Monday, December 21, 2015

خود صاحبِ قرآں ہے مداحِ حضور ﷺ

اس مختصر سی تحریر میں قرآن کریم کی چند آیات، ان کا ترجمہ اور تفسیر سے یہ سمجھانا مقصود ہے کہ حضورِ پر نور، شفافع یوم النشور صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کی نعت، مدح خود رب کریم جل شانه اپنے پاک کلام میں بیان فرماتا۔

اے رضاؔ خود صاحب قرآں (یعنی اللّه تعالیٰ) ہے مداحِ حضور ﷺ
پھر تجھ سے کب ممکن ہے مِدحت رسول اللّه ﷺ کی

نیز قرآن مجید کی آیات کا ترجمہ و تفسیر اور احادیث رسول علی صاحبھا الصلوة و السلام کا ترجمہ و تفسیر سے متعلق تمام مواد میں نے تبیان القرآن، جلد 12 سے حاصل کیا جو کہ علامہ غلام رسول سعیدی صاحب رحمتہ اللّه تعالیٰ علیہ کی مرتب شدہ ہے۔ اللّه پاک آپ کی قبر انور پر بے حساب برکات کا نزول فرمائے اور آپ حضرت کے درجات کو مزید بلند فرمائے۔ آمین 

وللاٰخرة خیر لك من الاولیٰ (الضحیٰ، 4)
اور بے شک بعد والی ساعت آپ کے لئے پہلی ساعت سے بہتر ہے۔


یعنی اللّه تعالیٰ دن بہ دن آپ ﷺ کی عزت اور وجاہت میں اضافہ فرماتا رہے گا اور فراعنہ وقت اور منکروں اور معاندوں پر آپ ﷺ کو غلبہ عطا فرماتا رہے گا اور آپ ﷺ کو بہ کثرت فتوحات عطا فرماتا رہے گا اور آپ ﷺ کے متبعین اور پیروکار بڑھاتا رہے گا اور آپ ﷺ کے علوم اور معارف اور درجات میں ترقی عطا فرماتا رہے گا اور آپ ﷺ کا ہر بعد والا زمانہ پہلے زمانہ سے بڑھ چڑھ کر اور افضل اور اعلیٰ ہوگا اور اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیاوی مہمات کے مقابلہ میں اخروی درجات کی ترقی میں کوشش کرنا آپ ﷺ کے زیادہ لائق ہے۔

یہ سوال ذہن میں آ سکتا ہے کہ جب حضور نبی رحمت ﷺ کی آنے والی ساعت پہلی ساعت سے بہتر ہے یعنی آپ کی آخرت دنیا سے افضل ہوگی تو کس اعتبار سے فزوں تر ہوگی؟ چند ایک وجوھات پیشِ خدمت ہیں:

1۔ جنت آپ کی مملوک ہے


ان اللّه اشترٰی من المؤمنین انفسہم و اموالہم بان لھم الجنة (التوبہ: 111)
بے شک اللّه نے مؤمنین سے ان کی جانوں اور ان کے مالوں کو جنت کے بدلہ میں خرید لیا ہے۔

زندگی میں اللّه پاک کی عطا، جنت بھی اللّه کریم کی عطا ہے۔ کیسا مہربان رب ہے کہ جس نے اپنی عطا کی ہوئی نعمت کا ہی گویا اپنے بندے سے سودا فرمایا اور بدلے میں جنت کا مالک بنایا۔ اسی موقع پر اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ گویا ہوئے کہ 

میں تو مالک ہی کہوں گا کہ ہو مالک کے حبیب
یعنی محبوب و محب میں نہیں میرا تیرا

2۔ آپ شاھد ہیں


دنیا میں کفار و مشرکین اپنے ناپاک عزائم سے آپ ﷺ کے لئے پریشانی کا سامان کرتے ہیں جبکہ قیامت میں آپ ﷺ کی امت تمام امتوں پر گواہ ہوگی اور آپ ﷺ تمام نبیوں اور رسولوں پر گواہ ہوں گے اور اللّه پاک آپ پر گواہ ہوگا۔ اللّه تعالیٰ نے فرمایا: 

وکفیٰ باللّه شھیدا (الفتح: 28)
اور اللّه کی گواہی کافی ہے۔

3۔ فنا سے بقا


دنیا کی حسنات اور لذات، آفات اور پریشانیوں سے گھری ہوئی ہیں اور قلیل اور فانی ہیں جبکہ آخرت کی نعمتیں، پریشانیوں اور افکار سے خالی ہیں اور بہت زیادہ اور دائمی اور غیر منقطع ہیں۔


ولسوف یعطیك ربك فترضیٰ (الضحٰی، 5)
اور عنقریب آپ کا رب آپ کو اتنا دے گا کہ آپ راضی ہو جائیں گے۔

اس آیہ مبارکہ کی تفسیر میں امام ابو منصور بن محمد ماتریدی سمرقندی حنفی متوفی 333 ھجری لکھتے ہیں:

دنیا میں اللّه تعالیٰ آپ ﷺ کے ذکر اور شرف کو بلند کرے گا اور آپ کو دشمنوں پر غلبہ اور فتح اور نصرت عطا فرمائے گا اور آپ ﷺ کا دین اطراف عالم میں پھیل جائے گا اور آخرت میں آپ ﷺ کو تمام نبیوں پر فضیلت اور برتری عطا فرمائے گا، آپ سے پہلے کوئی شفاعت کے لئے لب کشائی نہیں کرے گا، لوائے حمد (حمد کا جھنڈا) آپ ﷺ کے ہاتھ میں ہوگا اور مقامِ محمود پر آپ ہی فائز ہوں گے، آپ سے پہلے کوئی جنت میں داخل نہیں ہوسکے گا، نہ آپ کی امت سے پہلے کوئی امت جنت میں داخل ہوسکے گی، حوضِ کوثر آپ ﷺ کے حوالے ہوگا اور اس دن آپ ﷺ کی عزت اور عظمت دیکھنے والی ہوگی۔

پھر بریلی کے تاجدار کی یاد آئی، فرماتے ہیں:

عرشِ حق ہے مسند رفعت رسول اللّه ﷺ کی 
دیکھنی ہے حشر میں عزت رسول اللّه ﷺ کی

لا و رب العرش جس کو جو ملا ان سے ملا
بٹتی ہے کونین میں نعمت رسول اللّه ﷺ کی

بعض مفسرینِ کرام کے مطابق یہ سب سے امید افزا آیہ کریمہ ہے کیونکہ اس میں اللّه تعالیٰ نے آپ ﷺ سے وعدہ فرمایا کہ وہ آپ ﷺ کو اتنا دے گا کہ آپ ﷺ راضی ہو جائیں گے اور حدیث شریف میں ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو نبی کریم صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: اگر میرا ایک امتی بھی دوزخ میں ہوا تو میں راضی نہیں ہوں گا۔ (الجامع لاحکام القرآن، جز 20، صفحہ 85)

مقامِ محمود:


جس دن شان یہ ہوگی کہ

لمن الملك الیوم، للّه الواحد القھار (المؤمن: 16)
آج کسی کی بادشاہی ہے؟ (خود ہی مالک ارشاد فرمائے گا) اللّه کی بادشاہی ہے جو واحد قہار ہے۔

اس دن جس دن کسی کو لب کشائی کی جرأت نہیں ہوگی اور لوگ نفسی نفسی کہیں گے اور تمام انبیاء (علیھم السلام) کے پاس جائیں گے اور سب شفاعت سے گریز کریں گے  تو سب حضور ﷺ کی بارگاہِ عالی پناہ میں حاضر ہوں گے ۔ ۔ 

حضرت ابن عمر رضی اللّه عنہما بیان کرتے ہیں کہ قیامت کے دن لوگ دو زانو بیٹھے ہوں گے، ہر امت اپنے اپنے نبی کے پاس جائے گی، وہ کہیں گے: فلاں! شفاعت کیجیئے حتیٰ کہ یہ (طلب) شفاعت نبی صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کے پاس آ کر ختم ہوگی، پس یہی وہ دن ہے جب اللّه تعالیٰ آپ ﷺ کو مقامِ محمود پر فائز فرمائے گا۔ (صحیح البخاری، رقم الحدیث: 4718)

کہیں گے اور نبی (علیھم السلام) "اذھبو الیٰ غیری"
میرے حضور ﷺ کے لب پر "انا لھا" ہوگا 

ورفعنالك ذکرك (الم نشرح: 4)
اور ہم نے آپ کی خاطر آپ کے ذکر کو بلند کر دیا۔

اللّه تعالیٰ نے آپ ﷺ کے ذکر کی بلندی اپنے ذمہ کرم پر رکھی، مخلوق کو اس کا مکلف نہیں کیا کہ وہ آپ ﷺ کا ذکر کرے کیونکہ اگر مخلوق آپ ﷺ کا ذکر بلند کرتی تو مخلوق کی ایک حد ہے اور وہ اپنی حد تک آپ کا ذکر بلند کرتی، اللّه تعالیٰ نے آپ ﷺ کے ذکر کو خود بلند کیا اور نہ اللّه تعالیٰ کی کوئی حد ہے اور نہ آپ ﷺ کے ذکر کی بلندی کی کوئی حد ہوگی، اللّه عزوجل لا محدود ہے تو آپ کے ذکر کی بلندی بھی لا محدود ہوگی، نیز مخلوق کی ابتداء بھی ہے اور انتہا بھی ہے، اللّه تعالیٰ ازلی ابدی ہے، سو آپ ﷺ کے ذکر کی بلندی بھی ازلی ابدی ہوگی۔

اللّه پاک فرماتا ہے:

تلك الرسل فضلنا بعضھم علی بعض منھم من کلم اللّه و رفع بعضھم درجت 
یہ رسول ہیں ہم نے ان میں سے بعض کو دوسرے بعض پر فضیلت دی ہے، ان میں سے بعض سے اللّه نے کلام فرمایا اور ان میں سے بعض کو درجات میں بلندی عطا فرمائی۔

اللّه تعالیٰ نے یہ ارشاد نہیں فرمایا کہ کتنی درجات کی بلندی دی کیونکہ عالم عدد میں کوئی ایسا عدد نہیں ہے جو رسول اللّه صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کے درجات کی تعین کر سکے، سو اپ ﷺ کے درجات غیر متناہی ہیں۔ امام بوصیری شاید اسی مقام پر گویا ہوئے:

فان فضل رسول اللّه لیس له
حد فیعرب عنه ناطق بفم

رسول اللّه صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کے فضل و کمال کی کوئی حد ہے ہی نہیں،
جس کو کوئی بتانے والا بتا سکے۔


پیر مہر علی شاہ صاحب علیہ الرحمہ نے بھی حضور ﷺ کی نعت شریف لکھنے کے بعد اختتام اسی پر فرمایا:

سبحان اللّه ما اجملك
ما احسنك ما کملك

اب چونکہ دیدار کی لذت حاصل ہوچکی تھی حضرت (پیر صاحب) کو تو سبحان اللّه کو بطورِ حیرت استعمال فرمایا کہ بنانے والے نے کیسا اجمل، کیسا احسن، کیسا اکمل بنایا کہ گو میں نے بیان تو کیا نعت میں لیکن بیان کر نہ سکا

اور اس بات کی تصدیق آپ کی نعت کا آخری شعر کرتا ہے کہ

کتھے مہر علی کتھے تیری ثناء
گستاخ اکھیاں کتھے جا اڑیاں

درخت قلم اور سمندر روشنائی بنیں تو پھر خدا لم یزل کی نعمت عظمیٰ کا بیان ایسا ہے کہ مکمل نہ ہو۔ یہ ذکر جاری تھا، جاری ہے اور جاری رہے گا، ان شاء اللّه۔ خدا ہمیں ہمت دے کہ ہم، اپنی بشری استعداد کے مطابق، کما حقه اس "فرض" کو ادا کر سکیں۔ آمین بجاہ النبی الکریم ﷺ 

Saturday, December 19, 2015

مینڈکی کو زکام

"استمال سے پہلے اچھی طرح ہلا لیں"

یہ ہدایت پڑھتے ہی پپو نے اپنے باپ کو ایسے زور کا جھٹکا دیا کہ پپو کا باپ اس کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گیا۔ یہ ہدایت دراصل اس "سیرپ" کے "لیبل" پر تحریر تھی جو پپو نے ڈاکٹر کے کہنے پر اپنے باپ کے لئے خریدا تھا، بجائے اس کے کہ پپو دوا کو تسلی سے ہلاتا، اس نے باپ کو ہلا ڈالا۔ باپ کی آخری ہچکی نکلتے ہی پپو نے ڈاکٹر پر چڑھائی کر دی، اور دعویٰ دائر کیا کہ ڈاکٹر ہی اس کے باپ کی موت کا ذمہ دار ہے ۔ ۔ ۔ یہی حال آج کل کے نام نہاد "سوشل مفتیوں" کا ہے۔

یہ کہانی فرضی تھی۔

اور مثال پیش کرنے کا مقصد صرف اور صرف سمجھانا تھا، جس طرح ہمارے نبی کریم ﷺ کی کوئی مثل نہیں اسی طرح آپ ﷺ کے کلام کی بھی کوئی مثال نہیں۔ آپ ﷺ امام الانبیاء ہیں تو آپ کا کلام امام الکلام ہے، جامع ہے، جمیل ہے، کافی ہے۔ حضور ﷺ کا ارشاد گرامی پیش کیا جاتا ہے:

"کل بدعة ضلالة و کل ضلالة فی النار"
ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم میں لے جانے والی ہے

ضلالت کا مصداق کون:


آپ قرآن و احادیث کا مطالعہ کیجیئے تو پتہ چلے گا کہ بڑی سے بڑی حکم عدولی پر بندہ گناہگار ہوتا ہے، گمراہ نہیں۔ گمراہ تب ہی ہوتا ہے کہ جب عقائد میں خرابی ہو یعنی کہ واجب کا انکار کرنے والا گمراہ اور فرض کا انکار کرنے والا کافر۔ دوبارہ پڑھ لیں، انکار کرنے والا کہا، عمل کرنے والا یا عمل نہ کرنے والا نہیں کہا ۔ ۔ ۔ سو حدیث شریف کا شرع کیا بنی کہ ہر وہ گروہ جو دین میں نئے عقائد کی راہ ڈالے وہ گمراہ ہوا اور اس کا ٹھکانہ جہنم اور اس مفہوم کی تصدیق پر دیگر کئی احادیث دال ہیں۔

بے شک حضور ﷺ نے حق فرمایا، سچ فرمایا لیکن اس ارشادِ گرامی کو پیش کر کے کہا جاتا ہے چونکہ فلاں فلاں کام حضور علیہ السلام کے زمانۂ مقدسہ میں نہیں ہوئے اور اصحابِ رسول رضوان اللّه تعالیٰ علیھم اجمعین نے ان کاموں کو سرانجام نہیں دیا سو یہ سب کام بدعت اور گمراہی ہیں۔ 

سب سے پہلے کچھ روشنی بدعت پر ڈالتے ہیں اور اسے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بدعت کی عملی دو اقسام ہیں: بدعتِ حسنه اور بدعتِ سیئه مزید ان کی پانچ علامتیں ہیں: بدعتِ جائز، بدعتِ مستحبہ، بدعتِ واجبہ، بدعتِ مکروہہ اور بدعتِ حرام۔


بدعت اور اس کی اقسام


اللّه جل شانه کا ایک اسم صفاتی "البدیع" بھی ہے، جس کا مطلب ہے کہ از سرِ نو پیدا کرنے والا یا نئے سرے سے پیدا کرنے والا۔ لغت میں ہر نئے کام کو بدعت کہا جاتا ہے اور شرعی اصطلاح میں ہر وہ نیا کام کہ جس کی اصل دین میں نہ ہو اور قرآن و سنت سے متصادم ہو، بدعت کہلائے گا۔ 

بدعت کی بالعموم دو اقسام ہیں: بدعتِ حسنه اور بدعتِ سیئه۔ جو کام دین میں نیا ہوگا لیکن اس کی اصل دین میں موجود ہوگی وہ بدعتِ حسنه اور جو کام نیا بھی ہوگا اور دین سے متصادم بھی اسے بدعت سیئه کہا جائے اور اسی پر حدیث شریف میں وعید وارد ہے۔ 

بدعت حسنه کی بہت سے مثالیں تو خلفائے راشدین کے زمانے سے ملتی ہیں جیسے کہ قرآنِ حکیم کا ایک جگہ، ایک نسخہ میں جمع ہونا، تراویح کی جماعت قائم ہونا، قرآن مجید کو لغتِ قریش پر جمع کرنا اور اس پر اعراب لگانا وغیرہ لیکن بہت سے بدعاتِ حسنه دورِ صحابہ کے بعد سے رائج ہوئیں اور "صوادِ اعظم" میں ان کی جھلک اب بھی موجود ہے۔

بدعتِ سیئه کی مثالیں پیش کرنے کی شاید یہاں حاجت نہیں لیکن پھر بھی ساز کے ساتھ کلام پڑھنا، قوالی، ان میں سے ایک ہے۔


آج کل چونکہ ماہِ ربیع الاول اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ جلوہ افروز ہے سو عیدِ میلاد مصطفیٰ ﷺ پر پر اعتراضات کی بارش ہو رہی، میں بھی اس مضمون میں اپنی تمام توجہ اسی پر مرکوز رکھوں گا اور کوشش ہوگی کہ عقلِ سلیم رکھنے والے صاحبان کو چند نکات پیش کروں۔ تو پہلے یہ دیکھیئے کہ عیدِ میلادِ مصطفیٰ صلی اللّه علیہ وسلم ہے کیا ۔ ۔ ۔

عید میلاد مصطفیٰ ﷺ


وہ محفل کہ جس میں حضور نبی رحمت ﷺ کے اوصاف و کمالات بیان ہوں، حضور ﷺ کے فضائل و شمائل بیان کر کے حضور ﷺ کی محبت و عقیدت مؤمنین کے دلوں میں اجاگر کی جائے، آپ ﷺ کے عالی نسب اور بلند پایہ گھرانے کا تذکرہ کر کے آپ ﷺ کی عظمت دلوں میں جاگزیں ہو، حضور ﷺ کا بچپن اور آپ ﷺ کی ولادت کے واقعات بیان کیئے جائیں اور انہیں حصول برکت کا ذریعہ سمجھا جائے، سرورِ لالہ رخاں ﷺ کے روشن و تابندہ معجزات کا ذکر کر کے تاجدارِ مدینہ ﷺ کے لئے مر مٹنے کا جذبہ مزید عروج پائے اور امتی اپنی قسمت پر ناز کرے، ایسی ہر محفل، ایسی ہر مجلس میلادِ مصطفیٰ ﷺ ہے۔ اس کا حکم مستحب ہے یعنی کرنے والا ثواب کا مستحق اور نہ کرنے والا گناہگار نہیں ہے۔ اس مجلس میں کھانا کھلانا، جھنڈے لہرانا، چراغاں کرنا، جلوس یا ریلی نکالنا الغرض جائز طریقہ سے خوشی کا اظہار اسی ضمن میں شامل ہے۔ پھر چاہے وہ کسی بھی جمعہ کا خطبہ ہو، کوئی سیرت کانفرنس ہو یا کوئی ختمِ بخاری۔


ہر عمل کی انفرادی حیثیت:


اگر عمل کی انفرادی حیثیت دیکھی جائے تو میلاد مصطفیٰ ﷺ میں کوئی بھی ایسا کام نہیں کہ جس پر تنقید کی گنجائش ہو، جب کھانا کھلانا، نعرہ لگانا، جھنڈا لہرانا، چراغاں کرنا (ہر عمل صحابہ کی سنت سے ثابت ہے) جدا جدا جائز ہے تو ان سب کا ایک دن، ایک جگہ اکھٹا کر لینا غلط کیسے ہوگیا؟ فقہہ کا ایک قاعدہ یاد رہے کہ جب ایک چیز کی مطلقاً اجازت ہو تو پھر اس میں کسی جز کے رد کے لئے بھی اتنی ہی قوی دلیل درکار ہوتی ہے۔ قرآن میں حکم ہے:

کلو مما رزقناکم حلالا طیبا
کھاؤ اس میں سے جو تمہیں دیا گیا ہے، پاک/حلال اور طیب

یعنی مطلقاً کھانے پینے کا حکم ہے لیکن ساتھ ہی حلال اور طیب کی شرط بھی ہے، اس کے ساتھ شراب کی ممانعت آگئی، سور کی ممانعت آگئی اور دیگر سو وہ حرام ہوگئے، اب مثال سمجھے تو مدعا سمجھو

فرمان ہوا:

قل بفضل للّه و برحمتهٖ فبذلك فلیفرحوا
اللّه کے فضل و رحمت پر خوب خوشیاں مناؤ

جب مطلقاً ارشاد ہوچکا تو اب جب تک صراحت کے ساتھ کوئی ممانعت نہیں ہوگی، اس کا اعتبار نہیں کیا جائے گا۔

ضرورت کا اعتبار:


جنگ یمامہ میں جب مسیلمہ کذاب سے سامنا ہوا تو عجب منظر تھا کہ سامنے بھی کلمہ گو تھے اور نعرہ "اللّه اکبر" تو مشاورت کے بعد صحابہ نے اپنا نعرہ رکھا، "یا محمدا، یا رسول اللّه" اس جنگ میں حق و باطل کی تفریق اسی نعرہ سے ہوئی اور صحابہ کرام رضوان اللّه تعالیٰ علیھم اجمعین نے ہزاروں قربانیوں کے بعد اللّه کے فضل سے غلبہ حاصل کیا۔ اسی جنگ میں  1400 حفاظ صحابہ کرام شہید ہوئے تو جنابِ فاروق اعظم رضی اللّه عنہ نے صدیقِ اکبر رضی اللّه عنہ کو مشورہ دیا کہ قرآن کریم کی حفاظت کے لئے اسے ایک جگہ جمع کر دیا جائے (چونکہ پہلے قرآن کریم ایک جگہ، جیسے اب ہے، نہیں تھا) تو صدیقِ اکبر رضی اللّه تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ جب رسول اللّه ﷺ نے ایسا نہیں کیا تو میں کیسے کر سکتا ہوں؟ پھر دیگر اصحاب سے مشورے کے بعد یہی فیصلہ ہوا کہ اس بات کی ضرورت ہے سو ایسا کرنا چاہیے۔

اسی اصول کو مد نظر رکھیں، آج سب سے زیادہ جس چیز کو خطرہ ہے وہ دولتِ ایمانی ہے جس کی بنیاد محبتِ رسول ﷺ ہے۔ مغرب طرح طرح کے باطل ہتھکنڈوں سے ہمارے خلاف ہے اور ہماری آنے والی نسل کو گمراہ کر رہا ہے، ایسے میں عزتِ رسول ﷺ کے عنوان سے محافل، سیرت رسول ﷺ کے عنوان سے کانفرنسز تو ہمارے معاشرے میں رائج ہونی چاہیں جبکہ یہاں الٹ تماشا کوئی شرک کے فتوے لگاتا ہے تو کوئی بدعت کے ۔ ۔ ۔

سوال ہے کہ جو شانیں خدا نے ہمارے نبی کریم ﷺ کو عطا فرمائیں انہیں بیان کرنے کے لئے بھی کوئی موقع ہونا چاہیے ناں؟ (گو اھلِ حق کی محفل کا عنوان ہمیشہ حضور ﷺ کی ذاتِ والا صٖفات ہی ہوتی ہے) تو ربیع الاول سے بہتر اور کونسا مہینہ ہو سکتا ہے؟ 

یہاں تو باقاعدہ  سے فتوے آن لائن پوسٹ کیئے جاتے ہیں کہ شبِ معراج بدعت ہے، ضلالت ہے، گمراہی ہے (اللّه کا شکر ہے اب تک جہنمی ہونے کا فتویٰ نہیں آیا، حکمت ہے یا رعایت اللّه بہتر جانے)، شبِ نصف شعبان پر محفل بھی بدعت ہے اور عید میلاد پر بڑے بڑے بڑبڑا اور بِلبلا اٹھتے ہیں۔ علماء تو اس بندے کو جو جمعہ کی دوسری آذان کا جواب دیتا ہے، نہیں روکتے کہ اس گئے گزرے دور میں ذکرِ الہٰی تو کر رہا (گو چپ رہنے کا ہی حکم ہے) اور ایسے مبارک دنوں میں خدا کا اور خدا کے محبوب کا ذکر ہو اور فتوے مسلمان لگائیں اور بدعت کے لگائیں اور یقین تو اور پختہ ہوگا ناں کہ انگریز کا لگایا ہوا پودا آج انہیں سایا فراہم کر رہا ہے۔


بدعتی تو تم بھی ہو:


اسلام کی کوئی عبادت بدعت حسنه سے خالی نہیں، چند ایک مثالیں پیش کیئے دیتا ہوں:

مسلمانوں کے بچے بچے کو یاد، ایمانِ مفصل اور ایمانِ مجمل، چھ کلمے اور ان کی ترتیب، قرآن کے تیس پارے بنانا، ان کے رکوع قائم کرنا، اعراب لگانا، حدیث کو کتابی شکل میں جمع کرنا، حدیث کی اسناد بیان کرنا، اسناد پر جرح کرنا اور حدیث کی قسمیں بنانا کہ صحیح ہے، یہ حسن، یہ ضعیف، یہ معضل، یہ مدلس پھر ان کی ترتیب دینا پھر ان پر احکام مقرر کرنا کہ حرام و حلال چیزیں احادیث صحیحہ سے ثابت کرنا اور فضائل ضعیف سے، سارا فنِ حدیث بدعت ہے۔ اصولِ حدیث، اصولِ فقہ و علم و کلام، نماز میں زبان سے نیت، روزہ رکھنے اور افطار کرنے کی دعا، زکوٰة موجودہ سکہ رائج الوقت کے تحت ادا کرنا ۔ ۔ ۔ اور بہت کچھ سب بدعتِ حسنہ کے زمرے میں آتا ہے۔ تو ہم پر بدعت کے فتوے لگانے والوں، سنو! تم بھی بدعتی ہو۔

میرے آقا اعلیٰ حضرت رحمتہ اللّه تعالیٰ علیہ کیا خوب فرماتے ہیں:


دشمنِ احمد پہ شدت کیجئے
ملحدوں کی کیا مروت کیجئے
ذکر اُن کا چھیڑیئے ہر بات میں 
چھیڑنا شیطاں کا عادت کیجئے
مثلِ فارس زلزلے ہوں نجد میں
ذکرِ آیاتِ ولادت کیجئے
غیظ میں جل جائیں بے دینوں کے دل 
"یارسول اللہ" کی کثرت کیجئے
کیجئے چرچا اُنہیں کا صبح و شام
جانِ کافر پر قیامت کیجئے



آخر میں دعا کہ خدا بے ہدایتوں کو ہدایت دے۔ اور ہمیں اپنے محبوب کریم ﷺ کا ذکر کرنے، آپ ﷺ کی سیرت پر عمل کرنے اور اپنی آنے والی نسلوں میں حضور ﷺ کی محبت کی شمع روشن کرنے اور اس کی حفاظت کرنے کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین

(اس بلاگ کے لئے کچھ مواد میں نے مفتی احمد یار خان نعیمی رحمتہ اللّه تعالیٰ علیہ کی کتاب، "جاء الحق" سے حاصل کیا،
اللّه پاک مفتی صاحب علیہ الرحمہ کی قبرِ انور پر ڈھیروں ڈھیر رحمتوں اور برکتوں کا نزول فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین ﷺ) 

Monday, December 7, 2015

اعلیٰ حضرت

تاریخ نے بہت سی عظیم ہستیوں کے ساتھ انصاف اس طرح نہیں کیا کہ ان کی خدمات، چاہے وہ علمی و ادبی ہوں یا فنی و دیگر، کو خراجِ تحسین پیش کرنے میں لیت و لعل سے کام لیا۔ خصوصاً جب معاملہ دینی شخصیات کا ہو تو پیچیدگی یوں بھی بڑھ جاتی ہے کہ اس شخصیت کے لئے آواز اٹھانا محض ان سے منسلک افراد کا ہی ذمہ رہ جاتا ہے۔ مولانا احمد رضا خان فاضل بریلوی دامت برکاتھم قدسیہ بھی انہی شخصیات میں سے ہیں کہ جن کا کلام تو زبان زدِ عام ہے ہی لیکن آپ کی شخصیت سے عوام و خواص کی اکثریت ناواقف ہے۔

آپ کی ولادت باسعادت 10 شوال المکرم 1272 ھجری بمطابق 14 جون 1856 سنِ عیسوی کو بریلی (یو-پی، بھارت) میں ہوئی۔ آپ کے والد ماجد مولانا نقی احمد خان رحمتہ اللّه تعالیٰ علیہ (متوفی 1297 ھجری) اور جد امجد مولانا رضا علی خان رحمتہ اللّه تعالیٰ علیہ (متوفی 1282 ھجری) عالم دین اور صاحبِ تصنیف بزرگ تھے۔ آپ کا نام "محمد" رکھا گیا اور تاریخی نام المختار تجویز کیا گیا جبکہ بعد میں آپ کے جدِ امجد نے "احمد رضا" نام رکھا اور خود فاضلِ بریلوی رحمتہ اللّه تعالیٰ علیہ نے اپنے نام میں "عبد المصطفیٰ" کا اضافہ فرمایا۔ آپ نسباً پٹھان، مسلکاً حنفی اور مشرباً قادری تھے۔

تعلیمی قابلیت:


آپ نے ابتدائی علوم اپنے والدِ ماجد سے حاصل کیے۔ آپ کی علمی لیاقت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آپ نے دین کے بنیادی علوم تیرہ سال اور چند ماہ کی عمر میں حاصل کر لئے اور محض چودہ سال کی عمر میں "مسئلہ رضاعت" پر فتویٰ صادر فرما کر فتویٰ نویسی کا آغاز فرمایا۔ آپ کی دینی علوم پر دسترس اور معاملہ فہمی دیکھتے ہوئے آپ کے والدِ ماجد نے بریلی کی مسند آپ کو عنایت فرمائی اور پھر وقت نے ثابت کیا کہ آپ واقعی اس مسند کے اھل تھے۔

آپ نے شاہ آلِ رسول، شیخ احمد بن زینی دحلان مکی، شیخ عبد الرحمٰن مکی، شیخ حسین بن صالح مکی، شیخ ابو الحسین احمد النوری رحمتہ اللّه تعالیٰ علیھم اجمعین سے استفادہ کیا اور دس علوم حاصل کیے:

قراة، تجوید، تصوف، سلوک، اخلاق، اسماء الرجال، سیر، تاریخ، نعت، ادب۔

جبکہ 14 علوم اپ نے ذاتی مطالعے اور بصیرت سے حاصل کیئے:

ارثما طیقی، جبر و مقابلہ، حساب سینی، لوگازعات، توقیت، مناظر و مرایا، اکر، زیجات، مثلث کروی، مثلث سطح، ہیاة جریدہ، مربعات، جفر، زائرچہ۔

عشق رسول اور احترامِ سادات:


جو شخص "اعلیٰ حضرت" سے کسی بھی حد تک واقف ہے وہ یہ تو ضرور جانتا ہوگا کہ آپ کی ساری شاعری قرآن کا ترجمہ، احادیث اور سیرتِ رسول ﷺ کا نچوڑ ہے۔ آپ کا ہر شعر یا تو نعتِ رسول ہے یا شانِ رسالت پر تنقیص کرنے والوں کے سینے میں تیر۔ کہیں "سب سے اولیٰ و اعلیٰ ہمارا نبی ﷺ" ہے تو کہیں "سرور کہوں کہ مالک و مولیٰ کہوں تجھے"، کہیں آپ حشر میں حضور ﷺ کی شان بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ "عرشِ حق ہے مسندِ رفعت رسول اللّه کی" تو کہیں رسول اللّه ﷺ کی شفاعت پر نظر رکھتے ہوئے فرماتے ہیں کہ "سنتے ہیں کہ محشر میں صرف انکی رسائی ہے" تو کہیں اعداء کے لئے فرماتے ہیں کہ "دشمانِ احمد پہ شدت کیجیئے"۔

دوسری طرف نسبت رسول ﷺ کا اتنا پاس کہ آپ کی مجلس کا یہ دستور تھا کہ کوئی تحفہ یا نیاز وغیرہ پیش کی جاتی تو ساداتِ کرام اور باریش افراد کو باقی احباب سے دوگنا دیا جاتا۔ حضور ﷺ  کی آل سے  عقیدت کے یوں تو کئی واقعات ہیں لیکن مختصراً ایک واقعہ پر ہی اکتفا کر رہا ہوں، ایک مرتبہ آپ اپنے تلامزہ کو درس فرما رہے تھے کہ دورانِ درس کھڑے ہوگئے، پھر کچھ دیر بعد بیٹھ گئے۔ یہ معاملہ متعدد مرتبہ دہرایا گیا تو شاگردوں نے پوچھا کہ حضور آپ نے ایسا کیوں کیا تو آپ نے فرمایا کہ پڑوس میں ایک سید زادہ ہے وہ کھیلتے کھیلتے ہمارے سامنے (مدرسے کے دروزاے کے باہر) سے گزرا تو ہم ادب سے کھڑے ہوگئے۔

نعت گوئی اور اعلیٰ حضرت:


اعلیٰ حضرت نعتیہ شاعری کے بارے میں اپنے ملفوظات میں فرماتے ہیں:

"حقیقتاً نعت شریف لکھنا نہایت مشکل ہے جس کو لوگ آسان سمجھتے ہیں، اس میں تلوار کی دھار پر چلنا ہے، اگر بڑھتا ہے تو الوہیت میں پہنچ جاتا ہے اور کمی کرتا ہے تو تنقیخ (یعنی شان میں کمی و گستاخی) ہوتی ہے، البتہ "حمد" آسان ہے کہ اس میں راستہ صاف ہے جتنا چاہے بڑھ سکتا ہے۔ غرض "حمد" میں ایک جانب اصلاً حد نہیں اور "نعت شریف" میں دونوں جانب سخت حد بندی ہے۔
(ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت، صفحہ 228، مکتبة المدینہ)

بہت نامور شعراء بھی میدانِ شاعری میں شریعت کا پاس نہ رکھ سکے اور لغزشیں کرتے چلے گئے۔ بعض کا تو یہ ماننا ہے کہ شاعری میں شریعت کا پاس رکھنا ممکن ہی نہیں، ایسے نظریہ رکھنے والوں کے لئے ہی امامِ عاشقاں فرماتے ہیں:

جو کہے شعر و پاسِ شرع دونوں کیوں کر آئے
لا اسے پیشِ جلوہ زمزمۂ رضا کہ یوں

آپ رحمتہ اللّه تعالیٰ علیہ کی شاعری کو ایک طرف رکھیں اور غالب و اقبال کی شاعری ایک طرف رکھیں تو کسی بھی طور آپ کی شاعری اپنا الگ ہی روپ پیش کرے گی اور اس کی زندہ مثال آپ کا لکھا گیا سلام ہے، "مصطفیٰ جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام" اس سلام کے 171 اشعار ہیں اور کمال یہ ہے کہ پہلا اور آخری مصرع ایک ہی ہے۔ ایک اور کارنامہ یہ ہے آپ کی شاعری کا کہ ایک ہی نعت چار زبانوں میں تحریر فرمائی ہے، "لم یات نظیرك فی نظر" اور ایسی مظبوط گرفت کے ربط ٹوٹننے نہیں پاتا۔ کہیں کوئی "نور کا قصیدہ" ہے تو کہیں "قصیدۂ معراج" اور کہیں کوئی ایسی نعت کہ جس میں ہونٹ آپس میں نہیں ملتے۔ الغرض آپ کی شاعری اردو شاعری کا ایک انمول خزانہ ہے جسے عشق رسول ﷺ کی شمع نے فروزاں کیا اور ان شاء اللّه یہ تاقیامت روشن رہے گی۔

کنز الایمان:


اعلیٰ حضرت نے قرآنِ پاک کا ترجمہ بھی فرمایا، کنز الایمان اور ایسے بے مثال ترجمہ کہ جو اپنے آپ میں تفسیر بھی ہے اور عقائد کے حوالے سے ایک روشن چراغ بھی۔ آپ کے دور میں جو قرآن کے ترجمے کئے گئے ان میں بے شمار لغزشیں پائی جاتی ہیں، کچھ گمراہی میں بھٹک گئے اور کچھ کفر کے اندھیروں میں جا گرے۔ مندرجہ ذیل تقابلی مطالعے سے اس حقیقت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے:

1۔ اللّه ان سے ٹھٹھہ کرتا ہے۔ (سر سید احمد خان، تفسیر قرآن، بقرہ/خطوط 15)
اللّه ان سے استہزا فرماتا ہے۔ (کنز الایمان)

2۔ اللّه اپنا داؤ کر رہا تھا۔ (ترجمہ مولوی نذیر احمد دہلوی، انفال 30)
اور اللّه اپنی خفیہ تدبیر فرماتا تھا۔ (کنز الایمان)

3۔ اور آدم سے اپنے رب کا قصور ہوگیا، تو غلطی میں پڑگئے۔ (مولوی اشرف علی، بیان القران، طہ 22)
اور آدم سے اپنے رب کے حکم میں لغزش واقع ہوئی تو جب مطلب چاہا اس کی راہ نہ پائی۔ (کنز الایمان)

4۔ اور پایا تجھ کو بھٹکتا پھر راہ سمجھائی۔ (مولوی محمود حسن، ترجمہ قرآن، ضحیٰ)
اور تمہیں اپنی محبت میں خود رفتہ پایا، تو اپنی طرف راہ دی۔ (کنز الایمان)

ان چند ایک مثالوں میں عقائد کی باریکیاں ہیں اور ان کے خلاف عقیدہ رکھنے سے بندہ دائرہ سے خارج بھی ہوسکتا ہے، آپ کے ترجمے کا یہ اعزاز ہے کہ اس میں علم الکلام کی لطافتوں کو بھی ملحوظ رکھا۔

تصنیفاتِ اعلیٰ حضرت:


علوم و فنون سے فراغت کے بعد تصنیف و تالیف، درس و تدریس اور فتویٰ نویسی میں مشغول ہوگئے۔ تقریباً 50 علوم و فنون میں ہزار سے زائد کب و رسائل آپ کی یادگار ہیں۔ آپ کی چند نامور کتابوں میں فتویٰ رضویہ (تیس جلدوں میں)، بہارِ شریعت، حدائقِ بخشش اور الدولة المکیه ہیں۔ کچھ کتب آپ نے محض چند گھنٹوں میں یادداشت کی بنا پر مکہ و مدینہ میں ترتیب دیں جب کہ اصل عربی کتب ہند میں تھیں۔

"اعداء سے کہہ دو کہ خیر منائیں"


آپ کے مزاج میں شدت بہت تھی اور اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے اقبال علیہ الرحمہ نے فرمایا تھا کہ اگر امام احمد رضا خان میں یہ شدت نہ ہوتی تو وہ اس دور کے ابو حنیفہ ہوتے (مقالات یوم رضا، جلد 3) مزید فرمایا کہ ہندوسان کے اس دور متاخرین میں ان جیسا طباع اور ذہین فقیہ مشکل سے ملے گا۔

شدت عشق کا خاصا ہے جب کوئی محبوب پر تنقید کرے، اس کے علم کو تولے، اس کی شان پر انگلی اٹھائے تو پھر اس کا رد بھی اسی شدت سے دینا عاشق پر واجب ہے اور یہ بات آپ کے مخالفین نے بھی تسلیم کی ہے کہ آپ نے جو فتویٰ جات جاری فرمائے وہ عشق میں کمال کے باعث اور اگر ایسا نہ کرتے تو خود ان کی زد میں آ جاتے۔

کلک رضا ہے خونخار، برقبار
اعداء سے کہہ دو کہ خیر منائیں، نہ شر کریں

شبہ کا ازالہ:


کچھ لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ امام احمد رضا خان رحمتہ اللّه تعالیٰ علیہ نے ایک نئے فرقے کی بنیاد رکھی یعنی بریلوی جو کہ درست نہیں۔ آپ مجدد دین و ملت ہیں یعنی کہ آپ کے دور میں دین کی شکل مسخ کرنے کی کوشش جاری تھی آپ نے اسے اس طریق پر جاری کیا کہ جو سابقہ 1300 سال سے رائج اور مسمم ہے۔ اور یہ بات احادیث سے ثابت ہے کہ ایک صدی میں ایک مجدد ہوگا کہ جو دین کے چہرے سے دھول صاف کرے گا اور دین کا اصل چہرہ یونہی قیامت تک برقرار رہے گا۔ ایسا باطل دعویٰ کرنے والوں سے میرا دین کے ادنیٰ طالب علم ہونے کے حوالے سے ایک سوال ہے کہ اعلیٰ حضرتِ امام اہلسنت کی تحاریر و تصانیف سے کوئی ایک ایسی بات نکال کر دکھا دیں کہ جو سابقہ امت کے طریق کے برخلاف ہو، ان شاء اللّه ایسی کوئی چیز نہیں ملے گی کیونکہ آپ دین کے سچے خادم ہیں، اسی لئے خدا نے آپ کا نام آج 97 برس گزر جانے کے بعد بھی باقی رکھا ہے۔

آپ کا وصال 25 صفر، 1240 ھجری کو بوقت نماز جمعہ 3 بج کر 38 منٹ پر وصال فرمایا۔ اللّه آپ کی لحد پر کروڑوں رحمتوں کا نزول فرمائے۔ آمین


