Friday, January 20, 2017

ہم پھپھو کہیں جسے

کہنے والے کہتے ہیں کہ اگر آپ اپنی خالہ کے حق میں اور پھپھو کے خلاف ہیں تو جان لیں کہ آپ کی والدہ کامیاب رہیں۔ بعض تجربہ کار اس بارے یہ بھی کہتے سنے گئے کہ ہر خاندانی مشہور کہانی کے دو رخ ہوتے ہیں: ننھیال کا مؤقف اور دوسرا ددھیال کا مؤقف جبکہ عام حالات میں درست تیسرا ہی ہوتا ہے۔ مؤقف کی بات ہو ہی رہی ہے تو یاد ہے کہ خاندان میں درست مؤقف اسی کا ہوتا ہے جو سامنے بیٹھا ہو، بات سادہ ہے لیکن اگر پلے سے باندھ لیں گے تو فائدے میں رہیں گے۔

بد اچھا بدنام برا، کچھ ایسا ہی حال آج کے زمانے میں پھپھو کا بھی ہے۔ میرا دوست "عین" کہتا ہے کہ پھپھو اتنی بری بھی نہیں ہوتی جتنا "فیس بک" پہ مشہور ہے۔ یہ رائے بہرحال "عین" کی ہے جبکہ ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں رشتہ دار، بشمول پھپھو، اتنے اچھے بھی نہیں ہوتے جتنے دور سے دیکھنے میں لگتے ہیں۔ ہیٹر اور رشتہ داروں کے بارے ہمارا یہی "مشاہدہ" ہے کہ کچھ فاصلے پر ہوں تو ساتھ پائیدار رہتا ہے۔ قربت زیادہ ہو تو بندہ جلد ہی ہاتھ مَلنا شروع کر دیتا ہے۔ 

پھپھو کے فائدے بھی بے حساب ہیں جن میں سے اولین تو یہی ہے کہ ان کے بچوں کی وجہ سے آپ کے رزلٹ اچھے آتے رہتے ہیں، ہمیشہ موازنہ جو ہوتا رہتا ہے۔ مزید یہ ہے کہ پھپھو کے طعنے سن کر جو آپ کا خون جلتا ہے اس پر صبر کرنے سے اگلے جہاں میں جزا کی امید ہوتی ہے۔ دوسرا کوئی فائدہ تاحال ذہن میں نہیں آسکا لیکن اس کا یہ مطلب قطعاً مت لیا جائے کہ پھپھو کی فائدے کم ہوتے ہیں بلکہ ہماری ناتجربہ کاری شمار کیا جاوے۔

پھپھو ایک کیفیت کا نام ہے جو کہ کسی پر بھی کبھی بھی وارد ہو سکتی ہے۔ جب آپ کی زوجہ محترمہ آپ پر شکایتوں کی تلوار تان لیں تو جان لیں کہ وہ "حالتِ پھپھو" میں ہیں۔ اور جب آپ ان کا جواب دینے کی سعی کریں تو پھر یقیناً آپ ان سے متاثر ہو چکے ہیں۔ اس کیفیت کے طاری ہونے پر تاحال تحقیقات جاری ہیں البتہ بہ رضا و رغبت منہ میٹھا کر لینے سے اس کیفیت کی اثرات کافی حد تک کم ہوتے ہیں۔ 

بعض احباب جناب آدم علیہ السلام کو اس حوالے سے بھی خوش نصیب گردانتے ہیں کہ ان کی ساس کوئی نہیں تھیں، فی زمانہ "پھپھو لیس" افراد کو بھی اسی طبقے میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس کا قطعاً یہ مطلب نہیں کہ پھپھو ہو ہی نہ بلکہ یہ کہ پھپھو میں "پھپھو" والی خصوصیات نہ ہوں۔



نوٹ: 
طنز و مزاح اپنی جگہ، رشتہ کوئی بھی ہو ہر ایک کا اپنا تقدس اور احترام ہے اور خون کی کشش ایسی ہے کہ ہزار دراڑیں پڑ چکی ہوں جب کوئی بہن بھائی آواز دے دے تو ضبط کے سارے بندھن ٹوٹ جاتے ہیں۔ اور خبردار جو کوئی بچت کا پہلو کہے تو ۔ ۔ ۔


No comments:

Post a Comment