و القلم

ہمارے حضور صلی اللّه علیہ وآلہ وسلم تمام انبیاء پر فوقیت حاصل فرما چکے ہیں شکل و صورت  ظاہری اور خلق حسن باطنی میں اور کوئی نبی حضور صلی اللّه تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے مراتب کے قریب بھی نہیں پہنچ سکا، مرتبہ، علم و کرم میں۔

حضور صلی اللّه علیہ وآلہ وسلم آپ کے ہی خوان جود و کرم سے دنیااور اس کی ضد یعنی آخرت کا وجود اور لوح و قلم کے علم آپ کے علم آپ دائرہ معلومات کا ایک جُز ہیں

  

Thursday, December 1, 2016

کوئی تجھ سا ہوا ہے نہ ہوگا شہا

صحابہ کرام رضوان اللّه تعالیٰ علیھم اجمعین نے اپنی تمام عمریں حضور ختمی المرتبت صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کے در دولت پر وار دیں اور اسے اپنی سعادت جانا۔ سفر و حزر میں حضور صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کے ہمراہ رہے اور ایسا اکتساب فیض  کیا کہ آج آنے والے عشّاقانِ مصطفیٰ صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم ان کے مقدس در پر سوالی بن کر کھڑے ہیں اور ان کے ارشادات کی روشنی میں حضور صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کی حیات مبارکہ، آپ صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کے معجزات و کمالات، آپ صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کے اخلاق کریمہ اور شمائل و خصائل سے رہنمائی پاتے ہیں۔ حضور صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کے سراپا باکمال کے متعلق جو معروف ارشادات حضور صلی اللّہ علیہ وآلہٖ وسلم کے صحابہ کرام رضوان اللّه تعالیٰ علیھم اجمعین نے بیان فرمائے، ان میں سے چند چیدہ چیدہ (کیونکہ اس بے مثل و بے مثال سراپائے اقدس کا احاطہ تو ممکن ہی نہیں) نقل کرنے کی سعادت حاصل کرتا ہوں کہ ماہِ میلاد ربیع النور شریف کی ان مبارک ساعتوں میں ہم بھی اس چوکھٹ سے فیض پانے والوں میں شامل ہوں۔ بارہویں کی نسبت سے سراپائے باکمال و بے مثال کے بارہ نکات پر منتخب روایات پیش کرنے کی سعادت حاصل کرتا ہوں۔

1۔ جسم اطہر:

حضرت ابوہریرہ رضی اللّه تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کے جسم اقدس کا رنگ گورا سپید تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا آپ کا مقدس بدن چاندی سے ڈھال کر بنایا گیا ہے۔ (شمائل ترمذی، صفحہ 2) حضرت انس رضی اللّه تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کا جسم مبارک نہایت نرم و نازک تھا۔ میں نے دیبا وحریر کو بھی آپ کے بدن سے زیادہ نرم و نازک نہیں دیکھا ۔ اور آپ صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کے جسم مبارک کی خوشبو سے زیادہ اچھی کوئی خوشبو نہیں سونگھی۔ (بخاری جلد1، صفحہ 503، صفتہ النبی صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم) حضرت کعب بن مالک رضی اللّه تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ جب حضور صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم خوش ہوتے تھے تو آپ کا چہرۂ انور اس طرح چمک اٹھتا تھا کہ گویا چاند کا ایک ٹکڑا ہے اور ہم لوگ اس کیفیت سے حضور صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کی شادمانی و مسرت کو پہچان لیتے تھے۔

2۔ جسمِ انور کا سایہ نہ تھا


آپ صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کے قد مبارک کا سایہ نہ تھا۔ سورج کی روشنی اور چاند کی چاندنی میں رسول اللّه صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کا سایہ نہیں پڑتا تھا۔ (حکیم ترمذی، نوادر الاصول، متوفی 255 ھ) امام ابن سبع رحمتہ اللّه تعالیٰ علیہ کا قول ہے کہ یہ آپ صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کے معجزات میں سے ہے کہ آپ صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کا سایہ نہیں پڑتا تھا اور آپ نور تھے اس لئے جب آپ جب دھوپ یا چاندی میں چلتے تو آپ کا سایہ نظر نہ آتا تھا (کیونکہ سایہ کثیف کا ہوتا ہے لطیف کا نہیں اور سورج و چاند کی کرنیں کیونکہ آپ کا سایہ بناتی کہ جب ان کا نور آپ صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کے نور کا ہی صدقہ ہے) ۔ عبد اللّه بن مبارک اور ابن الجوزی رحمتہ اللّه علیھما نے بھی حضرت عبد اللّه بن عباس رضی اللّه تعالیٰ عنہما سے روایت کی ہے کہ حضور صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کا سایہ نہیں تھا۔ (المواھب الدنیہ مع شرح الزرقانی، الفصل الاول فی کمال خلقته، جلد 5، ص 524)

چونکہ حضور صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم نے خود کے لئے اپنے رب سے جو دعا مانگی اس کا اختتام "واجعلنی نورا" پہ فرمایا تو اس کا اظہار یوں ہوا کہ جسمِ اطہر کے تو کیا ہی کہنے، حضور صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کے کپڑوں پر بھی کبھی نہ جوئیں پڑیں، نہ کبھی کھٹمل یا مچھر نے آپ کو کاٹا۔ (شفاء الصدور فی اعلام نبوة الرسول، ابو الربیع سلیمان بن سبع)

3۔ مہر نبوت

حضور صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کے دونوں مبارک شانوں کے درمیان کبوتر کے انڈے کے برابر "مہرِ نبوت" تھی۔ یہ بظاہر سرخی مائل ابھرا ہوا گوشت تھا۔ (شمائل ترمذی، صفحہ 3) اور اس پر یہ عبارت لکھی ہوئی تھی کہ

اللّه وحده لا شریك له بوجه حیث کنت فانك منصور 
یعنی ایک اللّه ہے اس کا کوئی شریک نہیں (اے رسول!) آپ جہاں بھی رہیں گے آپ کی مدد کی جائے گی
(حاشیہ جامع ترمذی، ابواب المناقب، باب ماجاء فی خاتم النبوة، حاشیة:2، جلد 2، صفحہ 206) 


4۔ قد مبارک

حضرت انس رضی اللّه تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ حضور صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم نہ بہت زیادہ لمبے تھے نہ پستہ قد بلکہ آپ صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کا مقدس بدن انتہائی خوب صورت تھا، جب چلتے تھے تو کچھ خمیدہ ہو کر چلتے تھے۔ (شمائل ترمذی، صفحہ 1) اور مولائے کائنات مولا مشکل کشا جناب علی المرتضیٰ کرم اللّه تعالیٰ وجھه الکریم فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم نہ طویل قامت تھے نہ پستہ قامت تھے۔ بوقتِ رفتار ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا آپ کسی بلندی سے اتر رہے ہیں۔ میں نے آپ کا مثل نہ آپ صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم سے پہلے دیکھا نہ آپ صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کے بعد۔ (شمائل ترمذی صفحہ 1) 

قد بے سایہ کے سایۂ مرحمت 
ظل ممدود رافت پہ لاکھوں سلام

طائرانِ قدس جس کی ہیں قمریاں
اس سہی سروِ قامت پہ لاکھوں سلام

5۔ سر مبارک اور گیسو مبارک


حضرت علی رضی اللّه تعالیٰ عنہ نبی کریم صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کا حلیہ مبارک بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ "ضخم الراس" یعنی آپ صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کا سر مبارک بڑا تھا (جو شاندار اور وجیہ ہونے کا نشان ہے)۔ (شمائل ترمذی)

حضور صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کے موئے مبارک نہ گھونگھر دار تھے نہ بالکل سیدھے بلکہ ان دونوں کیفیتوں کے درمیان تھے۔ آپ صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کے مقدس بال پہلے کانوں کی لو  تک تھے پھر شانوں تک خوبصورت گیسو لٹکتے تھے مگر حجتہ الواداع کے موقع پر آپ صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنے بالوں کو اتروا دیا۔ اعلیٰ حضرت نے کیا خوب منظر کشی کی

گوش تک سنتے تھے فریاد اب آئے تا دوش
کہ بنیں خانہ بدوشوں کو سہارے گیسو

آخرِ حج غمِ اُمت میں پریشاں ہو کر
تیرہ بختوں کی شفاعت کو سدھارے گیسو

آپ صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم اکثر بالوں میں تیل بھی ڈالتے تھے اور کبھی کبھی کنگھی بھی کرتے تھے اور اخیر زمانہ میں بیچ سر میں مانگ بھی نکالتے تھے۔ آپ صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کے مقدس بال آخر عمر تک سیاہ رہے، سر اور داڑھی شریف میں بیس بالوں سے زیادہ سفید نہیں ہوئے۔ (شمائل ترمذی، صفحہ 4-5)

6۔ رُخِ انور


حضور صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کا چہرۂ منور جمالِ الٰہی کا آئینہ اور انوارِ تجلی کا مظہر تھا۔ نہایت ہی وجیہ، پر گوشت اور کسی قدر گولائی لئے ہوئے تھا۔ حضرت جابر بن سمرہ رضی اللّه تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے رسول اللّه صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کو ایک مرتبہ چاندنی رات میں دیکھا میں ایک مرتبہ چاند کی طرف دیکھتا اور ایک مرتبہ آپ صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کے چہرۂ انور کو دیکھتا تو مجھے آپ صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کا چہرہ چاند سے بھی زیادہ خوبصورت نظر آتا تھا۔ ( الشمائل المحمدیه، باب ماجاء فی خلق رسول اللّه صلی اللّه علیہ وسلم، الحدیث 9، صفحہ 64) حضرت علی رضی اللّه تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ 

من راٰہ بدیھة ھابه ومن خالطه معرفة احبه
جو آپ صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کو اچانک دیکھتا وہ آپ صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کے رعب داب سے ڈر جاتا اورپہچاننے کے بعد آپ صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم سے محبت کرنے لگتا تھا۔ (شمائل ترمذی، صفحہ 2) 

چاند سے منہ پہ تاباں درخشاں درود 
نمک آگیں صباحت پہ لاکھوں سلام

جس سے تاریک دل جگمگانے لگے
اس چمک والی رنگ پہ لاکھوں سلام 


7۔ محراب ابرو

آپ صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کی بھوئیں دراز و باریک اور گھنے بال والی تھیں اور دونوں بھوئیں اس قدر متصل تھیں کہ دور سے دونوں ملی ہوئی معلوم ہوتی تھیں اور دونوں بھوؤں کے درمیان ایک رگ تھی جو غصہ کے وقت ابر جاتی تھی۔ (شمائل المحمدیة، باب ماجاء فی خلق رسول اللّه صلی اللّه علیہ وسلم، الحدیث: 7، صفحہ 21) پیر سید مہر علی شاہ صاحب فرماتے ہیں

دو ابرو قوس مثال دسن
جتھوں نوک مژہ دے تیر جھٹن

لباں سرخ آکھاں کہ لعل یمن
چٹے دند موتی دیاں ہن لڑیاں

اور اعلیٰ حضرت گویا ہوئے تو حد کمال کو پہنچے


جن کے سجدے کو محرابِ کعبہ جھکی
ان بھوؤں کی لطافت پہ لاکھوں سلام


8۔ نورانی آنکھ



آپ صلی اللّه علیہ وآلہ وسلم کی چشمان مبارک بڑی بڑی اور قدرتی طور پر سرمگیں تھیں۔ پلکیں گھنی اور دراز تھیں۔ پتلی کی سیاہی خوب سیاہ اور آنکھ کی سفیدی خوب سفید تھی جن میں باریک باریک ڈورے تھے۔ (الشمائل المحمدیة، باب ماجاء فی خلق رسول اللّه صلی اللّه علیہ وسلم، الحدیث: 6، صفحہ 19) آپ صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کا یہ اعجاز ہے کہ آپ بہ یک وقت آگے پیچھے، دائیں بائیں، اوپر نیچے، دن رات، اندھیرے اجالے میں یکساں دیکھا کرتے تھے۔ (زرقانی علی المواہب جلد 5، صفحہ 246) پھر آپ صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کا دیکھنا محسوسات تک ہی محدود نہیں تھا بلکہ آپ غیر مرئی و غیر محسوس  چیزوں کو بھی جو آنکھوں سے دیکھنے کے لائق ہی نہیں ہیں دیکھ لیا کرتے تھے۔ چنانچہ بخاری شریف کی ایک روایت ہے کہ "واللّه ما یخفی علی رکوعکم ولا خشوعکم" (بخاری جلد 1، صفحہ 59) یعنی خدا کی قسم! تمہارا رکوع و خشوع میری نگاہوں سے پوشیدہ نہیں رہتا۔



9۔ گوش مبارک



آپ صلی اللّه تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم کی آنکھوں کی طرح آپ صلی اللّه تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم کے کان میں بھی معجزانہ شان تھی۔ چنانچہ آپ صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم نے خود اپنی زبان اقدس سے ارشاد فرمایا کہ "انی اری مالا ترون و اسمع مالا تسمعون" (خصائص کبریٰ، جلد 1، صفحہ 67) یعنی میں ان چیزوں کو دیکھتا ہوں جن کو تم میں سے کوئی نہیں دیکھتا اور میں ان آوازوں کو سنتا ہوں جن کو تم میں سے کوئی نہیں سنتا۔ (الخصائص الکبری للسیوطی، باب الایة فی سمعه الشریف، جلد 1، صفحہ 113)

آپ صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کے حلیف بنی خزاعہ نے تین دن کی مسافت سے آپ کو اپنی امداد و نصرت کے لئے پکارا تو آپ صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم نے ان کی فریاد سن لی۔ علامہ زرقانی نے اس حدیث کی شرح میں فرمایا کہ "لا بعد فی سمآعه صلی اللّه تعالی علیه وسلم فقد کان یسمع اطیط السمآء"یعنی اگر حضور اقدس صلی اللّه تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم نے تین دن کی مسافت سے ایک فریادی کی فریاد سن لی تو یہ آپ سے کوئی بعید نہیں ہے کیونکہ آپ تو زمین پر بیٹھے ہوئے آسمانوں کی چرچراہٹ کو سن لیا کرتے تھے بلکہ عرش کے نیچے چاند کے سجدہ میں گرنے کی آواز کو بھی سن لیا کرتے تھے۔ (شرح الزرقانی علی المواھب، باب غزوة الفتح الاعظم، جلد 3، صفحہ 381)

دور و نزدیک کے سننے والے وہ کان
کان لعل کرامت پہ لاکھوں سلام


10۔ دہن شریف اور لعابِ دہن

حضرت ہند بن ابی ہالہ رضی اللّه تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ آپ صلی اللّه علیہ وآلہ وسلم کے رخسار نرم و نازک اور ہموار تھے اور آپ صلی اللّه علیہ وآلہ وسلم کا منہ مبارک فراخ، دانت کشادہ اور روشن تھے۔ جب آپ صلی اللّه تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم گفتگو فرماتے تو آپ صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کے دونوں اگلے دانتوں کے درمیان سے ایک نور نکلتا تھا اور جب کبھی اندھیرے میں آپ صلی اللّه علیہ وآلہ وسلم مسکرا دیتے تو دندانِ مبارک کی چمک سے روشنی ہو جاتی تھی۔ (الشمائل المحمدیة، باب ماجاء فی خلق رسول اللّه صلی اللّه علیہ وسلم، الحدیث: 7،  14، صفحہ 1،2،26) آپ صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کو کبھی جمائی نہیں آئی اور یہ تمام انبیاء علیہم السلام کی خاصہ ہے کہ ان کو کبھی بھی جمائی نہیں آتی کیونکہ جمائی شیطان کی طرف سے ہوا کرتی ہے اور حضرات انبیاء علیھم السلام شیطان کے تسلط سے مخفوظ و معصوم ہیں۔ (المواھب اللدنیة و شرح الزرقانی، الفصل الرابع ما اختص به ۔ ۔ ۔ الخ، جلد 7، صفحہ 98)


آپ صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کا لعابِ دہن زخمیوں اور بیماریوں کے لئے شفاء اور زہروں کے لئے تریاقِ اعظم تھا۔ حضور سرور کائنات صلی اللّه علیہ وآلہ وسلم کے لعابِ دہن کے بے شمار معجزات ہیں وہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللّه تعالیٰ عنہ کا پاؤں ہو کہ سیدنا علی المرتضیٰ کے لئے آشوبِ چشم ہو، رفاعہ بن رافع رضی اللّه تعالیٰ عنہ کی آنکھ ہو  کہ ابو قتادہ رضی اللّه تعالیٰٰ عنہ کا چہرہ ہو سب نے شفا پائی۔ حضرت انس رضی اللّه تعالیٰ عنہ کے گھر میں ایک کنواں تھا۔ آپ نے اس میں اپنا لعاب دہن ڈال دیا تو اس کا پانی شیریں ہوگیا کہ مدینہ منورہ میں اس سے بڑھ کر کوئی شیریں کنواں نہ تھا۔

جس کے پانی سے شاداب جان و جناں
اس دہن کی طراوت پہ لاکھوں سلام

جس سے کھاری کنوئیں شیرۂ جاں بنے
اس زلال حلاوت پہ لاکھوں سلام

11۔ آواز مبارک

یہ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کے خصائص میں سے ہے کہ وہ خوب صورت اور خوش آواز ہوتے ہیں لیکن حضور سید المرسلین صلی اللّه علیہ وآلہ وسلم تمام انبیاء علیہم السلام سے زیادہ خوبرو اور سب سے بڑٖھ کر خوش گلو، خوش آواز اور خوش کلام تھے، خوش آوازی کے ساتھ ساتھ آپ اس قدر بلند آواز بھی تھے کہ خطبوں میں دور اور نزدیک والے سب یکساں اپنی اپنی جگہ پر آپ کا مقدس کلام سن لیا کرتے تھے۔ (شرح الزرقانی علی المواھب، الفصل الاول فی کمال خلقته ۔ ۔ ۔ الخ، جلد 5، صفحہ 444، 445)

جس میں نہریں ہیں شیر و شکر کی رواں
اس گلے کی نضارت پہ لاکھوں سلام


12۔ دستِ رحمت

آپ صلی اللّه علیہ وآلہ وسلم کی مقدس ہتھیلیاں چوڑی، پُر گوشت، کلائیاں لمبی، بازو دراز اور گوشت سے بھرے ہوئے تھے۔ (الشمائل المحمدیة، باب ماجاء فی خلق رسول اللّه صلی اللّه علیہ وسلم، الحدیث: 7، صفحہ 21) جس شخص سے آپ صلی اللّه علیہ وآلہ وسلم مصافحہ فرماتے وہ دن بھر اپنے ہاتھوں کو خوشبودار پاتا۔ جس بچے کے سر پر آپ صلی اللّه علیہ وآلہ وسلم اپنا دست اقدس پھیرا دیتے تھے وہ خوشبو میں تمام بچوں سے ممتاز ہوتا۔ حضرت جابر بن سمرہ رضی اللّه تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے حضور صلی اللّه علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز ظہر ادا کی پھر آپ اپنے گھر کی طرف روانہ ہوئے اور میں بھی آپ کے ساتھ ہی نکلا۔ آپ صلی اللّه علیہ وآلہ وسلم کو دیکھ کر چھوٹے چھوٹے بچے آپ صلی اللّه علیہ وآلہ وسلم کی طرف دوڑ پڑے تو آپ صلی اللّه علیہ وآلہ وسلم ان میں سے ہر ایک کے رخسار پر اپنا دستِ رحمت پھیرنے لگے میں سامنے آیا تو میرے رخسار پر بھی آپ صلی اللّه علیہ وآلہ وسلم نے اپنا دستِ مبارک لگا دیا تو میں نے اپنے گالوں پر آپ صلی اللّه علیہ وآلہ وسلم کے دستِ مبارک کی ٹھنڈک محسوس کی اور ایسی خوشبو آئی کہ گویا آپ صلی اللّه علیہ وآلہ وسلم نے اپنا ہاتھ کسی عطر فروش کی صندوقچی میں سے نکالا ہے۔ (صحیح مسلم، کتاب الفضائل، باب طیب رائحة النبی صلی اللّه علیہ وآلہ وسلم ۔ ۔ ۔ الخ، الحدیث: 2329، صفحہ 1271) 

ہاتھ جس سمت اٹھا غنی کر دیا
موج بحر سماحت پہ لاکھوں سلام



(یہ بیان وہ بیان ہے کہ دریا خشک ہو جائیں تب بھی حق ادا نہیں ہوسکتا، چند کلمات خیر جو عرض کرنے کی سعادت کی حاصل کی ان کا ماخذ "سیرتِ مُصطفیٰ صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم"  از شیخ الحدیث حضرت علامہ عبد المصطفیٰ اعظمی علیہ الرحمتہ اللّه الغنی ہے۔) 

Monday, November 28, 2016

مہرۂ ناچیز

خبروں میں ہے کہ برسرِ اقتدار سیاسی پارٹی کی ایک خاتون کارکن کسی ہوٹل کے کمرے میں مردہ پائی گئیں۔ یہ خبر ذہن میں ہی تھی کہ علامہ اقبال رحمتہ اللّه علیہ کے دو شعر "سیاست" کے عنوان سے نظر سے گزرے۔ خدا جانے کیوں لیکن مجھے اس خبر میں اور ان اشعار میں گہری مطابقت معلوم ہوئی۔ ڈاکٹر علامہ محمد اقبال رحمتہ اللّه تعالیٰ علیہ کا اندازِ بیاں اپنے آپ میں منفرد اور بے مثال ہے۔ آپ بعض موضوع پر سیر حاصل گفتگو فرماتے ہیں اور اس کے گوشے گوشے پر روشنی ڈالتے ہیں جبکہ بعض موضوعات پر اختصار کے ساتھ چوٹ کرتے ہیں۔ جہاں تک میں سمجھ سکا، اقبال ایک تحریک کا نام ہے، شعور کو، ضمیر کو بیدار کرنے کا نام ہے۔ اگر اقبال کو پڑھ کے، سن کے انسان میں تبدیلی نہیں آ رہی تو جان لیں کہ اقبال کے الفاظ تو آپ تک پہنچے لیکن الفاظ کی تاثیر آپ کے قلب تک نہ پہنچ سکی۔


اس کھیل میں تعین مراتب ہے ضروری
شاطر کی عنایت سے تو فرزیں، میں پیادہ

بیچارہ پیادہ تو ہے اک مہرۂ ناچیز
فرزیں سے بھی پوشیدہ ہے شاطر کا ارادہ


ہم دیکھتے ہیں کہ کوئی محفل ہو، کوئی بیٹھک ہو یا کوئی رسمی یا غیر رسمی ملاقات ہو، ہمارے ترجیحی موضوعات میں سیاسیت پیش پیش رہتی ہے۔ سوشل میڈیا پر ایک اچھی خاصی تعداد ہے کہ جن کا اوڑھنا بچھونا ہی سیاست ہے۔ یہ سب چیزیں اس بات کی نشاندہی کر رہی ہیں کہ یہ معاشرہ سیاست کو سنجیدگی سے لیتا ہے اور اسے خاص اہمیت دیتا ہے۔ سطحی وابستگی سے لے کر جذباتیت کی آخری حدود تک ہر شخص کا اپنا نظریہ ہے تو اس کے نظریے کا منکر اس شخص کا حریف ہے۔ یہ تفریق اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ دینی تعلیمات اور اقدار جیسی کسی چڑیا سے ہم اب واقف ہی نہیں۔ اقبال ہی نے ایک اور جگہ پر کہا تھا:


جلال پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی

سوشل میڈیا پر ایک دوسرے کو ننگی گالیاں دینے والے، پولنگ بوتھ پر دست و گریباں ہونے والے، پریس و ڈیجیٹل میڈیا پر آ کر اپنے قائدین کا دفاع کرنے والے اور انہی کے نقش قدم پر چلنے والے دیگر یہ کیوں نہیں سوچتے کہ وہ ایک "مہرۂ ناچیز" ہی تو ہیں۔ اور مہرۂ ناچیز کو اہمیت نہیں دی جاتی، انہیں عزت نہیں دی جاتی، انہیں محض استعمال کیا جاتا ہے۔ لیکن یہ مہرے شاید یہ سب سوچنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے کیونکہ اگر یہ باشعور ہوتے تو تضادات کے تناظر میں حق و باطل میں فرق کر پاتے۔ جہالت کے مختلف درجات پر موجود یہ شیدائی اپنے اپنے نظریات کی تشریح میں گم ہیں۔


ان غلاموں کا یہ مسلک ہے کہ ناقص ہے کتاب
کہ سکھلاتی نہیں مؤمن کو غلامی کے طریق

Tuesday, November 15, 2016

صنفِ تضاد


صنفِ تضاد شاعری کی ایک ایسی صنف جس میں متضاد الفاظ استعمال ہوتے ہیں یعنی اگر مصرعہ اولیٰ میں دن آیا ہے تو مصرعہ ثانی میں رات۔ اسی تضاد کے باعث اس صنف کے اشعار اہلِ ادب کے نزدیک ایک خاص مقام رکھتے ہیں۔ مزید یہ کہ ایسے اشعار کہنا ہر شاعر کے بس کی بات نہیں۔

اس مختصر سی تحریر میں اعلیٰ حضرت، جناب مولانا احمد رضا خان صاحب فاضل بریلوی رحمتہ اللّه تعالیٰ علیہ کے ایک شعر کی طرف توجہ دلانا چاہوں گا کہ جو صنف تضاد میں اپنی مثال آپ ہے۔

حسنِ یوسف پہ کٹیں مصر میں انگشتِ زناں
سر کٹاتے ہیں تیرے نام پہ مردانِ عرب

پہلی جہت:


اعلیٰ حضرت جناب سیدنا یوسف علی نبینا علیہ صلوة و السلام کی خدمت میں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے آپ کے حُسن کو پہلے مصرعے میں ذکر کرتے ہیں۔ اور دوسرے مصرعے میں جناب سیدنا و مولانا محمد مصفطیٰ صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کا مبارک تذکرہ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس میں تضاد کیا ہے تو اختصار سے عرض کیے دیتا ہوں کہ حُسن کی بنیادی طور پر دو اقسام ہیں: حُسنِ صبیح اور حُسنِ ملیح۔ حُسنِ صبیح یعنی میٹھا حُسن اور حُسنِ ملیح یعنی نمکین حُسن۔ تفصیل اور فضائل و کمالات اپنی جگہ پھر کسی مضمون میں ان شآء اللّه بیان کرنے کی سعادت حاصل کروں گا۔ یہاں محض اتنا جان لیجیئے کہ ہمارے آقا، دو جہانوں کے مولیٰ صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کا حُسن حُسنِ ملیح ہے یعنی نمکین حُسن اور سیدنا یوسف علیہ السلام کا حُسنِ مبارک، حُسنِ صبیح۔ اور حُسنِ ملیح کو حُسنِ صبیح پر فوقیت حاصل ہے۔

یہ مضمون چونکہ ہے ہی اھلِ محبت کے لئے تو مثال یوں سمجھیئے کہ جب مصر میں قحط پڑا تو جناب سیدنا یوسف علیہ السلام نے اپنے مبارک چہرے سے نقاب اُلٹ دیا اور تین ماہ تک خلقت آپ کے حُسن کو دیکھ کر اپنی بھوک سے بے نیاز رہی۔ اور جب حُسنِ مصطفیٰ صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ (حالانکہ اللّه تعالیٰ نے اپنی غیرت کے سبب اپنے محبوب صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم پر اس دنیا میں ستر پردے ڈال رکھے تھے) جلوہ افروز ہوا تو جس نے سب سے زیادہ دیکھا، یعنی سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللّه تعالیٰ عنہ، تو ان کی خواہش پوچھی گئی تو انہوں نے بھی یہی کہا کہ چہرۂ "و الضحیٰ" ہو اور یہ آنکھیں ہوں اور درمیان میں کوئی پردہ حائل نہ ہو۔ المختصر حُسنِ صبیح سے طبیعت سیر ہو جاتی ہے لیکن حُسنِ ملیح کی یہ شان ہے کہ جس نے جتنا دیکھا اس نے اسی قدر چاہ کی کہ وہ اور دیکھے، اور دیکھے اور دیکھے ۔ ۔ ۔ عارف کھڑی شریف جناب رومیٔ کشمیر میاں محمد بخش صاحب رحمتہ اللّه تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں

تِن مہینے خلقت رجی ویکھ یوسف کنعانی
تے جنہاں محمد عربی ڈٹھا وہ رجے دوئی جہانی

دوسری جہت:

شاید صاحبِ نظر افراد نے غور کیا ہو کہ فاضل بریلوی پہلے مصرعے میں حُسنِ یوسف کا تذکرہ فرما رہے ہیں جبکہ دوسرے مصرعے میں محض "تیرے نام پہ" یعنی حُسنِ مصطفیٰ صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کا مکمل بیان نہیں کیا بلکہ حُسنِ یوسف کے مقابلے میں نامِ محمد صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کو ذکر کیا۔ 

تیسری جہت:


اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں:

"حسن یوسف پہ کٹیں انگشت" اور دوسری طرف "سر کٹاتے ہیں تیرے نام پہ"

کٹیں اور کٹاتے میں زمین آسمان کا فرق ہے لیکن یہاں بھی دو طرح سے تشریح ہو سکتی ہے۔ ایک تو یہ کہ جناب یوسف علیہ السلام کا حُسن دیکھ کر زنان مصر کا انگلیوں کو کاٹنا صرف ایک مرتبہ ہوا جبکہ سرکار علیہ الصلوة و السلام کا نام نامی ہی ایسی تاثر رکھتا ہے کہ دنیا سر ہتھیلی پہ لیئے پھرتی ہے۔ اور دوسری تشریح اس کی یہ بنتی ہے کہ "کٹیں" یعنی انہوں نے ارادتاٗ نہیں کاٹیں بلکہ کٹ گئیں ۔ ۔ ۔ غیر ارادتاٗ  ۔ ۔ ۔ جبکہ سرکار نامدار مدینے کے تاجدار صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کا نام ہی ایسا با برکت ہے کہ دنیا سر کو کٹانا اپنی سعادت سمجھتی ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللّه تعالیٰ علیھم اجمعین سے لے کر غازمی ملک ممتاز حسین قادری اور غازی تنویر قادری رحمتہ اللّه تعالیٰ علیھم تک بچہ بچہ ناموس آقا پر دل و جان سے قربان ہے۔ 

چوتھی جہت:


پھر اس شعر میں دو علاقوں کا تذکرہ آیا ہے۔ پہلے مصرعے میں مصر اور دوسرے میں عرب۔ مصر اپنی تہذیب و ثقافت اور تاریخی خدوخال کے اعتبار سے نازک اندام تصور کیئے جاتے ہیں جبکہ عرب اپنی روایات کے حوالے سے جنگجو اور لڑاکا۔ 

پانچویں جہت:


زنان اور مردان یعنی عورتیں اور مرد ۔ ۔ ۔ عورتیں بھی مصر کی اور مرد ہیں تو عرب کے۔ ہم پہلے دیکھ چکے ہیں کہ مصری نازک اندام تصور کیے جاتے ہیں اور عورت کا تو تعارف ہی "صنف نازک" کہہ کر کروایا جاتا ہے جبکہ مردانِ عرب (زمانہ جہالت میں) ایسے بہادر، لڑاکا اور جنگجو کے نسلوں تک لڑتے رہیں اور رحم و کرم کے جذبے سے نا آشنا۔ لیکن کیا ہوا کہ نامِ محمد صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کی وہ چاشنی دل میں پائی کہ "لا اله الا اللّه محمد رسول اللّه" کے پرچار کے لئے سر کٹانے میں ایک دوسرے پر سبقت لئے جا رہے ہیں۔ جب نام کی یہ تاثیر اور یہ اگن ہے تو ذرا تصور کیجیئے اس مبارک سراپے صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کا عالم کیا ہوگا۔ سبحان اللّه


یہ اعلیٰ حضرت عظیم البرکت علیہ الرحمہ کی اس عظیم شعر کی مختصر سی تشریح ہے کہ جو مختلف مواقع پر مختلف علمائے کرام رحمتہ اللّه تعالیٰ علیھم سے سننی اور اسے آپ عاشقان رسول صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم تک پہنچانے کا شرف حاصل کیا۔ اس امید کے ساتھ کہ عشقِ رسول کی یہ شمع مزید فروزاں ہو۔

جان ہے عشق مصطفیٰ  روز فزوں کرے خدا
جس کو ہو درد کا مزہ نازِ دوا اُٹھائے کیوں



Tuesday, July 12, 2016

تجدید وفا


آج کی تاریخ کا سب سے بڑا المیہ معلومات کو مسخ کر کے دنیا کے سامنے پیش کرنا ہے۔ یہی وہ ہتھیار ہے کہ جس کی بدولت ظالم دنیا کے سامنے مظلوم بن جاتا ہے اور مظلوم کا خون رائیگاں جاتا ہے۔ اس کی تازہ مثال عراق پر امریکہ کا حملہ ہے کہ آج خود اپنی غلطی تسلیم کی بھی تو لاکھوں لاکھ عراقی مسلمانوں کی تذلیل و بے توقیری پر ایک حرف بھی معذرت کا نہ کہا۔ تاریخ اپنے اندر ایسے کئی واقعات کو سموئے ہوئے ہے کہ وقت نے جن پر گرد ڈال تو دی لیکن وہ آج بھی تاریخ کے جھروکوں سے چیخ چیخ کر خود پر ہونے والے مظالم کی داستان سناتے ہیں۔ انہی میں سے ایک آل سعود کا حجاز مقدس پر قبضہ اور جنت البقیع کا انہدام ہے۔

خلافت عثمانیہ کے اختتام پر یہود و نصاری کی آشیرباد سے آل سعود 1920ء کی دھائی میں حجاز مقدس پر قابض ہوئے۔ اس سے پہلے وہاں پر ترک عوام سلطنت عثمانیہ ہی کے زیر انتظام حجاز مقدس کی خدمات کا فریضہ سر انجام دے رہے تھے۔ چند ہزار افراد کے ساتھ آل سعود نے حرمین کریمین پر مسلح چڑھائی کی، مسجد نبوی کے امام کو مصلی امامت پر شہید کیا، طواف کرتے ہوئے مسلمانوں کی گردنیں اڑائیں اور اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کرتے ہوئے حرمین کریمین پر قابض ہوئے۔ ترک عوام اپنے دلوں میں خدا کا خوف رکھنے والے تھے سو حرمین کی عظمت کو مد نظر رکھتے ہوئے مزاحمت سے گریز کیا اور شہادت کا جام پینا پسند کیا۔

اس سے قبل حرم پاک خانۂ کعبہ شریف میں چاروں آئمہ فقہ کے مقامات ہوا کرتے تھے اور وہ اپنے مقلدین کی رہمنائی کے لئے ہمہ وقت دستیاب ہوتے تھے۔ 



آل سعود نے نہ صرف اجماع امت کی مخالف کرتے ہوئے اس نظام کو تبدیل کر کے خود ساختہ مذہب کی نفاذ کی کوششیں شروع کیں بلکہ جنت البقع شریف میں موجود تقریباً دس ہزار اصحاب رسول رضوان اللّه تعالیٰ علیھم اجمعین کی قبور کو مسمار کیا۔ اس ناپاک جسارت پر پوری مسلم امہ بلبلا اٹھی اور مختلف وفود نے حجاز مقدس کا رخ کیا۔ سعودیوں نے وقت کے دامن میں وسعت حاصل کرنے کے لئے کچھ قول و قرار تو کئے کہ جن پر عمل پیرا ہونے کا ان کو کوئی ارادہ نہیں تھا۔ ہاں، اتنا فائدہ ہوا کہ آج جو یادگیری جنت البقیع شریف میں ملتی ہے کہ فلاں مقام پر فلاں فلاں صحابی کی قبر انور ہے، یہ ان وفود ہی کی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔


آج کہ جب سعودی قبضہ مافیہ کو حجاز مقدس پر قابض ہوئے ایک صدی ہونے کو ہے، انہیں اسی قسم کی مشکلات کا سامنا ہے کہ جو انہوں نے خود ترک حکومت کے لئے کھڑی کی تھیں۔ دنیا جانتی ہے کہ جب پاکستان میں خود کش حملوں کا دور دورا تھا تو ان خود کش حملہ آوروں کی بولیاں (نجد) ریاض کے ہوٹلوں میں لگا کرتی تھیں۔ انہی سعودیوں نے اسرائیل کے وزیر اعظم کی الیکشن مہم چلائی، وہی ملک کے جو بلا شبہ لاکھوں مسلمانوں کو بلا واسطہ یا بلواسطہ قاتل ہے۔ انہی سعودیوں نے ہر مشکل وقت میں امریکہ کی پشت پناہی کی اور نہ صرف پشت پناہی کی بلکہ انہی اپنے اعلی ترین سول اعزاز سے نوازا۔ اور انہی نے داعش کو مضبوط کرنے میں ایک اہم کردار ادا کہ جب وہ سر زمین شام میں اھل بیت و صحابہ کرام رضوان اللّه تعالیٰ علیھم اجمعین کے مزارات کو شہید کر رہے تھے۔ بہت زیادہ غور و حوض کرنے کی ضرورت نہیں، داعش اور سعودیوں میں کئی قدریں مشترک نظر آئیں گی، جن میں سے ایک اپنے سوا دوسرے کو مشرک جاننا اور دوسرا مزارات کا انہدام ہے۔

آج جب خود کی بھڑکائی ہوئی آگ اپنی ہی سرحدوں پر آن پہنچی ہے تو سعودی مفتی اعظم نے اپنے حج کے فتوے میں داعش کو اسلام کے چہرے پر بد نما داغ قرار دے دیا۔ مفتی صاحب! کیا داعش کے مظالم ایک سال تک ہی محیط ہیں؟ جب یہی داعش لاکھوں مسلمانوں کے قتل میں براہ راست ملوث تھی تو تب اپ نے اس کی مخالفت کیوں نہ کی؟ کیا آپ داعش کی پشت پناہی کرنے والے عناصر سے بے خبر ہیں؟ اگر نہیں تو کیا آپ نام لے کر امریکہ اور اسرائیل کے خلاف بیان دے سکتے ہیں؟ درحقیقت ان پشت پناہی کرنے والے عناصر میں سے ایک عنصر خود آپ ہی کے حاکم ہیں۔

آج جب مسجد نبوی شریف کے انتہائی قریب خود کش حملہ ہوتا ہے تو بتاؤ اب جگہ محفوظ کونسی رہ گئی ہے؟ وہ مبارک مقام کہ جہاں سید الملائکہ بھی انتہائی ادب سے حاضری دیتے ہیں اور ستر ہزار فرشتے صبح اور ستر ہزار فرشتے رات میں حاضری کے لئے آتے ہیں اور جو ایک بار آتا ہے دوبارہ قیامت تک اس کی باری نہیں آئے گی اور جہاں عشاق اپنی سانسیں بھی تھام تھام کے چلتے ہیں کہ کہیں بے ادبی نہ ہو جائے، کہیں عمر بھر کی محنت اکارت نہ چلی جائے، وہاں کس نے یہ ناپاک جسارت کی کہ خود کو دھماکے سے اڑا دیا؟ یہ بنیادی سوال ہے۔ کس نے ذہن سازی کی ان لوگوں کی کہ حرمین شریفین کے تقدس کو پامال کرنے میں بھی انہوں نے کوئی عار نہ جانا؟ کس ان کی مالی و تکنیکی اعانت کی؟

