Friday, April 29, 2016

حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللّه تعالیٰ عنہ

حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللّه تعالیٰ عنہ کا شجرۂ نسب


آپ رضی اللّه تعالیٰ کا نام گرامی معاویہ بن ابوسفیان صخر بن حرب بن امیہ بن عبد الشمس بن عبد مناف القرشی الاموی ہے۔ آپ کی والدہ کا نام ھند بنت عتبہ ربیعہ بن عبد الشمس ہے۔ یوں سیدنا امیر معاویہ کا تعلق بنو امیہ سے ہے۔

حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللّه تعالیٰ عنہ کا قبول اسلام


حضرت معاویہ اور ان کے والد فتح مکہ کے وقت اسلام لائے تھے، ایک قول یہ ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللّه تعالیٰ عنہ صلح حدیبہ کے زمانہ میں اسلام لائے تھے اور انہوں کے اپنے اسلام کو مخفی رکھا حتیٰ کہ فتح مکہ کے سال انہوں نے اپنے اسلام کو ظاہر کر دیا اور یہ عمرة القضاء میں مسلمان تھے۔ امام ابن سعد نے روایت کی ہے کہ حضرت امیر معاویہ یہ کہتے تھے کہ میں عمرة القضاء سے پہلے اسلام لے آیا تھا لیکن میں مدینہ جانے سے ڈرتا تھا کیونکہ میری ماں نے کہا تھا کہ اگر تم مدینہ گئے تو وہ لوگ تم کو قتل کر دیں گے۔

آپ رضی اللّه تعالیٰ عنہ کا دور حکومت


حضرت امیر معاویہ رضی اللّه تعالیٰ عنہ کے بھائی یزید بن ابوسفیان رضی اللّه تعالیٰ عنہ کی وفات کے بعد انیس ھجری 19 ھ میں آپ حضرت عمر رضی اللّه تعالیٰ عنہ کے حکم سے دمشق کے گورنر مقرر ہوئے اور حضرت عثمان رضی اللّه تعالیٰ عنہ کی خلافت کے پورے زمانہ تک اس منصب پر مقرر رہے پھر بعد میں حضرت مولیٰ علی اور حضرت حسن رضی اللّه تعالیٰ عنھما سے جنگ کے زمانہ میں بھی دمشق کے حاکم رہے پھر اکتالیس ہجری میں سب مسلمانوں کا حضرت امیر معاویہ رضی اللّه تعالیٰ عنہ کی تمام ممالک اسلامیہ کی حکومت پر اتفاق ہوگیا، پھر شام میں ان کی حکومت چالیس سال سے زیادہ عرصہ تک رہی۔

(عمدة القاری جلد 16، صفحہ 341 تا 342)


خلافت اور بادشاہت میں فرق


سیدنا امیر معاویہ رضی اللّه تعالیٰ عنہ نے جو امت کی باگ دوڑ سنبھالی تو آئمہ حضرات اسے "خلافت" سے تعبیر نہیں کرتے۔ خلافت یعنی خلافت راشدہ جو حضور صلی اللّه تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمائی تھی وہ تیس سال پر محیط تھی۔

حضرت سفینہ رضی اللّه تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللّه صلی اللّه تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ میرے بعد خلافت تیس سال ہوگی، پھر بادشاہت ہو جائے گی، حضرت سفینہ رضی اللّه تعالیٰ عنہ نے کہا: حضرت ابوبکر رضی اللّه تعالیٰ عنہ کی خلافت دو سال رہی، حضرت عمر رضی اللّه تعالیