Saturday, January 21, 2017

بچے ہمارے عہد کے

ایک بی بی کہنے لگیں:
"عثمان! اس بچے کو دم کرنا ذرا، بہت تنگ کرتا ہے"
ہم بھی گویا ہوئے
"بچے کو بعد میں پہلے بچے کی ماں کو دم کرنا بنتا ہے"

بات کڑوی تھی اور انداز معنی خیر، اسی لا ابالی اور غیر محتاط طرز زندگی نے ہمارا جینا اجیرن کر رکھا ہے۔ ہم کسی ایسے ہی کرشمے کے منتظر ہوتے ہیں کہ جو بغیر محنت کے ہمیں بھی سنوار جائے اور ہماری بگڑی بھی سنوار جائے۔ کرشمے کا انتظار کتنا مفید ہے اور کتنا مضر اس پر بحث سے قطع نظر، یہ بات تو طے ہے کہ ہم بحیثیتِ قوم دورانِ انتظارِ کرشمہ خود کچھ بھی کرنے سے گریز ہی کرتے ہیں۔ اور ہماری مجموعی صورتحال اس بات کی شاہد ہے۔ بچے کی تربیت کے نازک معاملے کے حوالے سے بھی آج کے والدین شاید اسی کرشمے کے منتظر ہوتے ہیں کہ خود ہی صاحبِ کرامت ہو جائیں اور کسی ریاضت سے نہ ہی گزرنا پڑے۔

جو بچہ ماں باپ کی موجودگی میں زیادہ بدتمیز، زیادہ ضدی اور زیادہ بڑبولا ہو جائے، اس کی تربیت بعد میں اس کے والدین کی تربیت پہلے کرنا بنتی ہے۔ اور تربیت ہی کی تو ضرورت ہے اور اسی کا تو شدید فقدان۔ جس معاشرے میں ماؤں کی تربیت ٹی ڈرامے اور فلمیں کریں، اس معاشرے میں بچے کی تربیت کارٹون ہی کیا کرتے ہیں۔ اور جس معاشرے میں بچے سے اپنا موبائیل فون واپس لینے کے لئے والدین کو سو سو جتن کرنے پڑیں اس میں بچے سے اپنے حقوق لینے کے لئے والدین کو کیا کیا جتن کرنے پڑیں گے، اس بات کا اندازہ کرنا قطعاً دشوار نہیں۔ 

ہم اپنے بچوں کی تربیت کا حق ادا کر سکیں گے کہ نہیں، یہ سوال اہم سہی لیکن زیادہ اہم یہ ہے کہ ہمارے والدین نے ہماری پرورش کا حق بہ حُسن و خوبی ادا کیا ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ جب کھلایا سونے کا نوالہ جاتا تھا اور دیکھا شیر کی آنکھ سے جاتا تھا۔ آج کھلایا بھی زہر جا رہا ہے ۔ ۔ ۔ جی ہاں نوے فی صد سے زائد ڈبے کے دودھ مضر صحت قرار دیئے جا چکے ہیں اور مائیں اپنا دودھ پلانے سے تو اب باغی ہو ہی چُکی ہیں۔ جب بچے کی رگوں میں ڈبے کا دودھ دوڑ رہا ہے تو وفا پھر ماں سے کیسے کرے گا؟ رہ گئی بات شیر کی آنکھ سے دیکھنے کی تو یہ تو اب حسرت ہی ہوگی اگر کسی کے سینے میں ہو بھی تو۔ جب بچے کی ضد پر اس کی ہر جائز نا جائز ضد پوری ہو تو یہ اس کے حق میں زہرِ قاتل ہے، جی ہاں زہرِ قاتل۔

قرب قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بھی ہے کہ عورت اپنے آقا کو جنم دے گی یعنی بچے اپنے والدین پر اپنا حکم چلائیں گے اور آج وہ زمانہ ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ پہلے یہ ذہن آیا کہ بچے کو اتنا اختیار دیا جائے کہ وہ اپنے فیصلے کرنے میں خود مختار ہو۔ ہم اصولی طور پر اس مؤقف کے خلاف نہیں لیکن اس سطح پر آنے میں بچے کو ایک عمر لگتی ہے کہ وہ اپنے اچھے برے کو جان کر بادی النظر میں ایک قابلِ عمل فیصلہ کر سکے۔ جب بنیاد فراہم ہی نہ کی اور اخیتار دے دینا ایسا ہی ہے کہ نا تجربہ کار کے ہاتھ میں ہتھیار تھما دینا۔ یہ وبال کم تھا کیا جو مزید یہ خرابی بھی آگئی کہ بچوں سے ہر چھوٹے بڑے معاملے میں مشورے لئے جانے لگے۔ جی ہاں یہ اسی کا شاخسانہ ہے کہ بڑے بھی جذبات سے مغلوب ہو کر اور حقائق سے انجان بن کر بے ڈھنگے فیصلے کرتے نظر آتے ہیں۔ اور پھر برا سے منہ بنا کر کہتے ہیں، "بچے نہیں مانتے"۔ 

