Sunday, March 15, 2015

بے موسمی بارشیں

پھر کہتے ہو بے موسمی بارشیں کیوں ہوتی ہیں
تیار کھڑی فصلیں تباہ و برباد کیوں ہوتی ہیں
پھر کہتے ہو مقدر کیوں خزائیں ہیں
ذرا سوچو تو خود کی کتنی خطائیں ہیں؟

کبھی زندہ انسانوں کو تم جلاتے ہو
کبھی تم خون سے اِن کے اپنی ہتھیلی سجاتے ہو
کبھی ظالم کو تم پناہیں دیتے ہو
کبھی انہیں تم تحتِ شاہی دیتے ہو

نہ حوّا کی  بیٹی محفوظ ہے تم سے
نہ کوئی غریب سُکھی ہے تم سے
ٹوٹی ہے آس بیواؤں کی
ہیں کتنی ہی آہیں افسردہ ماؤں کی

سنو! ایک دن پیش ہونا ہے
کیسی تیاری ہے؟
ہاں تم نے تو ایک لمبی عمر گزاری ہے
بولو! کیسی تیاری ہے؟

وہ مالک ہے رؤف اور رحیم بھی
وہ ستار ہے، غفار اور کریم بھی
ھاں سنا ٹھیک ہے تم نے
مگر، تمہاری کیسی تیاری ہے؟

ہمیں بھی ایک روز مٹی ہونا ہے
مٹی ہو کر اسی مٹی میں کھونا ہے
گو تاخیر کافی کرچکے لیکن
دروازہ کھلا ہے اب بھی

پڑھا ہے اور بزرگوں سے سنا ہے
کہ پہلے بستیاں الٹتیں، سنگسار ہوتیں تھیں
کہیں پتھر، کہیں شرارے برستے تھے
ہاں اب بے موسمی بارشیں ہی ہوتی ہیں۔

No comments:

Post a Comment