یہ سوالات اپنی جگہ اب یہ بتائیے کہ وہ کون لوگ ہیں کہ جو لگاتار گنبد حضریٰ کے نعوذ باللّه انہدام کے فتوے جاری کر رہے ہیں؟ وہ کون لوگ ہیں کہ جو مسجد نبوی شریف میں توسیع کے نام پر گنبد حضریٰ کی طرف ناپاک نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں؟ وہ کون ہیں کہ جنہوں نے گنبد حضریٰ کے انہدام سے صرف اس لئے باز ہیں کہ انہیں فتنے کا اندیشہ ہے؟ کیا مسلم امہ ان سے بے خبر ہے؟ وہ کون ہیں کہ جو اپنی لچھے دار تقریروں میں گنبد حضریٰ کے انہدام کا عندیہ دے چکے ہیں؟ کیا مسلم امہ ان سے بے خبر ہے؟ کیا اب بھی کوئی کسر باقی رہ گئی ہے؟

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جس وقت یہود و نصاریٰ نے اپنے تئیں خاکے تراشے اور شائع کیے اور گستاخی در گستاخی کی تو تمام مسلم ممالک ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا ہوتے اور مطالبہ کرتے کہ تحفظ ناموس رسالت کا قانون اقوام متحدہ میں پاس کیا جائے کہ آئندہ کوئی بھی یہ ناپاک جسارت نہ کر سکے اور مطالبہ کرتے کہ ان گستاخان کو ہمارے حوالے کرو کہ دین و مذہب کی رعایت کے بغیر ان کا حکم صرف اور صرف قتل ہے۔ لیکن ان بے دین اور بکاؤ حکمرانوں سے تو یہ بھی نہ ہو سکا کہ مدینہ شریف حاضری دیتے اور عرض کرتے کہ یا رسول اللّه! صلی اللّه علیك وسلم ہم، ہمارے والدین، ہمارے آل اولاد سب آپ پر قربان ۔ ۔ ۔ ہم تب تک چین سے نہیں بیٹھیں گے جب تک آپ کی ناموس کا پہرہ نہ دے لیں۔ حضور صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم ہماری تو ساری بہار ہی آپ سے ہے۔ ہمارا قرار آپ سے ہے ۔ ۔ ۔ لیکن افسوس کہ ہم سے اتنا بھی نہ ہو سکا۔ 

آج تجدید وفا کا وقت ہے، ضرورت ہے اس امر کی کہ تمام وہ فتوے واپس لئے جائیں کہ جن میں گنبد حضریٰ کے خلاف بکواس کی گئی اور ان تمام مقررین کو بین کیا جائے کہ جنہوں نے گنبد حضریٰ کے خلاف تقریریں کی اور پھر عملی طور پر حرمین کریمین کے تحفظ کے لئے ان مسلم ممالک کی خدمات حاصل کی جائیں کہ جو پیشہ وارانہ صلاحیت کی حامل ہیں۔ سعودیوں نے ان سو سالوں میں گدھے سے محل تک کا سفر تو طے کیا لیکن وہ اس قابل نہ ہو سکے کہ حرمین کے تحفظ کے لئے کوئی مؤثر لائحہ عمل تیار کر سکیں۔ حق یہ ہے کہ مالک یہ شرف و منزلت کسی کسی کو ہی نصیب کرتا ہے۔ اللّه کے گھر پر قبضہ کر لینے سے اللّه نہیں ملتا اور نہ ہی رسول اللّه صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کے دربار کے سامنے ڈیرہ ڈالنے سے حضور ﷺ ملتے ہیں ۔ ۔ ۔ نہیں یقین کو مشرکین مکہ کی مثال سے ہی سمجھ لو۔


کروں تیرے نام پہ جاں فدا، نہ بس ایک جاں دو جہاں فدا

دو جہاں سے بھی نہیں جی بھرا، کروں کیا کروڑوں جہاں نہیں

صلو علیہ وآلہٖ صلو علیہ وآلہٖ صلو علیہ وآلہٖ

Friday, June 10, 2016

مادراں را اسوہ کامل بتول رضی اللّه تعالیٰ عنھا

مریم از یک نسبت عیسیٰ (علیہ السلام) عزیز
از سہ نسبت حضرت زہرا عزیز 

نورِ چشم رحمتہ للعالمین 
آں امام اولین و آخرین

بانوے آں تاجدار ھل اتیٰ
مرتضیٰ مشکل کشا شیر خدا

مادر آں مرکز پرکار عشق 
مادر آں کارواں سالارِ عشق

سیرت فرزند ہا از امہات 
جوہر صدیق و صفا از امہات

مزرعِ تسلیم را حاصل بتول
مادراں را اسوہ کامل بتول 
(رضی اللّه تعالیٰ عنھا)


درمعنی ایں کہ سیدة النساء فاطمتہ الزہرا اسوہ کاملہ ایست براے نساء اسلام
رموزِ بیخودی، فارسی مجموعہ، علامہ محمد اقبال رحمتہ اللّه تعالیٰ علیہ  


سیدہ مریم سلام اللّه علیھا اللّه تعالیٰ کی پاکباز بندی ہیں کہ جن کی شان قرآن مجید میں جا بجا اللّه تعالیٰ نے بیان فرمائی ہے۔ آپ کی بزرگی کا چرچا تا صبح قیامت باقی رہے گا کہ آپ کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ ہونے کا شرف حاصل ہے۔ آپ نے بغیر باپ کے بیٹے کو جنم دیا اور اپنی عزت و پارسائی کی حفاظت کرنے کے باوجود زمانے کی طعنے سہے۔ آپ سلام اللّه علیھا کو یہ شرف حاصل ہے کہ آپ ایک ایسے پیغمر علیہ السلام کی والدہ ہیں کہ جنہوں نے نہ صرف گود میں کلام کیا بلکہ اپنی نبوت کا بھی اعلان کیا اور اپنے صاحب کتاب ہونے کا بھی۔

لیکن یہ صرف ایک نسبت ہے کہ جو جناب مریم سلام اللّه علیھا کو حاصل ہے، سیدہ فاطمتہ الزھرا رضی اللّه تعالیٰ عنھا کہ جو تمام جنتی عورتوں کی سردار ہیں، سیدہ کائنات ہیں آپ کو تین نسبتوں سے فضیلت حاصل ہے۔ پہلی نسبت یہ کہ آپ نبی مکرم نور مجسم محمد مصطفیٰ رحمتہ اللعالمین صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کی نورِ نظر ہیں کہ جن کے بارے میں خود سرکار صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کا فرمان عظمت نشان ہے کہ

فاطمہ میرے جگر کا ٹکرا ہے جس نے اسے ناراض کیا تو اس نے مجھے ہی ناراض کیا۔
(صحیح بخاری: 3437)

اور حضور صلی اللّه تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم اپنی نورِ نظر کا کیسا مان رکھتے کہ جب وہ تشریف لاتی تو کھڑے ہو کر ان کا استقبال فرماتے اور انہیں اپنی نشست پر بٹھاتے، کبھی ان کی کسی بات کو نہ ٹالتے تھے۔ آپ نبی کریم صلی اللّه تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم پہلوں اور پچھلوں سب کے امام ہیں اور آپ کی شہزادی سیدہ فاطمہ الزھرا رضی اللّہ تعالیٰ عنھا تمام عورتوں کی سردار ہیں۔  

دوسری نسبت یہ کہ حضرت فاطمتہ الزھرا رضی اللّه تعالیٰ عنھا "ھل اتیٰ" کے تاجدار کی حرم ہیں۔ یعنی حضرت علی مرتضیٰ شیر خدا کہ جو اللّه کے شیروں میں سے شیر ہیں اور مشکلوں کو آسان فرمانے والے ہیں وہ خود بادشاہ ہیں لیکن ایک تنگ و تاریک حجرہ ان کا گویا محل تھا اور ایک تلوار اور ایک زرہ ان کا کل سرو سامان تھا۔ 

