ایک بی بی کہنے لگیں:
"عثمان! اس بچے کو دم کرنا ذرا، بہت تنگ کرتا ہے"
ہم بھی گویا ہوئے
"بچے کو بعد میں پہلے بچے کی ماں کو دم کرنا بنتا ہے"
بات کڑوی تھی اور انداز معنی خیر، اسی لا ابالی اور غیر محتاط طرز زندگی نے ہمارا جینا اجیرن کر رکھا ہے۔ ہم کسی ایسے ہی کرشمے کے منتظر ہوتے ہیں کہ جو بغیر محنت کے ہمیں بھی سنوار جائے اور ہماری بگڑی بھی سنوار جائے۔ کرشمے کا انتظار کتنا مفید ہے اور کتنا مضر اس پر بحث سے قطع نظر، یہ بات تو طے ہے کہ ہم بحیثیتِ قوم دورانِ انتظارِ کرشمہ خود کچھ بھی کرنے سے گریز ہی کرتے ہیں۔ اور ہماری مجموعی صورتحال اس بات کی شاہد ہے۔ بچے کی تربیت کے نازک معاملے کے حوالے سے بھی آج کے والدین شاید اسی کرشمے کے منتظر ہوتے ہیں کہ خود ہی صاحبِ کرامت ہو جائیں اور کسی ریاضت سے نہ ہی گزرنا پڑے۔
جو بچہ ماں باپ کی موجودگی میں زیادہ بدتمیز، زیادہ ضدی اور زیادہ بڑبولا ہو جائے، اس کی تربیت بعد میں اس کے والدین کی تربیت پہلے کرنا بنتی ہے۔ اور تربیت ہی کی تو ضرورت ہے اور اسی کا تو شدید فقدان۔ جس معاشرے میں ماؤں کی تربیت ٹی ڈرامے اور فلمیں کریں، اس معاشرے میں بچے کی تربیت کارٹون ہی کیا کرتے ہیں۔ اور جس معاشرے میں بچے سے اپنا موبائیل فون واپس لینے کے لئے والدین کو سو سو جتن کرنے پڑیں اس میں بچے سے اپنے حقوق لینے کے لئے والدین کو کیا کیا جتن کرنے پڑیں گے، اس بات کا اندازہ کرنا قطعاً دشوار نہیں۔
ہم اپنے بچوں کی تربیت کا حق ادا کر سکیں گے کہ نہیں، یہ سوال اہم سہی لیکن زیادہ اہم یہ ہے کہ ہمارے والدین نے ہماری پرورش کا حق بہ حُسن و خوبی ادا کیا ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ جب کھلایا سونے کا نوالہ جاتا تھا اور دیکھا شیر کی آنکھ سے جاتا تھا۔ آج کھلایا بھی زہر جا رہا ہے ۔ ۔ ۔ جی ہاں نوے فی صد سے زائد ڈبے کے دودھ مضر صحت قرار دیئے جا چکے ہیں اور مائیں اپنا دودھ پلانے سے تو اب باغی ہو ہی چُکی ہیں۔ جب بچے کی رگوں میں ڈبے کا دودھ دوڑ رہا ہے تو وفا پھر ماں سے کیسے کرے گا؟ رہ گئی بات شیر کی آنکھ سے دیکھنے کی تو یہ تو اب حسرت ہی ہوگی اگر کسی کے سینے میں ہو بھی تو۔ جب بچے کی ضد پر اس کی ہر جائز نا جائز ضد پوری ہو تو یہ اس کے حق میں زہرِ قاتل ہے، جی ہاں زہرِ قاتل۔
قرب قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بھی ہے کہ عورت اپنے آقا کو جنم دے گی یعنی بچے اپنے والدین پر اپنا حکم چلائیں گے اور آج وہ زمانہ ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ پہلے یہ ذہن آیا کہ بچے کو اتنا اختیار دیا جائے کہ وہ اپنے فیصلے کرنے میں خود مختار ہو۔ ہم اصولی طور پر اس مؤقف کے خلاف نہیں لیکن اس سطح پر آنے میں بچے کو ایک عمر لگتی ہے کہ وہ اپنے اچھے برے کو جان کر بادی النظر میں ایک قابلِ عمل فیصلہ کر سکے۔ جب بنیاد فراہم ہی نہ کی اور اخیتار دے دینا ایسا ہی ہے کہ نا تجربہ کار کے ہاتھ میں ہتھیار تھما دینا۔ یہ وبال کم تھا کیا جو مزید یہ خرابی بھی آگئی کہ بچوں سے ہر چھوٹے بڑے معاملے میں مشورے لئے جانے لگے۔ جی ہاں یہ اسی کا شاخسانہ ہے کہ بڑے بھی جذبات سے مغلوب ہو کر اور حقائق سے انجان بن کر بے ڈھنگے فیصلے کرتے نظر آتے ہیں۔ اور پھر برا سے منہ بنا کر کہتے ہیں، "بچے نہیں مانتے"۔
اس حوالے سے آخری بات یہ کہنے کی جسارت کر رہا ہوں کہ والدین مادی اسباب مہیا کر کے خود کو اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش سمجھتے ہیں حالانکہ یہ خود کی آنکھوں میں دھول جھونکے کے مترادف ہے۔ اور کچھ نہیں تو آج کل سکول کالج میں ہونے والے واقعات کی فہرست نکال کر دیکھ لیں۔ کہیں کوئی ساتویں کلاس کے بچے محبت کے نام پر خود کشی کر رہے ہیں تو کہیں سات سال کا بچہ اپنی میڈم کی محبت میں جان دے رہا ہے۔ کہیں کوئی گھر کی دہلیز کو پار کر کے اپنی عزت کو داؤ پر لگا رہا ہے اور کہیں کوئی پھندا گلے میں ڈال رہا ہے۔ کیا ان سب کے والدین نے ان کو ظاہری اسباب فراہم نہ کیئے تھے؟ ان سب اسباب کی شاید کمی نہ تھی، کمی تربیت کی تھی۔ میں اور آپ اس بات کی تسلی کر لیں کہ ہمارے بچے کس حد تک "محفوظ" ہیں۔ اور سب سے اہم یہ کہ شریعت کا کتنا پاس ہے۔ اللّه ہمیں ہمارے والدین کے لئے صدقۂ جاریہ اور ہماری اولاد کو ہمارے لئے صدقۂ جاریہ بنائے۔ آمین
No comments:
Post a Comment