یہی کہتی ہے بلبل باغ جناں کہ رضا کی طرح کوئی سحر بیاں
نہیں ہند میں واصف شاہ ہدیٰ مجھے شوخ طبع رضا کی قسم

Saturday, November 7, 2015

حرام زادہ

وہ گھر میں غصے سے داخل ہوا اور ماں کو دیکھتے ہی اس پر جھپٹا، سینے پر سوار ہوا اور تلوارگردن پر تان کر کہا کہ میرا باپ کون ہے؟


دینِ اسلام کی اعلانیہ تبلیغ کا حکم نازل ہوچکا ہے اور نبی مکرم ﷺ، اپنے رب کے حکم کی تعمیل میں وحی کی تبلیغ فرما رہے ہیں۔ وہی لوگ کہ جو آپ کو صادق اور امین کے لقب سے پکارتے، جو آپ کے ایک اشارے پر اَن دیکھے لشکر سے لڑنے مرنے پر تیار تھے، وہ اَن دیکھے خدا کو ماننے سے انکاری ہوگئے۔ جب مشرکینِ مکہ کے مفادات اور باطل اعتقادات پر ضرب پڑی تو حق شناسی میں چوری کے مرتکب ہوئے۔ لیکن وہ بد بخت تھے اور تاقیامت دھتکارے ہوئے رہیں گے کہ جو رسول خدا ﷺ کے بغض اور عداوت میں اتنے آگے بڑھ گئے کہ واپسی کا رستہ نہ رہا۔


انہی بد بختوں اور خبیثوں میں ایک ولید بن مغیرہ تھا، جب نبی کریم ﷺ نے تبلیغ فرمائی تو اس نے نعوذ باللّه آپ ﷺ کو مجنون کہا۔ یہ بات اللّه تعالیٰ کی بارگاہ اتنی معیوب تھی کہ ستار العیوب نے اپنے کلامِ حق میں اس کے عیب گنوائے۔ پارہ 29 کی دوسری سورہ، کہ جو قرآنِ حکیم میں ترتیب کے لحاظ سے 68 نمبر پر  اور نزول کے اعتبار سے دوسرے نمبر پر (گو اختلاف ہے) ہے۔


1۔ قلم اور ان کے لکھے کی قسم
2۔ تم اپنے رب کے فضل سے مجنون نہیں
3۔ اور ضرور تمہارے لئے بے انتہا ثواب ہے
4۔ اور بیشک تمہاری خوبو بڑی شان ہے
5۔ تو اب کوئی دم جاتا ہے کہ تم بھی دیکھ لو گے اور وہ بھی دیکھ لیں گے
6۔ کہ تم میں کون مجنون تھا
7۔ بیشک تمہارا رب خوب جانتا ہے جو اس کی راہ سے بہکے اور وہ خوب جانتا ہے جو راہ پر ہے
8۔ تو جھٹلانے والوں کی بات نہ سننا
9۔ وہ تو اس آرزو میں ہیں کہ کسی طرح تم نرمی کرو (ضروریاتِ دین کے معاملے میں) تو وہ بھی نرم پڑ جائیں
10۔ اور ہر ایسے کی بات نہ سننا جو بڑا قسمیں کھانیوالا، ذلیل 
11۔ بہت طعنے دینے والا، بہت ادھر کی ادھر لگاتا پھرنیوالا
12۔ بھلائی سے بڑا روکنے والا، حد سے بڑھنے والا گناہگار

13۔ درشت خو، اس پر طرّہ یہ کہ اس کی "اصل میں خطا"

14۔ اس پر کہ کچھ مال اور بیٹے رکھتا ہے
15۔ جب اس پر ہماری آیتیں پڑھی جائیں، کہتا ہے کہ اگلوں کی کہانیاں ہیں
16۔ قریب ہے کہ ہم اسکی سور کی سی تھوتھنی پر داغ دیں گے۔

سورة القلم، آیت 1 تا 16
ترجمہ کنز الایمان


ملاحظہ ہو، خدا نے اپنے محبوب بندے کا کیسا دفاع فرمایا۔ سب سے پہلے باطل الزام کو رَد فرمایا اور رَد بھی کیسے فرمایا کہ لحظہ لحظہ اپنے فضل کے ساتھ ہونے کی نوید دی، عظیم اجر و ثواب کا اعلان فرمایا اور "انك لعلیٰ خلق عظیم" کا تاج رحمتہ اللعالمین کے سرِ انور پر سجایا۔


پھر اس گستاخ کو اپنے حبیب کی جانب سے خود جواب ارشاد فرمایا اور اس کے نَو عیب (بعض علماء کے مطابق دَس) بیان فرمائے۔ 

1۔ بڑا قسمیں کھانیوالا 2۔ بے حد ذلیل 3۔ بہت طعنے دینے والا 4۔ چلتا پھرتا چغل خور 5۔ بھلائی سے روکنے والا 6۔ حد سے متجاوز 7۔ سخت گناہگار 8۔ درشت (بَد) خو 9۔ اصل میں خطا (یعنی حرام زادہ) 


جب یہ آیات نازل ہوئیں تو ولید بن مغیرہ غضب سے اپنے گھر میں داخل ہوا اور ماں کے سینے پر سوار ہو کر کہنے لگا کہ محمد (ﷺ) نے میرے 9 عیب گنوائے ہیں، آٹھ مجھے پتہ ہیں کہ میرے اندر موجود ہیں لیکن نویں عیب کی تصدیق تمہارے سوا اور کوئی نہیں کرسکتا (یا 10 عیب اور 9 جانتا ہوں)۔ اس کی ماں نے کہا کہ تمہارا باپ ناکارہ تھا، مجھے خطرہ تھا کہ اس کی وفات کے بعد ہمارے مال کا کیا بنے گا، سو میں نے ایک چرواہے کو بلایا، تو اسی کی اولاد ہے۔ 

تِبیانُ القرآن، جلد 12، صفحہ 185



ایک مزید نکتہ جو ان آیاتِ بینات سے ہمارے سامنے ہیں وہ یہ کہ احکم الحاکمین، اله مطلق اعلان فرما رہا ہے کہ ہم اس (ولید بن مغیرہ) کی تھوتھنی پر داغ لگائیں گے، تھوتھنی سے مراد یہاں ناک ہے، جیسے پاؤں کو حقارت سے "کھر" یا "سم" کہہ دیتے ہیں، ویسے ہی اس کی ناک کو حقارت سے تھوتھنی کہا گیا اور ناک ہی کیوں؟ اس لئے کہ ناک عزت کا باعث سمجھی جاتی ہے جیسے کہ ہمارے ہاں محاورات میں بھی مستعمل ہے۔




اور پھر قدرت نے یہ بات سچ کر دکھائی، غزوہ بدر میں ولید بن مغیرہ کفار کی طرف سے میدان میں اترا اور اس کی تھوتھنی پر تلوار کا نشان لگا جو کہ بعد اس کی شناخت بن گیا، قیامت میں بھی کفار کے درمیان اس کی یہی شناخت ہوگی، داغی ہوئی تھوتھنی ۔ ۔ ۔



تفسیر کبیر، جلد 10، صفحہ 606


ان آیات کو پڑھنے اور سمجھنے کے بعد کیا سبق ملتا ہے؟

1۔ خدا کے حبیب، مصطفیٰ کریم ﷺ کے خلاف (اگر خدانخواستہ) کوئی بھی بکواس کرے تو سب سے پہلے اس کا رَد بے باک اور نڈر انداز میں کیا جائے گا۔

2۔ حضور ﷺ کے فضائل و کمالات بیان کیئے جائیں گے۔

3۔ آپ ﷺ پر خدا کی رحمتوں کا تذکرہ ہوگا۔

4۔ اور پھر جو اس گستاخی کا مرتکب ہوا ہوگا اس کے لئے حیات تنگ کر دی جائے گی۔ 



اللّه تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں اس گروہ میں رکھے کہ جو قرآن پڑھ کر ہدایت پاتے ہیں۔
آمین 

Friday, August 14, 2015

ہم مقروض ہیں!

