آنکھ ہم نے ایک ایسے ماحول میں کھولی کہ جہاں سیر سپاٹے کو آوارہ گردی قرار دیا جاتا سو ہم حتی الامکان آوارہ گردی و آوارہ گرد عناصر سے دور ہی رہے۔ اتنا دور کہ سیالکوٹ میں رہتے ہوئے کبھی علامہ اقبال کی جائے پیدائش تک نہ گئے، کیوں؟ پتہ نئیں کیوں۔ اور چونکہ تمامی رشتہ دار سیالکوٹ ہی میں مقیم تھے تو کسی دوسرے شہر بھی خاص آنا جانا نہ ہوسکا، ما سوائے چند ایک پھیرے لاھور کے کیونکہ اس شہر کو امتیازی حیثت حاصل ہے۔ حکمران ہوں یا عوام سب نے لاھور سے ہمیشہ امتیازی سلوک ہی کیا ہے۔ سو پر زور فرمائش پر اور شکوہ جات کے اثر کو زائل کرنے کے لئے شہر اقتدار کو ہی حدف بنایا۔ چند ایک افراد سے مشاورت کرنے کے بعد ایک فہرست ترتیب پائی اور ہم یکم مئی کی چھٹی کا لطف اٹھانے روانہ ہوئے۔
گاؤں سید پور
سید پور گاؤں ہمارے لئے اور ہم گاؤں والوں کے لئے تقریباً عجوبا ہی تھے۔ گوگل میپ نے راستے تو بتا دیئے تھے لیکن اوقات کار نہ ہم نے پوچھے نہ گوگل انکل نے بتائے۔ سو ہمارا گاؤں پہنچ کر ناشتہ کرنے کا منصوبہ پایۂ تکمیل تک تو پہنچا لیکن جو خواب ہم سارا راستہ دیکھتے گئے تھے وہ ڈھابے پر بیٹھنے سے قبل ہی بیٹھ گئے۔
جو افراد اس "گاؤں" سے واقف نہیں ان کے لئے ہم چند تعارفی جملے عرض کرتے چلیں۔ سی-ڈی-اے نے اس جگہ پر چند آثار قدیمہ کو نئی حیات بخشی جن میں ایک مندر، ایک گردوارا اور ایک صوفی کی یادگار بتائی جاتی ہے۔ قریب ہی کچھ ہوٹلز اور کیفیز بھی ہیں جن کو دیسی ٹچ دے کر شام میں کافی ماحول ہوتا ہے ۔ ۔ ۔ ایسا ہم نے صرف سنا۔
پر تکلف ناشتہ کر چکنے کے بعد ہم نے کچھ فوٹو گرافی کے جوہر دکھاتے ہوئے مناظر کو عکسبند کیا اور اگلے پڑاؤ پر نظریں جمالیں۔
چڑیا گھر
چونکہ سید پور سے قریب ہی تھا تو سوچا "ہیلو ھائے" کرتے چلیں۔ شیر اور چیتے کے علاوہ تقریباً تمام ہی جانور و پرندے دیکھنے کو ملے اور ایک ایک کی بھی پھر کئی کئی قسمیں۔ ہاتھی کے بات ہی اور تھی، جب ہماری نظر پڑی تو محترم وجد میں تھے، ہم میں سے چند ایک کو یہ گمان بھی گزرا کہ کہیں "چابی والا ہاتھی" نہ ہو کہ ایک ہی طرز میں ہلتا جا رہا تھا۔ لیکن ہاتھی کی چال تب دیکھنے لائق تھی کہ جب ہاتھی کے نگران نے گنے پیش کیے۔ ریچھ ایک کونے میں دبک کے بیٹھا گھور رہا تھا گویا زبان حال سے کہہ رہا ہو کہ "میری تے مجبوری اے تہانوں کیہہ بنیاں؟" گرمی کافی تھی لیکن اپنے شہر سے پھر کچھ افاقہ ہی تھا۔
فیصل مسجد
اعلیٰ ترین فن تعمیر کا مظہر کہیں تو غلط نہ ہوگا۔ گرمی ہونے کے باوجود کافی عوام جمع تھی۔ ہم بھی خراماں خراماں مسجد کے داخلی راستے کی طرف بڑھے۔ مسجد کے احترام میں جوتے تو سبھی نے اتار کر پاؤں ننگے رکھے تھے البتہ بہت سوں کے سر بھی ۔ ۔ ۔ خیر اس پر بعد میں بات کرتے ہیں۔