اس حوالے سے آخری بات یہ کہنے کی جسارت کر رہا ہوں کہ والدین مادی اسباب مہیا کر کے خود کو اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش سمجھتے ہیں حالانکہ یہ خود کی آنکھوں میں دھول جھونکے کے مترادف ہے۔ اور کچھ نہیں تو آج کل سکول کالج میں ہونے والے واقعات کی فہرست نکال کر دیکھ لیں۔ کہیں کوئی ساتویں کلاس کے بچے محبت کے نام پر خود کشی کر رہے ہیں تو کہیں سات سال کا بچہ اپنی میڈم کی محبت میں جان دے رہا ہے۔ کہیں کوئی گھر کی دہلیز کو پار کر کے اپنی عزت کو داؤ پر لگا رہا ہے اور کہیں کوئی پھندا گلے میں ڈال رہا ہے۔ کیا ان سب کے والدین نے ان کو ظاہری اسباب فراہم نہ کیئے تھے؟ ان سب اسباب کی شاید کمی نہ تھی، کمی تربیت کی تھی۔ میں اور آپ اس بات کی تسلی کر لیں کہ ہمارے بچے کس حد تک "محفوظ" ہیں۔ اور سب سے اہم یہ کہ شریعت کا کتنا پاس ہے۔ اللّه ہمیں ہمارے والدین کے لئے صدقۂ جاریہ اور ہماری اولاد کو ہمارے لئے صدقۂ جاریہ بنائے۔ آمین

Friday, January 20, 2017

ہم پھپھو کہیں جسے

کہنے والے کہتے ہیں کہ اگر آپ اپنی خالہ کے حق میں اور پھپھو کے خلاف ہیں تو جان لیں کہ آپ کی والدہ کامیاب رہیں۔ بعض تجربہ کار اس بارے یہ بھی کہتے سنے گئے کہ ہر خاندانی مشہور کہانی کے دو رخ ہوتے ہیں: ننھیال کا مؤقف اور دوسرا ددھیال کا مؤقف جبکہ عام حالات میں درست تیسرا ہی ہوتا ہے۔ مؤقف کی بات ہو ہی رہی ہے تو یاد ہے کہ خاندان میں درست مؤقف اسی کا ہوتا ہے جو سامنے بیٹھا ہو، بات سادہ ہے لیکن اگر پلے سے باندھ لیں گے تو فائدے میں رہیں گے۔

بد اچھا بدنام برا، کچھ ایسا ہی حال آج کے زمانے میں پھپھو کا بھی ہے۔ میرا دوست "عین" کہتا ہے کہ پھپھو اتنی بری بھی نہیں ہوتی جتنا "فیس بک" پہ مشہور ہے۔ یہ رائے بہرحال "عین" کی ہے جبکہ ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں رشتہ دار، بشمول پھپھو، اتنے اچھے بھی نہیں ہوتے جتنے دور سے دیکھنے میں لگتے ہیں۔ ہیٹر اور رشتہ داروں کے بارے ہمارا یہی "مشاہدہ" ہے کہ کچھ فاصلے پر ہوں تو ساتھ پائیدار رہتا ہے۔ قربت زیادہ ہو تو بندہ جلد ہی ہاتھ مَلنا شروع کر دیتا ہے۔ 

پھپھو کے فائدے بھی بے حساب ہیں جن میں سے اولین تو یہی ہے کہ ان کے بچوں کی وجہ سے آپ کے رزلٹ اچھے آتے رہتے ہیں، ہمیشہ موازنہ جو ہوتا رہتا ہے۔ مزید یہ ہے کہ پھپھو کے طعنے سن کر جو آپ کا خون جلتا ہے اس پر صبر کرنے سے اگلے جہاں میں جزا کی امید ہوتی ہے۔ دوسرا کوئی فائدہ تاحال ذہن میں نہیں آسکا لیکن اس کا یہ مطلب قطعاً مت لیا جائے کہ پھپھو کی فائدے کم ہوتے ہیں بلکہ ہماری ناتجربہ کاری شمار کیا جاوے۔