ہم مقروض ہیں اس دیوانے کے 
جس نے پاکستان کا خواب دیکھا

ہم مقروض ہیں اس بچے کے
جس نے اپنی جیب خرچ سے مسلم لیگ کو چندا دیا

ان تمام ماؤں کے جنہوں نے اپنے بچے
اپنے ہاتھوں سے درگور کیئے

ہم مقروض ہیں ان بہنوں، بیٹیوں کے
کہ ہندوستان کے کنوئیں جن کی عصمت کے آج بھی گواہ ہیں

ہم مقروض ہیں ان قافلوں کے
کہ جن میں اپنی روداد سنانے والا کوئی نہیں بچا تھا

ان ڈھائی لاکھ مسلمان لڑکیوں کے مقروض
کہ جو آج ہندؤں اور سکھوں کی مائیں ہیں

ہم مقروض ہیں

ہم مقروض ہیں ان لاکھوں لوگوں کے جنہوں نے 
ہمارے آج کے لئے اپنا کل قربان کیا

ہم مقروض ہیں ان سوا کروڑ مہاجرین کے 
جنہوں نے ہم پر یقین کیا

ہم مقروض ہیں شہیدوں کے لہو کے 
ایک ایک قطرے کے 

ہم مقروض ہیں اپنے قائد کے جنہوں نے
ہماری فلاح کے لئے اپنی صحت برباد کی

ہم مقروض ہیں ان تمام مسلمان بہن بھائیوں کے
جو آج بھی مصیبت کے وقت ہماری طرف دیکھتے ہیں

ہم مقروض ہیں ان شہدا کے جنہوں نے
اس ملک کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کی

ہم مقروض ہی تو ہیں
ہم مقروض ہی تو ہیں

ہم سے پہلے کیا کر گئے 
یہ بحث لا حاصل ہے

سوال یہ ہے کہ ہمیں کیا کرنا ہے
اس قرض کو چکانے کے لئے 

کیونکہ ہم مقروض ہیں!

Friday, May 1, 2015

ہم اور ہماری مزدوریاں


لفظ مَزدُور کا اصل مادہ "مزد" ہے، جس کے معنیٰ اجرت، مزدوری، تنخواہ، صلہ، بدلہ، جزا یا پاداش کے ہیں۔ اصطلاح میں اُجرت پر کام کرنے والے (اَجیر) کو مزدور کہا جاتا ہے، اجیر کو آجر (اجرت پہ کام لینے والا، مالک، آقا) جس کام کے لئے بھرتی کرے، وہ کام طے کردہ مخصوص شرائط کے ساتھ، عرفِ عام میں مزدوری کہلاتا ہے۔ 


فارسی کی کہاوت ہے 


 "مزدور خوش دِل کند کار تبیش" کہ 
اچھی اجرت پر کام کرنے والا مزدور زیادہ کام کرتا ہے۔


گو گزرتے وقت کے ساتھ اس کہاوت کی افادیت برقرار ہے یا نہیں، اس پر کلام کیا جاسکتا ہے بہرحال ہم فارسی کے بارے نرم گوشہ رکھتے ہیں کہ اس کے اردو سے گہرے روابط ہیں۔


مزدور ہونا کوئی بری بات نہیں بلکہ قرآن کریم میں، سورة النجم میں ارشاد باری تعالی ہے کہ 


وان لیس للانسان الا ما سعی (39)
اور یہ کہ انسان نہ پائے گا، مگر اپنی کوشش۔


ہم میں سے اکثر دونوں ہی کردار نبھاتے نظر آتے ہیں، ہم آجر بھی ہیں اور اَجیر بھی۔ بعض کام ہم کسی کو بھرتی کر کے اس سے اُجرت پر کرواتے ہیں اور خود کی گزر اوقات کے لئے ہم کسی دوسرے کے کام کو بطور ملازمت اختیار کیئے ہوئے ہیں۔


آج ہمیں خود کے حقوق تو بہت یاد ہیں لیکن فرائض، اگر یاد ہیں بھی تو ہم انہیں پسِ پشت ڈالے بیٹھے ہیں۔ حلال کی کمائی میں حرام کی آمیزش کرنے والے یہ "مزدور" کیوں نہیں سوچتے کہ دودھ میں ایک چھینٹ حرام کی پڑھ جائے تو سارا ہی ناپاک ہو جاتا ہے۔ یہ کیوں نہیں سوچتے کہ کام کے دوران وقت برباد کرنا درحقیقت خود کو برباد کرنا ہے۔ یہ کیوں نہیں سوچتے کہ کسی کے کام میں روڑے اٹکانے سے خود کے کام کبھی پایہء تکمیل تک نہیں پہنچا کرتے۔ یہ کیوں نہیں سوچتے کہ یہ دنیا مکافاتِ عمل ہے اور وقت کا پہیہ بہت جلد انہیں اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔


یہ مزدور صرف غریب آدمی نہیں کہ جو مستری ہے تو اپنے گھر کی دیوار اور ڈھنگ سے بنائے اور کسی کی دیوار اور طریقے سے، یہ ہم سب ہیں۔ 


سوشل میڈیا استعمال کرنے والے افراد کی ایک تعداد ہے کہ جو نوکری پیشہ ہے اور دورانِ کام سوشل میڈیا پر نظر آتے ہیں، اگر تو نوکری کی شرائط میں وقت ایک شرط ہے تو جو وقت سوشل میڈیا کو دیا اس وقت کی تنخواہ کس طرح سے جائز ٹھہری؟ یہ تو پڑھے لکھے لوگ ہیں، یہ تو ایک "بیدار معاشرے" کی ضمانت ہیں، کیا یہ اپنے فرائض سے آگاہ ہیں؟ 

کیا ہم نے کبھی یہ جاننے کی کوشش کی کہ ایک مزدور کی حیثیت سے ہمارے فرائض کیا ہیں؟ کیا ہم نے کبھی یہ جاننے کی کوشش کی کہ جو علوم بحیثیتِ مسلم ہم پر فرض ہیں، وہ درحقیقیت ہیں کیا؟ بطورِ مسلمان، عقائدِ اسلامیہ کو جان لینے کے بعد، ہم پر فرض ہے کہ ہم سیکھیں کہ کیا ہمارے معاملات دین کے تقاضوں کے مطابق ہیں؟ اور رزقِ حلال کو، حسبِ حلال کو بنیادی اہمیت اس لیے بھی حاصل ہے کہ اس کے بغیر کوئی عبادت قبول نہیں۔ (مفہوم حدیث نبوی ، مسندِ احمد)

کسبِ حلال کی تگ و دو میں سب سے پہلا فرض ہم پر یہ ہے کہ اپنی بَشری استعداد کے مطابق اپنے فرائض منصبی کو بجا لانا۔ استاد سے لے کر چپڑاسی تک اور مینجر سے لے کر کلرک تک، سب کا اپنے عہدے کی مقصدیت سے آگاہ ہونا لازم ہے، اسے اہم جاننا اور اپنی تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لے آنا لازم ہے۔ اسی ضمن میں ذاتی اغراض و مقاصد کو منصبی تقاضوں کے ماتحت رکھنا بھی شامل ہے۔

دوسرا فرض یہ ہے کہ اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال نہ کیا جائے۔ ہمارے تمام اختیارات، وہ تمام چیزیں کہ جن پر کسی ماحول میں رہتے ہوئے ہم قادر ہیں، ہمارے پاس اولاً اس شخص، اس ادارے کی امانت ہیں کہ جس نے ہمیں طے کردہ اجرت پر اس کام پر مقرر کیا اور پھر ہماری عقل، ذہانت اور قوت مالک حقیقی کی امانتیں ہیں اور بدترین خائن وہ ہے کہ جو مالک (حقیقی و مجازی) کی امانت میں خیانت کرے۔

ادارے کا کام افراد کی ہمہ جہت محنت و یکسوئی کی بدولت ہی پایہء تکیمل تک پہنچتا ہے لہٰذا یہ بھی فرائض میں شامل ہے کہ اپنی تمام تر کاوشوں سے ماحول اس حد تک سازگار بنایا جائے کہ تمام باہنر افراد اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھا سکیں۔ اور یہ تب ہی ممکن ہوسکتا ہے کہ جب تمام افراد (ملازمین) ذاتی انا و رنجش کو بالائے طاق رکھ کر باہمی مقاصد کے حصول کے لئے کوشاں رہیں۔

یہ چند معروضات دیکھنے میں مشکل تو لگ سکتیں ہیں کیونکہ ہم (میں سے اکثر) ان چیزوں کے عادی نہیں لیکن ناممکن نہیں۔ بہترین اصلاح وہ ہے کہ جو خود سے شروع کی جائے۔ ہم معاشرے میں سب کچھ ٹھیک نہیں کرسکتے اور ہم اس کے مکلف بھی نہیں، ہاں ہم اپنی ذات کو ایک ضابطے میں ڈھال سکتے ہیں اور ہم سے اُسی کے بارے میں پوچھا جائے گا۔


