حضرت علامہ قاضی عیاض رحمتہ اللّه تعالیٰ علیہ نے آپ صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کے مقدس حقوق کو اپنی کتاب "شفاء شریف" میں بہت ہی مفصل طور پر بیان فرمایا۔ ہم یہاں انتہائی اختصار کے ساتھ اس کا خلاصہ تحریر کرتے ہوئے مندرجہ ذیل آٹھ حقوق کا ذکر کرتے ہیں۔ (الشفاء بتعریف حقوق المصطفیٰ، القسم الثانی فیما یجب علی الانام ۔ ۔ ۔ الخ، الجزء الثانی، صفحہ 2)
1۔ ایمان بالرسول صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم
2۔ اتباع سنتِ رسول صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم
3۔ اطاعتِ رسول صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم
4۔ محبتِ رسول صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم
5۔ تعظیمِ رسول صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم
6۔ مدحِ رسول صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم
7۔ درود شریف
8۔ قبرِ انور کی زیارت
1۔ ایمان بالرسول صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم
حضور اقدس صلی اللّه تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم کی نبوت و رسالت پر ایمان لانا اور جو کچھ آپ اللّه تعالیٰ کی طرف سے لائے ہیں صدقِ دل سے اس کو سچا ماننا ہر ہر امتی پر فرضِ عین ہے اور ہر مؤمن کا اس پر ایمان ہے کہ بغیر رسول پر ایمان لائے ہوئے ہر گز ہر گز کوئی مسلمان نہیں ہو سکتا۔ قرآن میں خداوند عالم جل جلاله کا فرمان ہے کہ
ومن لم یومن م باللّه و رسوله فان اعتدنا للکفرین سعیرا (الفتح: 13)
جو اللّه اور اس کے رسول پر ایمان نہ لایا تو یقیناً ہم نے کافروں کے لئے بھڑکتی ہوئی آگ تیار کر رکھی ہے۔
اس آیت نے نہایت وضاحت اور صفائی کے ساتھ یہ فیصلہ کر دیا کہ جو لوگ رسول صلی اللّه تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم کی رسالت پر ایمان نہیں لائیں گے وہ اگرچہ خدا کی توحید کا عمر بھر ڈنکا بجاتے رہیں مگر وہ کافر اور جہنمی ہی رہیں گے۔ اس لئے اسلام کا بنیادی کلمہ یعنی کلمۂ طیبہ لا اله الا اللّه محمد رسول اللّه ہے یعنی مسلمان ہونے کے لئے توحید اور رسول کی رسالت دونوں پر ایمان لانا ضروری ہے۔
2۔ اتباع سنت رسول صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم
حضور اقدس صلی اللّه تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم کی سیرت مبارکہ اور آپ کی سنت مقدسہ کی اتباع اور پیروی ہر مسلمان پر واجب و لازم ہے۔ رب العزت جل جلاله کا فرمان ہے کہ
قل ان کنتم تحبون اللّه فاتبعونی یحببکم اللّه فیغفرلکم ذنوبکم و اللّه غفور الرحیم (سورة آل عمران: 31)
(اے رسول) فرما دیجیئے کہ اگر تم لوگ اللّه سے محبت کرتے ہو تو میری اتباع کرو، اللّه تم کو اپنا محبوب بنا لے گا اور تمہارے گناہوں کو بخش دے گا اور اللّه بہت زیادہ بخشنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔
اسی لئے آسمانِ امت کے چمکتے ہوئے ستارے، ہدایت کے چاند تارے، اللّه رسول کے پیارے صحابہ کرام رضوان اللّه تعالیٰ علیھم اجمعین آپ صلی اللّه تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم کی ہر سنت کریمہ کی اتباع اور پیروی کو اپنی زندگی کے ہر دم قدم پر اپنے لئے لازم الایمان اور واجب العمل سمجھتے تھے اور بال برابر بھی کبھی کسی معاملہ میں بھی اپنے رسول صلی اللّه تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم کی مقدس سنتوں سے انحراف یا ترک گوارا نہیں کر سکتے تھے۔
3۔ اطاعتِ رسول صلی اللّه تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم
یہ بھی ہر امتی پر رسول خدا صلی اللّه تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم کا حق ہے کہ ہر امتی ہر حال میں آپ صلی اللّه تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم کے ہر حکم کی اطاعت کرے اور آپ جس بات کا حکم دے دیں بال کے کروڑویں حصہ کے برابر بھی اس کی خلاف ورزی کا تصور بھی نہ کرے کیونکہ آپ صلی اللّه تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم کی اطاعت اور آپ کے احکام کے آگے سرِ تسلیم خم کر دینا ہر امتی پر فرضِ عین ہے۔ قرآن کریم میں ارشادِ خداوندی ہے کہ
و اطیعو اللّه و اطیعو الرسول (سورة النساء: 59)
حکم مانو اللّه کا اور حکم مانو رسول کا
ومن یطیع الرسول فقد اطاع اللّه (سورة النساء: 80)
جس نے رسول کا حکم مانا بیشک اس نے اللّه کا حکم مانا
ومن یطیع اللّه و رسوله فاولٰئك مع الذین انعم اللّه علیھم من النبین و الصدیقین و الشہدآء و الصالحین و حسن اولٰئك رفیقا (سورة النساء: 69)
اور جو اللّه اور اس کے رسول کا حکم مانے تو اسے ان کا ساتھ ملے گا جن پر اللّه نے انعام فرمایا یعنی انبیاء اور صدیق اور شہید اور نیک لوگ یہ کیا ہی اچھے ساتھی ہیں۔
قرآنِ مجید کی یہ مقدس آیات اعلان کر رہی ہیں کہ اطاعتِ رسول کے بغیر اسلام کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا اور اطاعتِ رسول کرنے والوں ہی کے لئے ایسے ایسے بلند درجات ہیں کہ وہ حضراتِ انبیاء و صدیقین اور شہدا و صالحین کے ساتھ رہیں گے۔
4۔ محبتِ رسول صلی اللّه تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم
اسی طرح ہر امتی پر رسول اللّه صلی اللّه تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم کا حق ہے کہ وہ سارے جہان سے بڑھ کر آپ صلی اللّه تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم سے محبت رکھے اور ساری دنیا کی محبوب چیزوں کو آپ کی محبت میں آپ صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کے قدموں پر قربان کر دے۔ خداوند قدوس جل جلاله کا فرمان ہے کہ
قل ان کان آبآؤکم و ابنآؤکم و اخونکم و ازواجکم و عشیرتکم و اموال نِ اقترفتموھا و تجارة تخشون کسادھا و مسکن ترضونھآ احب الیکم من اللّه و رسوله و جھاد فی سبیله فتربصو حتی یأتی اللّه بامرہٖؕ واللّه لا یھدی القوم الفسقین (التوبة: 24)
(اے رسول) آپ فرما دیجیئے! اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری عورتیں اور تمہارا کنبہ اور تمہاری کمائی کے مال اور وہ سودا جس کے نقصان کا تمہیں ڈر ہے اور تمہارے پسندیدہ مکان یہ چیزیں اللّه اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں لڑنے سے زیادہ پیاری ہوں تو راستہ دیکھو یہاں تک کہ اللّه اپنا حکم لائے اور اللّه فاسقوں کو راہ نہیں دیتا۔
اس آیت میں ثابت ہوتا ہے کہ ہر مسلمان پر اللّه عزوجل اور اس کے رسول صلی اللّه تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم کی محبت فرضِ عین ہے کیونکہ اس آیت کا حاصلِ مطلب یہ ہے کہ اے مسلمانوں! جب تم ایمان لائے ہو اور اللّه رسول کی محبت کا دعویٰ کرتے ہو تو اب اس کے بعد اگر تم لوگ کسی غیر کی محبت کو اللّه رسول کی محبت پر ترجیح دو گے تو خوب سمجھ لو کہ تمہارا ایمان اور اللّه رسول کی محبت کا دعویٰ بالکل غلط ہو جائے گا اور تم عذابِ الٰہی اور قہر خداوندی سے نہ بچ سکو گے۔ نیز آیت کے آخری ٹکڑے سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ جس کے دل میں اللّه رسول کی محبت نہیں یقیناً بلاشبہ اس کے ایمان میں خلل ہے۔
5۔ تعظیمِ رسول صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم
امت پر حضور صلی اللّه تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم کے حقوق میں ایک نہایت ہی اہم اور بہت ہی بڑا حق یہ ہے کہ ہر امتی پر فرضِ عین ہے کہ وہ حضورِ اکرم صلی اللّه تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم اور آپ صلی اللّه تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم سے نسبت و تعلق رکھنے والی تمام چیزوں کی تعظیم و توقیر اور ان کا ادب و احترام کرے اور ہر گز ہر گز کببھی ان کی شان میں کوئی بے ادبی نہ کرے۔ احکم الحاکمین کا فرمانِ والا شان ہے کہ
انا ارسلنٰك شاھدا و مبشرا و نذیرا لتؤمنو باللّه و رسوله و تعزروه و توقروهؕ و تسبحوه بکرة و اصیلا (الفتح: 8،9)
بے شک ہم نے تمہیں (اے رسول) بھیجا حاضر و ناظر اور خوشخبری دینے والا اور ڈر سنانے والا تاکہ اے لوگو! تم اللّه اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم و توقیر کرو اور صبح و شام اللّه کی پاکی بولو۔
6۔ مدحِ رسول صلی اللّه تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم
ہر امتی پر یہ بھی رسول اللّه صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کا حق ہے جس کو ادا کرنا امت پر لازم ہے رسول اکرم صلی اللّه تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم کی مدح و ثناء کا ہمیشہ اعلان اور چرچا کرتا رہے اور ان کے فضائل و کمالات کو علی الاعلان بیان کرتا رہے۔ حضور علیہ الصلوة و السلام کے فضائل و محاسن کا ذکرِ جمیل رب العالمین جل جلاله و اور تمام انبیاء و مرسلین علیہ الصلوة و التسلیم کا مقدس طریقہ ہے۔ حضرت حق جل مجدہ نے قرآن کریم کو اپنے حبیب صلی اللّه تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم کی مدح و ثناء کے قسم قسم کے گل ھائے رنگا رنگ کا ایک حسین گلدستہ بنا کر نازل فرمایا ہے اور پورے قرآن میں آپ کی مقدس نعت و صفات کی آیات بینات اسطرح چمک چمک کر جگمگا رہی ہیں جس طرح آسمان پر ستاروں کی بارات اپنی تجلیات کا نور بکھیرتی رہتی ہیں۔ اور انبیاء سابقین کی مقدس آسمانی کتابیں بھی اعلان کر رہی ہیں کہ ہر نبی اور رسول اللّه کے حبیب صلی اللّه تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم کی مدح و ثنا کا نقیب اور ان کے فضائل و محاسن کا خطیب بن کر عمر بھی فضائل مصطفیٰ صلی اللّه تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم کے فضل و کمال اور ان کے جاہ و جلال کا ڈنکا بجاتا رہا۔
ہر حسان بن ثابت رضی اللّه تعالیٰ عنہ اور حضرت عبد اللّه بن رواحہ، کعب بن زہیر وغیرہ صحابہ کرام رضی اللّه تعالیٰ عنھما نے دربارِ نبوت کا شاعر ہونے کی حیثیت سے ایسی ایسی نعت پاک کی مثالیں پیش کیں کہ آج تک بڑے بڑے باکمال شعراء ان کا سن کر سر دھنتے رہتے ہیں اور ان شآء اللّه تعالیٰ قیامت تک حضور سرور عالم صلی اللّه تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم کی مدح و ثناء کا چرچا نظم و نثر میں اسی شان سے ہوتا رہے گا۔
رہے گا یونہی ان کا چرچا رہے گا
پڑے خاک ہو جائیں جل جانے والے
7۔ درود شریف
ہر مسلمان پر واجب ہے کہ رسول اللّه صلی اللّه تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم پر درود شریف پڑھتا رہے چنانچہ خالقِ کائنات جل جلاله کا حکم ہے کہ
ان اللّه و ملٰئکته یصلون علی النبی یآیھا الذین آمنو صلو علیه و سلمو تسلیما (الاحزاب: 56)
بے شک اللّه اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں اے مؤمنو تم بھی ان پر درود بھیجتے رہو اور ان پر سلام بھیجتے رہو جیسا سلام بھیجنے کا حق ہے
حضورِ اکرم صلی اللّه تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم کا ارشاد ہے کہ جو مجھ پر ایک مرتبہ درود شریف بھیجتا ہے اللّه تعالیٰ اس پر دس پر مرتبہ درود شریف (رحمت) بھیجتا ہے۔ (الصحیح المسلم، کتاب صلوة، باب صلوة النبی صلی اللّه تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم، الحدیث، 408)
درود شریف کے فضائل و فوائد بہت زیادہ ہیں یہاں بہ نظر اختصار ہم نے اس کا ذکر نہیں کیا۔ خداوند کریم ہم تمام مسلمانوں کو زیادہ سے زیادہ درود شریف پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
8۔ قبرِ انور کی زیارت
حضور اقدس صلی اللّه تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم کے روضہ مقدسہ کی زیارت سنت مؤکدہ قریب بہ واجب ہے۔ اللّه تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے کہ
و لو انھم اذ ظلموآ انفسھم جآؤك فاستغفروا اللّه و استغفرلھم الرسول لوجدو اللّه توابا رحیما (النساء: 64)
اور اگر یہ لوگ جس وقت کہ اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں آپ کے پاس آ جاتے ہیں اور خدا سے بخشش مانگتے اور رسول ان کے لئے بخشش کی دعا فرماتے تو یہ لوگ اللّه کو بہت زیادہ بخشنے والے مہربان پاتے۔
اس آیت میں گناہگاروں کے گناہ کی بخشش کے لئے ارحم الراحمین نے تین شرائط لگائیں ہیں اول، دربارِ رسول صلی اللّه تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم میں حاضری۔ دوئم، استغفار اور سوئم، رسول اللّه صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کی دعائے مغفرت اور یہ حکم حضور صلی اللّه تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم کی ظاہری دنیاوی حیات تک ہی محدود نہیں بلکہ روضۂ اقدس میں حاضری بھی یقیناً دربارِ رسول ہی میں حاضری ہے۔ اسی لئے علمائے کرام نے تصریح فرما دی ہے کہ حضؤر علیہ الصلاة و السلام کے دربار کا یہ فیض آپ صلی اللّه تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم کی وفاتِ اقدس سے منقطع نہیں ہوا ہے۔ اس لئے جو گناہگار قبرِ انور کے پاس حاضر ہو جائے اور وہاں خدا سے استغفار کرے اور چونکہ حضور صلی اللّه تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم تو اپنی قبرِ انور میں اپنی امت کے لئے استغفار فرماتے ہی رہتے ہیں اس لئے اس گناہگار کے لئے مغفرت کی تینوں شرائط پائی گئیں۔ اسی لئے ان شاء اللّه تعالیٰ اس کی ضرور مغفرت ہو جائے گی۔
مذکور بالا آیت کے علاوہ بہت سی احادیث بھی روضۂ منورہ کی زیارت کے فضائل میں وارد ہوئی ہیں جن کو علامہ سمہودی رحمتہ اللّه تعالیٰ علیہ نے اپنی کتاب "وفاء الوفا" اور دوسرے مستند سلف صالحین علمائے دین نے اپنی اپنی کتابوں میں نقل فرمایا ہے ہم یہاں مثال کے طور پر صرف تین احادیث بیان کرتے ہیں:
1۔ من زار قبری وجبت له شفاعتی (سنن دار القطنی کتاب الحج: 2669)
جس میری قبر کی زیارت کی اس کے لئے میری شفاعت واجب ہوگئی
2۔ من حج البیت و لم یزرنی فقد جفانی (الکام فی ضعفاء الرجال، 248)
جس نے بیت اللّه کا حج کیا اور میری زیارت نہ کی اس نے مجھ پر ظلم کیا
3۔ من زارنی بعد موتی فکانما زارنی فی حیاتی ومن مات باحد الحرامین بعث من آمنین یوم القیامة (سنن دار القطنی کتاب الحج، 2668)
جس نے میری وفات کے بعد میری زیارت کی اس نے گویا میری حیات میں میری زیارت کی اور جو حرمین شریفین میں سے ایک میں مر گیا وہ قیامت کے دن امن والوں کی جماعت میں اٹھایا جائے گا۔
اسی لئے صحابہ کرام رضی اللّه تعالیٰ عنھما کے مقدس زمانے سے لے کر آج تک تمام دنیا کے مسلمان قبرِ منور کی زیارت کرتے اور آپ صلی اللّه تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم کی مقدس جناب میں توسل اور استغاثہ کرتے رہے ہیں اور ان شآء اللّه تعالیٰ قیامت تک یہ مبارک سلسلہ جاری رہے گا۔
(سیرتِ مصطفیٰ صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم از شیخ الحدیث حضرت علامہ عبد المصطفیٰ اعظمی رحمتہ اللّه تعالیٰ علیہ)
No comments:
Post a Comment