پھپھو ایک کیفیت کا نام ہے جو کہ کسی پر بھی کبھی بھی وارد ہو سکتی ہے۔ جب آپ کی زوجہ محترمہ آپ پر شکایتوں کی تلوار تان لیں تو جان لیں کہ وہ "حالتِ پھپھو" میں ہیں۔ اور جب آپ ان کا جواب دینے کی سعی کریں تو پھر یقیناً آپ ان سے متاثر ہو چکے ہیں۔ اس کیفیت کے طاری ہونے پر تاحال تحقیقات جاری ہیں البتہ بہ رضا و رغبت منہ میٹھا کر لینے سے اس کیفیت کی اثرات کافی حد تک کم ہوتے ہیں۔ 

بعض احباب جناب آدم علیہ السلام کو اس حوالے سے بھی خوش نصیب گردانتے ہیں کہ ان کی ساس کوئی نہیں تھیں، فی زمانہ "پھپھو لیس" افراد کو بھی اسی طبقے میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس کا قطعاً یہ مطلب نہیں کہ پھپھو ہو ہی نہ بلکہ یہ کہ پھپھو میں "پھپھو" والی خصوصیات نہ ہوں۔



نوٹ: 
طنز و مزاح اپنی جگہ، رشتہ کوئی بھی ہو ہر ایک کا اپنا تقدس اور احترام ہے اور خون کی کشش ایسی ہے کہ ہزار دراڑیں پڑ چکی ہوں جب کوئی بہن بھائی آواز دے دے تو ضبط کے سارے بندھن ٹوٹ جاتے ہیں۔ اور خبردار جو کوئی بچت کا پہلو کہے تو ۔ ۔ ۔


مجھے ہے حکمِ اذاں

بڑا ہی کوئی عجیب قسم کا لڑکا تھا بھئی
ابھی بات پکی نہیں ہوئی تھی کہ شرطیں رکھ دیں
اور وہ بھی کیا "اوٹ پٹانگ" ۔ ۔ ۔

"نہ تیل مہندی ہوگی اور نہ ہی بینڈ باجا
نہ کوئی مووی اور نہ ہی فوٹو گرافر
نہ میں کوئی سونے کی چیز پہنوں گا
اور نہ ہی کوئی فالتو رسم ہوگی"

جس نے سنا کہنے لگا 
"منڈا کدرے وہابی تے نئیں؟"

لیکن یہ جسارت کوئی "منڈے"
کے متھے لگ کر نہ کر سکا۔

//

بات آگے بڑھی تو مطالبہ یہی ہوا کہ
کوئی مطالبہ نہیں ۔ ۔ ۔

//

کیا ددھیال کیا ننھیال سب نے اپنی پسلی کے مطابق زور لگایا کہ
ایک ایک ہی لڑکا ہے "تے کوئی کھڑاک وی نئیں"

لیکن جب بندہ بازی اندر کے محاذ پر جیت چکا ہو تو
باہر کی مخالفت جلد یا بدیر دم توڑ ہی دیتی ہے۔

شادی سے ایک دن پہلے محفل کا انعقاد ہوا اور
اسے گیارہویں والے پیر کے نام منسوب کیا،
مرحومہ دادی (اسی دن ان کا سالانہ ختم بھی تھا) کو ایصالِ ثواب کیا
اور شادی خانہ آبادی کے لئے دعا کی۔

//

حدیث نبوی صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم میں اس بات کی ترغیب  و مفہوم موجود ہے کہ
دین پر عمل کرتے ہوئے کسی طعنہ دینے والے کی بات تمہارا حوصلہ پست نہ کرے۔

//

وہ منڈا کہ جس نے اپنے مروجہ رسم و رواج کو "قدرے" للکارا 
وہ میں ہی ہوں ۔ ۔ ۔

کچھ حد تک خرافات کا مقابلہ کرنے میں کامیاب رہا 
اور کہیں پسپائی اختیار کرنا پڑی ۔ ۔ ۔

لیکن کوئی دوسرا راستہ تھا بھی تو نہیں کیونکہ
"مجھے ہے حکمِ اذاں"