تاریخ نے بہت سی عظیم ہستیوں کے ساتھ انصاف اس
طرح نہیں کیا کہ ان کی خدمات، چاہے وہ علمی و ادبی ہوں یا فنی و دیگر، کو خراجِ
تحسین پیش کرنے میں لیت و لعل سے کام لیا۔ خصوصاً جب معاملہ دینی شخصیات کا ہو تو
پیچیدگی یوں بھی بڑھ جاتی ہے کہ اس شخصیت کے لئے آواز اٹھانا محض ان سے منسلک
افراد کا ہی ذمہ رہ جاتا ہے۔ مولانا احمد رضا خان فاضل بریلوی دامت برکاتھم قدسیہ
بھی انہی شخصیات میں سے ہیں کہ جن کا کلام تو زبان زدِ عام ہے ہی لیکن آپ کی شخصیت
سے عوام و خواص کی اکثریت ناواقف ہے۔
آپ کی ولادت باسعادت 10 شوال المکرم 1272 ھجری
بمطابق 14 جون 1856 سنِ عیسوی کو بریلی (یو-پی، بھارت) میں ہوئی۔ آپ کے والد ماجد
مولانا نقی احمد خان رحمتہ اللّه تعالیٰ علیہ (متوفی 1297 ھجری) اور جد امجد
مولانا رضا علی خان رحمتہ اللّه تعالیٰ علیہ (متوفی 1282 ھجری) عالم دین اور صاحبِ
تصنیف بزرگ تھے۔ آپ کا نام "محمد" رکھا گیا اور تاریخی نام المختار
تجویز کیا گیا جبکہ بعد میں آپ کے جدِ امجد نے "احمد رضا" نام رکھا اور
خود فاضلِ بریلوی رحمتہ اللّه تعالیٰ علیہ نے اپنے نام میں "عبد
المصطفیٰ" کا اضافہ فرمایا۔ آپ نسباً پٹھان، مسلکاً حنفی اور مشرباً قادری
تھے۔
تعلیمی قابلیت:
آپ نے ابتدائی علوم اپنے والدِ ماجد سے حاصل
کیے۔ آپ کی علمی لیاقت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آپ نے دین کے
بنیادی علوم تیرہ سال اور چند ماہ کی عمر میں حاصل کر لئے اور محض چودہ سال کی عمر
میں "مسئلہ رضاعت" پر فتویٰ صادر فرما کر فتویٰ نویسی کا آغاز فرمایا۔ آپ
کی دینی علوم پر دسترس اور معاملہ فہمی دیکھتے ہوئے آپ کے والدِ ماجد نے بریلی کی مسند
آپ کو عنایت فرمائی اور پھر وقت نے ثابت کیا کہ آپ واقعی اس مسند کے اھل تھے۔
آپ نے شاہ آلِ رسول، شیخ احمد بن زینی دحلان
مکی، شیخ عبد الرحمٰن مکی، شیخ حسین بن صالح مکی، شیخ ابو الحسین احمد النوری
رحمتہ اللّه تعالیٰ علیھم اجمعین سے استفادہ کیا اور دس علوم حاصل کیے:
قراة، تجوید، تصوف، سلوک، اخلاق، اسماء الرجال،
سیر، تاریخ، نعت، ادب۔
جبکہ 14 علوم اپ نے ذاتی مطالعے اور بصیرت سے
حاصل کیئے:
ارثما طیقی، جبر و مقابلہ، حساب سینی، لوگازعات،
توقیت، مناظر و مرایا، اکر، زیجات، مثلث کروی، مثلث سطح، ہیاة جریدہ، مربعات، جفر،
زائرچہ۔
عشق رسول اور احترامِ سادات:
جو شخص "اعلیٰ حضرت" سے کسی بھی حد تک
واقف ہے وہ یہ تو ضرور جانتا ہوگا کہ آپ کی ساری شاعری قرآن کا ترجمہ، احادیث اور سیرتِ رسول ﷺ کا نچوڑ ہے۔ آپ کا ہر شعر یا تو نعتِ رسول ہے یا شانِ رسالت پر تنقیص کرنے والوں
کے سینے میں تیر۔ کہیں "سب سے اولیٰ و اعلیٰ ہمارا نبی ﷺ"
ہے تو کہیں "سرور کہوں کہ مالک و مولیٰ کہوں تجھے"، کہیں آپ حشر میں
حضور ﷺ کی شان بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ "عرشِ حق ہے مسندِ رفعت رسول
اللّه کی" تو کہیں رسول اللّه ﷺ کی شفاعت پر نظر رکھتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
"سنتے ہیں کہ محشر میں صرف انکی رسائی ہے" تو کہیں اعداء کے لئے فرماتے
ہیں کہ "دشمانِ احمد پہ شدت کیجیئے"۔
دوسری طرف نسبت رسول ﷺ کا
اتنا پاس کہ آپ کی مجلس کا یہ دستور تھا کہ کوئی تحفہ یا