آج ہم دیکھتے ہیں کہ بڑے باپوں کی بیٹیاں گھر بسانے میں مشکلات کا شکار ہوتی ہیں کہ انہیں ان کے ناز نخرے اٹھانے والے نہیں ملتے لیکن دوسری طرف ہمارے سامنے سیدہ کائنات کا اسوہ موجود ہے کہ جنہوں نے اپنے مولیٰ کی رضا اپنے شوہر کی رضا میں جانی یہاں کہ مولیٰ کائنات سیدنا علی مرتضیٰ کرم اللّه تعالیٰ وجھه الکریم نے یہ فرما دیا کہ مجھے فاطمہ سے کبھی کوئی تکلیف نہیں پہنچی۔

تیسری نسبت یہ کہ آپ ان جلیل القدر بزرگوں کی والدہ ہیں کہ جن میں سے ہر ایک اپنی مثال آپ ہے اور ان جیسا کوئی دوسرا نہ ہوا ہے نہ ہوسکتا ہے۔ ایک امام پاک امام حسن رضی اللّه تعالیٰ عنہ کہ جو حرم پاک کی شمع ہیں۔ آپ نے امت مسلمہ کی جمعیت کو مستحکم رکھا اور نانا کریم صلی اللّه تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم کے فرمان عالیشان کے تحت مسلمانوں کے دو گروہوں میں صلح کروائی اور جنگ کی آگ کو ٹھنڈا کیا اور دین اسلام کو اپنا خون دے کر عشق کے چراغ میں ایک نئی روشنی بھر دی۔ درحقیت آپ رضی اللّه تعالیٰ عنہ کی عشق کی پرکار کا مرکز ہیں۔ تاقیامت جو بھی دائرہ عشق کا کھینچا جائے گا اس کا مرکز آپ ہی کی ذات والا صفات قرار پائے گی۔

دوسرے عظیم بزرگ کہ جن کی والدہ ہونے کا شرف سیدہ فاطمتہ الزھرا سلام اللّه علیھا کو نصیب ہوا وہ سید الشھداء امام عالی مقام امام حسین رضی اللّه تعالیٰ عنہ کی بابرکت اور مبارک ذات ہے کہ عشق کے قافلے کی قیادت فرمائی اور سجدے میں سر کٹا کر بھی عشق کے اس علم کو سر بلند رکھا۔ آپ دودنوں بزرگ، دونوں امام، دونوں جنت کے سردار اور دونوں فرزند بتول الزھرا ۔ ۔ ۔ یہ مقام ہے آج کی ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کے لئے سوچنے کا کہ جن کی لوری قرآن کی تلاوت ہو وہ پھر سر نیزے پر چڑھا کر بھی تلاوقت قرآن ہی کرتے ہیں، وہ پورا کنبہ قربان کر کے بھی اللّه کی رضا پر راضی رہتے ہیں، وہ سر کٹا تو دیتے ہیں لیکن باطل کے سامنے کبھی جھکاتے نہیں۔ یہ سیکھنے کا مقام ہے ہم لوگوں کے لئے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں اور ہماری آنی والی نسلیں کہاں جا رہی ہیں ۔ ۔ ۔

اقبال علیہ الرحمہ نے یہ تینوں نسبتیں بیان فرما کر جس نکتے کی طرف نشاندہی کی ہے وہ پہلی درسگاہ ہے، وہ ماں کی گود ہے۔ بیٹوں کی سیرتیں ماؤں کی آغوش میں تیار ہوتی ہیں۔ انسانی فطرت میں سچائی اور پاکیزگی ہیں اور یہ جوہر ماؤں کی نیک اور پاک تربیت ہی سے چمکتے ہیں اور چمک سکتے ہیں۔ تسلیم کی کھیتی کا حاصل سیدہ فاطمہ الزھرا سلام اللّه علیھا ہیں کہ آپ نے اپنی زندگی اپنے مالک کی خوشنودی کے لئے بسر کی، دن بھر اولاد کی کفالت اور تربیت فرمائی اور اپنی راتوں کو مالک عزوجل کے سجدوں سے سجایا۔ 

آپ سیدہ کائنات ہونے کے باوجودہ اپنے گھر کے کام کاج خود انجام دیتیں، یہاں تک کہ پانی کی مشک اٹھانے کے نشان پڑ جاتے اور چکی پیس پیس کر ہاتھوں پر چھالے پڑ جاتے لیکن سیرت کی کتابیں گواہ ہیں کہ سیدہ کائنات نے اپنے ان شب و روز کو قرآن کی تلاوت سے سجایا نہ کہ شکوہ و شکایت فرمایا۔ 

سخا کا ایسا پیکر ہے خود پہروں بھوکا پیاسا رہ کر بھی فقیروں اور مسکینوں کی مدد فرمائی۔ وہ ردا کہ جسے کبھی کسی غیر محرم نے نہ دیکھا، جب ایک محتاج در پر سوالی بن کر آیا تو خدا کے کلام کا ایسا اثر دل پر پایا، کہ کوئی سوالی خالی ہاتھ نہ لوٹنے پائے، کہ اپنی چادر مبارک اس محتاج کی امداد کے لئے ایک یہودی کے ہاتھ بیچ ڈالی۔ تمام نوری و ناری آپ کے خدام ہونے پر فخر فرماتے ہیں۔

یہ تمام صفات گنوانے کے بعد اقبال انتہا کرتے ہیں اور فرماتے ہیں:

رشتہ آئین حق زنجیر پاست
پاس فرمان جناب مصطفیٰ است

ورنہ گرد تربتش گردیدے
سجدہ ہا بر خاک اوپا شیدمے

فرماتے ہیں کہ اللّه کے قانون کی ڈوری نے میرے پاؤں باندھ رکھے ہیں اور رسول اللّه صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کے فرمان کا پاس ہے ورنہ میں سیدہ النساء کے مزار عالیشان کا طواف کروں اور اس خاک مبارک پر سجدہ ریز ہو جاؤں۔ 


ان ٹوٹے پھوٹے الفاظ کو مختلف مقامات سے اکٹھا کرنے کا مقصد فقط سخیوں کے دربار میں حاضری لگوانا ہے، شیخ سعدی شیرازی فرماتے ہیں:

خدایا بحق بنی فاطمہ 
کہ برقول ایماں کنی خاتمہ

گر دعوتم رد کنی، ور قبول 
من و دست و دامانِ آلِ رسول 

اور امام شافعی جیسے عظیم الشان فقیہہ بھی فرما گئے:


لی خمسة اطفی بھا حر الوباء الخاتمہ 
المصطفیٰ و المرتضیٰ و ابنھما و الفاطمہ 

اللّه پاک میرا لکھنا، بزرگوں کا بیان کرنا اور اھل محبت کا پڑھنا اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ہمیں بزرگوں کے دامنِ کرم سے لپٹے رہنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ آمین 


Wednesday, May 4, 2016

تمہارا مقصود کیا ہے؟

ایک ٹولہ معاشرے میں پایا جاتا ہے، جس کی نمائندگی سوشل میڈیا پر بھی موجود ہے، جس کا کام ہے بڑی راتوں پر گھڑے گھڑائے فتویٰ جات پوسٹ کرنا ہے۔ میلاد مصطفیٰ ﷺ کا مبارک موقع ہو یا معراج مصطفیٰ ﷺ کا، نصف شعبان کی شب ہو یا شب عاشورہ اس گروہ کا بنیادی کام عوام کے دل میں شکوک و شبہات پیدا کرنا اور غیر ضروری سوالات کو جنم دینا ہے۔ 

  • کیا یہ کام سنت ہے؟
  • ارے، یہ تو بدعت ہے۔ 
  • اس کا ثبوت تو قرون اولیٰ میں کہیں نہیں۔ 
  • یہ تو محض کھانے پینے کے بہانے ہیں۔ 


یہ اور ایسے متعدد سوالات کر کے عوام کے دل میں وساوس پیدا کیئے جاتے ہیں اور ان مبارک راتوں کی برکت سے محروم کیا جاتا ہے۔ قبل اس کے کہ میں جوابات عرض کروں میں قارئین سے یہ سوال کرنا چاہوں گا کہ ان راتوں میں ہوتا کیا ہے؟