اگر آپ پہلی مرتبہ فیصل مسجد جا رہے ہیں اور وہ بھی گرمی میں تو یاد رکھیں، سفید پتھر ۔ ۔ ۔ سفید پتھر پر ہی پاؤں رکھیں ورنہ کالے پتھر پر پاؤں رکھنے کی صورت میں نکلنے والی بلند چیخ کے ذمہ دار آپ خود ہوں گے۔ سفید پتھر کے اندر یہ خاصیت ہے کہ دھوپ کی تپش سے گرم نہیں ہوتا۔ بہتوں کو ہم نے اپنے اٹھائے ہوئے قدموں پر پچھتاتے ہوئے دیکھا۔
متعدد مقامات پر یہ نوٹس چسپاں تھا کہ "خواتین مسجد کے احترام کے پیش نظر اپنے لباس کا خیال رکھیں" لیکن وہاں پر موجود عوام کو دیکھ کر ہم یہی سمجھ سکے یہاں آنے والوں میں اکثر یا تو پڑھنا نہیں جانتے یا پھر اتنے ہی بچے کھچے احترام کے قائل ہیں۔ کیا "کپلز" اور کیا "فیملیز" اور کیا جوانوں کے ٹولے ۔ ۔ ۔ مسجد کو مسجد سمجھنے کے لئے کوئی تیار ہی نہیں۔ مسجد کم اور پارک زیادہ محسوس ہوا۔ غیر ملکی جوڑے بھی چند ایک نظر آئے، غیر مسلم مسجد میں داخل ہوسکتے ہیں کہ نہیں؟ چونکہ ہمیں اس مسئلے پر تفصیل نہیں معلوم سو ہم اس بابت کف لسان ہی کرتے ہیں۔
ارادہ تو ظہر سے پہلے ہی نکل جانے کا تھا لیکن مسجد کو دیکھنے اور مسجد والوں کو دیکھنے میں کچھ ایسا مگن ہوئے کہ اسی اثناء میں آذان ہوگئی، خدا کے حضور سجدہ ریز ہونے کی سعادت حاصل کی اور آگے بڑھے۔
سینچرس مال
اس مال کو تعارف ہم نے اھلِ خانہ سے یوں کرایا تھا کہ سمجھ لیجیئے جیسے گوجرانوالہ کا PACE ۔ ۔ ۔ لیکن سینچرس میں داخل ہوتے ہی جیسے دنیا ہی بدل جاتی ہے۔ گراؤنڈ فلور پر موجود برینڈز کی اکثریت سے چونکہ ہم نا واقف تھے سو خود کے پینڈو ہونے کا احساس دل میں شدت سے جنم لیا۔ دوسرے اور تیسرے فلور پر موجود برینڈر قدرے جانے پہچانے تھے سو تسلی ہوئی ہاں دیسی کھانہ سینچرس میں کھانے کی خواہش پوری نہ ہوسکی۔ شاپنگ کے نام پر چند ایک چیزیں خریدیں تاکہ سند رہیں۔
شکرپڑیاں
یہ ہمارا آخری سٹاپ تھا۔ سیدھا لوک ورثے کا رخ کیا اور تاریخ پاکستان سے منسلک یادوں کو کیمرے میں محفوظ کیا۔ پاکستان سرکار کی یہ ایک بہت اچھی کاوش ہے کہ آج کی نسل کو تاریخ سے جوڑے رکھا ہے۔ البتہ دھوپ کی وجہ سے اوپن ایریا میں مٹر گشت نہ کر سکے۔
شہر اقتدار کے جن راستوں سے ہم گزرے کوئی ھوٹل نظر نہ آیا، واپسی پر روات کے قریب ایک ریسٹورنٹ میں دوپہر کا کھانا قدرے تاخیر سے کھایا اور واپسی کے راستے پر نظر جما لی۔ تھکاوٹ کا زور تھا لیکن یہ کافی حسین یادیں سمیٹ چکے تھے، اس کی اپنی خوشی تھی۔
No comments:
Post a Comment