نیاز وغیرہ پیش کی جاتی تو ساداتِ کرام اور باریش افراد کو باقی احباب سے دوگنا
دیا جاتا۔ حضور ﷺ کی آل سے عقیدت کے یوں تو کئی واقعات ہیں لیکن مختصراً ایک واقعہ پر ہی اکتفا کر رہا ہوں، ایک مرتبہ آپ اپنے تلامزہ کو درس فرما رہے تھے کہ دورانِ درس کھڑے
ہوگئے، پھر کچھ دیر بعد بیٹھ گئے۔ یہ معاملہ متعدد مرتبہ دہرایا گیا تو شاگردوں نے
پوچھا کہ حضور آپ نے ایسا کیوں کیا تو آپ نے فرمایا کہ پڑوس میں ایک سید زادہ ہے
وہ کھیلتے کھیلتے ہمارے سامنے (مدرسے کے دروزاے کے باہر) سے گزرا تو ہم ادب سے
کھڑے ہوگئے۔
نعت گوئی اور اعلیٰ حضرت:
اعلیٰ حضرت نعتیہ شاعری کے بارے میں اپنے
ملفوظات میں فرماتے ہیں:
"حقیقتاً نعت شریف لکھنا نہایت مشکل ہے جس
کو لوگ آسان سمجھتے ہیں، اس میں تلوار کی دھار پر چلنا ہے، اگر بڑھتا ہے تو الوہیت
میں پہنچ جاتا ہے اور کمی کرتا ہے تو تنقیخ (یعنی شان میں کمی و گستاخی) ہوتی ہے،
البتہ "حمد" آسان ہے کہ اس میں راستہ صاف ہے جتنا چاہے بڑھ سکتا ہے۔ غرض
"حمد" میں ایک جانب اصلاً حد نہیں اور "نعت شریف" میں دونوں
جانب سخت حد بندی ہے۔
(ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت، صفحہ 228، مکتبة المدینہ)
بہت نامور شعراء بھی میدانِ شاعری میں شریعت کا
پاس نہ رکھ سکے اور لغزشیں کرتے چلے گئے۔ بعض کا تو یہ ماننا ہے کہ شاعری میں
شریعت کا پاس رکھنا ممکن ہی نہیں، ایسے نظریہ رکھنے والوں کے لئے ہی امامِ عاشقاں
فرماتے ہیں:
جو کہے شعر و پاسِ شرع دونوں کیوں کر آئے
لا اسے پیشِ جلوہ زمزمۂ رضا کہ یوں
آپ رحمتہ اللّه تعالیٰ علیہ کی شاعری کو ایک طرف
رکھیں اور غالب و اقبال کی شاعری ایک طرف رکھیں تو کسی بھی طور آپ کی شاعری اپنا
الگ ہی روپ پیش کرے گی اور اس کی زندہ مثال آپ کا لکھا گیا سلام ہے، "مصطفیٰ
جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام" اس سلام کے 171 اشعار ہیں اور کمال یہ ہے کہ پہلا
اور آخری مصرع ایک ہی ہے۔ ایک اور کارنامہ یہ ہے آپ کی شاعری کا کہ ایک ہی نعت چار
زبانوں میں تحریر فرمائی ہے، "لم یات نظیرك فی نظر" اور ایسی مظبوط گرفت
کے ربط ٹوٹننے نہیں پاتا۔ کہیں کوئی "نور کا قصیدہ" ہے تو کہیں
"قصیدۂ معراج" اور کہیں کوئی ایسی نعت کہ جس میں ہونٹ آپس میں نہیں
ملتے۔ الغرض آپ کی شاعری اردو شاعری کا ایک انمول خزانہ ہے جسے عشق رسول ﷺ کی شمع نے فروزاں کیا اور ان شاء اللّه یہ تاقیامت روشن رہے گی۔
کنز الایمان:
اعلیٰ حضرت نے قرآنِ پاک کا ترجمہ بھی فرمایا، کنز الایمان اور ایسے بے مثال ترجمہ کہ جو اپنے آپ میں تفسیر بھی ہے اور عقائد کے حوالے سے ایک
روشن چراغ بھی۔ آپ کے دور میں جو قرآن کے ترجمے کئے گئے ان میں بے شمار لغزشیں
پائی جاتی ہیں، کچھ گمراہی میں بھٹک گئے اور کچھ کفر کے اندھیروں میں جا گرے۔
مندرجہ ذیل تقابلی مطالعے سے اس حقیقت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے:
1۔ اللّه ان سے ٹھٹھہ کرتا ہے۔ (سر سید احمد
خان، تفسیر قرآن، بقرہ/خطوط 15)
اللّه ان سے استہزا فرماتا ہے۔ (کنز الایمان)
2۔ اللّه اپنا داؤ کر رہا تھا۔ (ترجمہ مولوی
نذیر احمد دہلوی، انفال 30)
اور اللّه اپنی خفیہ تدبیر فرماتا تھا۔ (کنز
الایمان)
3۔ اور آدم سے اپنے رب کا قصور ہوگیا، تو غلطی