  • قرآن خوانی
  • نعت 
  • اصلاحی بیان 
  • فکر آخرت
  • استغفار 
  • دعا
  • کھانا/سحری


ان سے مقصود کیا ہے؟ کن نتائج تک پہنچنا مقصود ہے؟ جواب اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمتہ اللّه تعالیٰ علیہ کا ایک مصرعہ 

ہم آئے یہاں تمہارے لئے، اٹھیں بھی وہاں تمہارے لئے

مقصود ہوتا ہے عظمت مصطفیٰ ﷺ کا بیان۔ جو شانیں اللّه عزوجل نے اپنے محبوب کو عطا فرمائیں ان کا بیان مقصود ہوتا ہے۔ وہ تلاوت کے ذریعے بھی بیان کی جاتی ہیں، نعت کے ذریعے بھی اور بیان کے ذریعے بھی۔ اگر ان تمام کاموں کی انفرادی حیثیت پر کچھ کلام نہیں تو ان کے یکجا کر دینے پر کیا مضائقہ؟ کسی دن کو مقرر کر دینے پر، کہ جب اسے فرض یا واجب نہیں سمجھتے اور نہ شامل ہونے والے کو برا بھی نہیں کہتے، کیا اعتراض ہے؟ اس گئے گزرے دور میں کہ جب بندہ فرائض اور واجبات سے کوتاہی برت رہا ہے اگر کسی کاوش کے ذریعے بندہ اپنے مالک سے قریب ہو تو اس کو سراہنا چاہیے یا اس کی راہ میں روڑے اٹکانے چاہیں؟

ان بڑی راتوں کے قیام کا مقصد جامع طور پرعرض کیا، عظمت مصطفیٰ ﷺ کا بیان۔ میلاد مصطفیٰ ﷺ ہے تو اس چیز کا بیان کہ مالک نے اپنے محبوب کو کن کن صفات کے ساتھ مبعوث فرمایا۔ کائنات میں کیسی نور کی برسات تھی صبح شب ولادت، یہ مقصود ہے۔ یہ مقصود ہے کہ حضور ﷺ کی ولادت باسعادت کے وقت کن کن معجزات کا ظہور ہوا۔ حضور ﷺ کے حسن و جمال کے تذکرے مقصود ہیں ۔ ۔ ۔ تو جو ان تذکروں سے روکے اس کا کیا مقصد ہے؟ اچھا اگر بارھویں تاریخ پر اعتراض ہے تو جس تاریخ پر آپ راضی ہیں اسے خود کے لئے متعین کر لیں لیکن وائے نصیب  ۔ ۔ ۔

جب معراج مصطفیٰ ﷺ کا بیان ہوگا تو کیا بیان ہوگا یہی کہ یہ قرآن کریم کے بعد دوسرا بڑا معجزہ ہے۔ یہی کہ مالک نے اپنے بندے کو کیا خوب سیر کروائی۔ یہی کہ اللّه پاک نے اپنے بندے پر کیا کیا انعام و اکرام فرمائے۔ مقصود یہی ہے کہ کل قیامت کو اور اس کے بعد جو معاملات ہونے والے ہیں ان کا پیشگی علم جو اللّه نے اپنے حبیب کریم ﷺ کو عطا فرما دیا، اسے بیان کیا جائے۔ سدرة المنتہیٰ پر جہاں جبرائیل علیہ السلام کی پرواز کی انتہا ہے وہاں وہ کیسے بشر ہیں جو اس سے بھی آگے تشریف لے گئے، یہ بیان مقصود ہیں ان راتوں میں۔ جنت میں کیا نعمتیں ہیں، جہنم میں کس گناہ پر کیا عذاب ہوگا، یہ بیان مقصود ہے اس مبارک رات میں ۔ ۔ ۔ تو جو ان تذکروں سے عوام کو گریز کرنے کا کہتے ہیں، ان کا کیا مقصود ہے؟ یہ تو سب نعمتیں یہ سب اکرام جو مالک نے اپنے بندے پر کیئے، ان کا بیان تو کرنا ہے ناں؟ کب کرنا ہے؟ جب ان مبارک راتوں میں کہ جب انوار کی برسات ہوتی ہے اور طبیعت پر ایک خاص کیف طاری ہوتا ہے تب عوام کو روکتے ہو حقیقت یہ ہے کہ اس ذکر سے بد دل کرنے والوں کے نصیب میں یہ مبارک تذکرے کہاں!

کہتے ہو کہ اس رات میں فضیلت کیا ہے؟ نماز جس کی فضیلت کے تم منکر نہیں، وہ اس رات "تحفے" میں ملی، جس شب قدر کی فضیلت کے تم قائل ہو، یہ اسی رات بطور انعام ملی، جس روزے کی عظمت کے تم بھی قائل ہو وہ اسی رات فرض کیے گئے۔ کیسی فضیلت ہے کہ جس کے تم انکاری ہو؟ یہ دراصل عظمت مصطفیٰ ﷺ کا بیان ہے کہ جس بیان سے تم پہلو تہی کیے ہوئے ہو۔ یاد رکھو! میرے آقا کریم ﷺ کی عظمت کا بیان کسی کا محتاج نہیں یہ وہ ذکر ہے کہ جسے رب کریم نے اپنے محبوب کریم ﷺ کے لئے خود بلند فرمایا ہے۔ جو اس عظمت مصطفیٰ ﷺ کا بیان سعادت سمجھ کر کرے خدا اس کے نام کو جاودانی عطا فرماتا ہے، یہ خیرات مانگنا ہمارا مقصود ہے، تمہارا مقصود کیا ہے؟ 

رجب المرجب کا مہینہ بعد میں شروع ہوتا ہے، ہر مسجد میں معراج مصطفیٰ ﷺ کا بیان پہلے شروع ہو جاتا ہے، یہ مبارک ماہ اپنے اختتام کو پہنچتا ہے لیکن یہ مبارک ذکر جاری ہی رہتا ہے۔ یہ بھی اھلسنت پر افتریٰ ہے کہ محض ایک ہی دن ذکر کیا جاتا ہے، ہاں اس دن خصوصیت کہ یہ بیان کیا جاتا ہے، اھتمام کیا جاتا ہے تا کہ انوار کی چھماچھم بارش سے دلوں کی بنجر زمین کو سیراب کیا جا سکے۔ 

آج دنیا میں کونسی جگہ ہے جہاں مسلمانوں کی عصمت پامال نہیں ہو رہی؟ اور اس کی وجہ کیا ہے؟ جب آپ کے نبی ﷺ کے خاکے تراشے جائیں اور آپ عالمی سطح پر احتجاج بھی ریکارڈ نہ کرواسکیں تو کیا سمجھتے ہیں رب آپ کی اس بیباکی پر آپ کی گرفت نہیں فرمائے گا؟ آج اس پرفتن دور میں ایک ہی جائے پناہ ہے اور وہ حضور ﷺ کی بارگاہِ بے کس پناہ ہے۔ حضور ﷺ کے دامن سے وابستہ ہو جاؤ گے تو دو جہاں سے بے پروا ہو جاؤ گے اور یہ مواقع، یہ بڑی راتیں واپس لوٹ آنے کے لئے ہی ہوتی ہیں۔ لوٹ آؤ اپنے رب کی طرف، اپنے رب کے حبیب ﷺ کی طرف ۔ ۔ ۔

شرک ٹھہرے جس میں تعظیم حبیب ﷺ 
اس برے مذہب پہ لعنت کیجیئے

ظالمو! محبوب کا حق تھا یہی
عشق کے بدلے عداوت کیجیئے

و الضحیٰ، حجرات، الم نشرح سے پھر
مؤمنو! اتمامِ حجت کیجیئے

بیٹھتے اٹھتے حضور پاک ﷺ سے
التجا و استعانت کیجیئے

یا رسول اللّه ﷺ دہائی آپ کی
گوشمالِ اھلِ بدعت کیجیئے

یا خدا تجھ تک ہے سب کا منتہیٰ
اولیاء کو حکمِ نصرت کیجیئے