ہاں آج بھی مزدور کے حقوق کا استحصال ہو رہا ہے، ہاں آج بھی وہ پس رہا ہے، ہاں آج بھی ظالم موجود ہے جو خون نچوڑ رہا ہے لیکن کیا ہم ٹھیک ہیں؟ کیا ہم اپنے فرائض منصبی بہ حسن و خوبی ادا کر رہے ہیں؟ شاید نہیں، یہاں آوے کا آوا بگڑا ہوا نظر آتا ہے، جدھر نظر ڈالو ہر بندہ دوسرے کو موردِ الزام ٹھہرائے گا اور خود کی اصلاح محض لفاظی تک۔

ہم سب کچھ ٹھیک نہیں کرسکتے، جو ٹھیک کرسکتے ہیں، اس کی ابتداء خود ہماری ذات سے ہوتی ہے اور تاخیر کے ہم متحمل نہیں ہوسکتے۔ آئیے میں بھی اور ہم سب خود اپنے آپ سے ابتداء کریں۔


اس ضمن میں مشکوة شریف، کتاب الامارة و القضاء کی ایک حدیث شریف (رقم 3552) پر اختتام کر رہا ہوں۔ 


حضرت ابو درداء رضی اللّه تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ رسول اللّه نے ارشاد فرمایا۔ اللّه تعالیٰ فرماتے ہیں



میں اللّه ہوں، میرے سوا کوئی معبود نہیں، میں بادشاہوں (حکمرانوں) کا مالک ہوں اور بادشاہوں کا بادشاہ ہوں۔ بادشاہوں کے دل میرے قبضے میں ہیں۔ جب بندے میری اطاعت کرتے ہیں، میں ان پر بادشاہوں کے دل رحمت اور نرمی کے ساتھ پھیر دیتا ہوں اور بندے جس وقت میری نافرمانی کرتے ہیں میں ان (حکمرانوں) کے دل خفگی اور عذاب کے ساتھ پھیر دیتا ہوں۔ اور وہ (حکمران) ان کو برا عذاب پہنچاتے ہیں۔ تم اپنے نفسوں کو بادشاہوں کے لئے بد دعا کرنے میں مشغول نہ رکھو بلکہ (میرے) ذکر اور عاجزی میں اپنے نفسوں کو مشغول کرو تاکہ میں تم کو بادشاہوں کے شر سے کفایت کروں۔

Sunday, March 29, 2015

پہلا محاذ

کوئی کب ھارتا ہے؟
جب وہ ھمت کرنا چھوڑ دیتا ہے۔

ھمت کرنا کیوں چھوڑ دیتا ہے؟
کیونکہ اسے کوئی روشنی کی کرن نظر نہیں آتی۔

روشنی کیوں نظر نہیں آتی؟
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

انسان کبھی بھی مکمل، کامل اور اکمل نہیں ھوسکتا، بہتری ایک مستقل سفر ہے اور کامیاب انسان وہی ہے کہ جو خوب سے خوب تر کی تلاش میں رہے۔ ہر انسان، ہر فن و خوبی کے لائق نہیں اور نہ ہی اُس کا متحمل ہوسکتا ہے۔ قدرت نے اپنے ازلی فیصلے سے انسان کی تقدیر کو کہیں متعین اور کہیں معلق رکھا ہے۔ انسان اپنے سفر میں جوں جوں آگے بڑھتا ہے، سفر کی تمازتیں اس کا حوصلہ بڑھاتی ہیں، راستے کی رکاوٹیں اس کے عزم کو للکارتیں ہیں اور زمانے کے جور و ستم اس کے لئے تجدیدِ عہد کا کام دیتے ہیں۔ لیکن یہ تبھی ممکن ہے کہ جب نظر خوب سے خوب پر رہے، کہ جب "پہلے محاذ" پر انسان سرخرو رہے۔ 


 یہ تو طے ہوچکا کہ زندگی کے سفر میں حسن و خوبی کی جستجو ایک بحرِ بیکراں ہے لیکن اس جستجو کی ابتداء کہاں سے ہوتی ہے؟

مثال چیونٹی سے سمجھیئے:

جب تک زندہ رہے گی، اپنی مطلوبہ سمت کا درست تعین رکھے گی،

اپنے حدف کو پاکر رہے گی چاہے اسے جتنی مرتبہ ناکامی کا منہ کیوں نہ دیکھنا 
پڑے،

اپنی حیثیت کو پہچان کر، اپنی استطاعت کے مطابق، اپنے حصے کا کام ضرور سر انجام دے گی۔ 

ھم تو انسان ہیں، اشرف المخلوقات ہیں، کوئی ہماری سمت بھی تو ہوگی۔
کوئی ھمارا حدف بھی تو ہوگا۔


کیا ہم اپنی حیثیت کو پہچانتے ہیں؟
کیا ہم اپنی استطاعت کے مطابق، اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا رہے ہیں؟
کیا ہم اپنے اپنے حصے کا کام کر رہے ہیں؟


ہم اشرف کہلانے کے مستحق تو تبھی ہیں کہ جب ہم اپنے ذمے واجب الادا تمام تر فرائض کو بہ حسن و خوبی ادا کریں۔ مثال محض سمجھانے کے لئے پیش کی کہ اپنی حیثیت کا تعارف ہوسکے۔ 

بقول علامہ محمد اقبال

خودی کی یہ ہے منزل اولیں
مسافر یہ تیرا نشیمن نہیں

تری آگ اس خاکداں سے نہیں
جہاں تجھ سے تو جہاں سے نہیں

"فالھمھا فجورھا و تقوھا"


جب ہم صحیح و غلط، خوف و امید کے درمیان ڈولتے ہوئے خود پر بھروسہ کرتے ہیں اور اپنے ڈر کو اپنے ہی اندر ختم کرتے ہیں، اپنے ہر وسوسے، ہر سوال کا جواب خود تلاش کرتے ہیں، ہر باریکی، ہر فائدے، ہر نقصان کو اچھی طرح سے جان لینے کے بعد ان کے لئے مناسب تدابیر اختیار کرتے ہیں، تب، تب وہ موقع ہوتا ہے کہ ھم اپنے پہلے محاذ پر ہوتے ہیں۔

پہلا محاذ وہ محاذ کہ جو باقی ہر محاذ پر بھاری ہے، اس محاذ پر پہرہ دینے والا کبھی زمانے کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکتا۔ 

جو لوگ زندگی کے سفر میں مشکلات کا شکار ہیں، وہ نظر دوڑائیں اپنے پہلے محاذ پر، کمک پہنچائیں۔ کہیں کوئی تنہا سپاہی ان کی مدد کا منتظر ہے۔ 





Sunday, March 15, 2015

بے موسمی بارشیں

پھر کہتے ہو بے موسمی بارشیں کیوں ہوتی ہیں
تیار کھڑی فصلیں تباہ و برباد کیوں ہوتی ہیں
پھر کہتے ہو مقدر کیوں خزائیں ہیں
ذرا سوچو تو خود کی کتنی خطائیں ہیں؟

کبھی زندہ انسانوں کو تم جلاتے ہو
کبھی تم خون سے اِن کے اپنی ہتھیلی سجاتے ہو
کبھی ظالم کو تم پناہیں دیتے ہو
کبھی انہیں تم تحتِ شاہی دیتے ہو

نہ حوّا کی  بیٹی محفوظ ہے تم سے
نہ کوئی غریب سُکھی ہے تم سے
ٹوٹی ہے آس بیواؤں کی
ہیں کتنی ہی آہیں افسردہ ماؤں کی

سنو! ایک دن پیش ہونا ہے
کیسی تیاری ہے؟
ہاں تم نے تو ایک لمبی عمر گزاری ہے
بولو! کیسی تیاری ہے؟

وہ مالک ہے رؤف اور رحیم بھی
وہ ستار ہے، غفار اور کریم بھی
ھاں سنا ٹھیک ہے تم نے
مگر، تمہاری کیسی تیاری ہے؟

ہمیں بھی ایک روز مٹی ہونا ہے
مٹی ہو کر اسی مٹی میں کھونا ہے
گو تاخیر کافی کرچکے لیکن
دروازہ کھلا ہے اب بھی

پڑھا ہے اور بزرگوں سے سنا ہے
کہ پہلے بستیاں الٹتیں، سنگسار ہوتیں تھیں
کہیں پتھر، کہیں شرارے برستے تھے
ہاں اب بے موسمی بارشیں ہی ہوتی ہیں۔