میں پڑگئے۔ (مولوی اشرف علی، بیان القران، طہ 22)
اور آدم سے اپنے رب کے حکم میں لغزش واقع ہوئی
تو جب مطلب چاہا اس کی راہ نہ پائی۔ (کنز الایمان)
4۔ اور پایا تجھ کو بھٹکتا پھر راہ سمجھائی۔
(مولوی محمود حسن، ترجمہ قرآن، ضحیٰ)
اور تمہیں اپنی محبت میں خود رفتہ پایا، تو اپنی
طرف راہ دی۔ (کنز الایمان)
ان چند ایک مثالوں میں عقائد کی باریکیاں ہیں
اور ان کے خلاف عقیدہ رکھنے سے بندہ دائرہ سے خارج بھی ہوسکتا ہے، آپ کے ترجمے کا
یہ اعزاز ہے کہ اس میں علم الکلام کی لطافتوں کو بھی ملحوظ رکھا۔
تصنیفاتِ اعلیٰ حضرت:
علوم و فنون سے فراغت کے بعد تصنیف و تالیف، درس
و تدریس اور فتویٰ نویسی میں مشغول ہوگئے۔ تقریباً 50 علوم و فنون میں ہزار سے
زائد کب و رسائل آپ کی یادگار ہیں۔ آپ کی چند نامور کتابوں میں فتویٰ رضویہ (تیس
جلدوں میں)، بہارِ شریعت، حدائقِ بخشش اور الدولة المکیه ہیں۔ کچھ کتب آپ نے محض
چند گھنٹوں میں یادداشت کی بنا پر مکہ و مدینہ میں ترتیب دیں جب کہ اصل عربی کتب
ہند میں تھیں۔
"اعداء سے کہہ دو کہ خیر منائیں"
آپ کے مزاج میں شدت بہت تھی اور اسی طرف اشارہ
کرتے ہوئے اقبال علیہ الرحمہ نے فرمایا تھا کہ اگر امام احمد رضا خان میں یہ شدت
نہ ہوتی تو وہ اس دور کے ابو حنیفہ ہوتے (مقالات یوم رضا، جلد 3) مزید فرمایا کہ
ہندوسان کے اس دور متاخرین میں ان جیسا طباع اور ذہین فقیہ مشکل سے ملے گا۔
شدت عشق کا خاصا ہے جب کوئی محبوب پر تنقید کرے،
اس کے علم کو تولے، اس کی شان پر انگلی اٹھائے تو پھر اس کا رد بھی اسی شدت سے
دینا عاشق پر واجب ہے اور یہ بات آپ کے مخالفین نے بھی تسلیم کی ہے کہ آپ نے جو
فتویٰ جات جاری فرمائے وہ عشق میں کمال کے باعث اور اگر ایسا نہ کرتے تو خود ان کی
زد میں آ جاتے۔
کلک رضا ہے خونخار، برقبار
اعداء سے کہہ دو کہ خیر منائیں، نہ شر کریں
شبہ کا ازالہ:
کچھ لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ امام احمد رضا خان
رحمتہ اللّه تعالیٰ علیہ نے ایک نئے فرقے کی بنیاد رکھی یعنی بریلوی جو کہ درست
نہیں۔ آپ مجدد دین و ملت ہیں یعنی کہ آپ کے دور میں دین کی شکل مسخ کرنے کی کوشش
جاری تھی آپ نے اسے اس طریق پر جاری کیا کہ جو سابقہ 1300 سال سے رائج اور مسمم
ہے۔ اور یہ بات احادیث سے ثابت ہے کہ ایک صدی میں ایک مجدد ہوگا کہ جو دین کے چہرے
سے دھول صاف کرے گا اور دین کا اصل چہرہ یونہی قیامت تک برقرار رہے گا۔ ایسا باطل
دعویٰ کرنے والوں سے میرا دین کے ادنیٰ طالب علم ہونے کے حوالے سے ایک سوال ہے کہ
اعلیٰ حضرتِ امام اہلسنت کی تحاریر و تصانیف سے کوئی ایک ایسی بات نکال کر دکھا
دیں کہ جو سابقہ امت کے طریق کے برخلاف ہو، ان شاء اللّه ایسی کوئی چیز نہیں ملے
گی کیونکہ آپ دین کے سچے خادم ہیں، اسی لئے خدا نے آپ کا نام آج 97 برس گزر جانے
کے بعد بھی باقی رکھا ہے۔
آپ کا وصال 25 صفر، 1240 ھجری کو بوقت نماز جمعہ
3 بج کر 38 منٹ پر وصال فرمایا۔ اللّه آپ کی لحد پر کروڑوں رحمتوں کا نزول فرمائے۔
آمین
یہی کہتی ہے بلبل باغ جناں کہ رضا کی طرح کوئی سحر بیاں
نہیں ہند میں واصف شاہ ہدیٰ مجھے شوخ طبع رضا کی قسم
نہیں ہند میں واصف شاہ ہدیٰ مجھے شوخ طبع رضا کی قسم
No comments:
Post a Comment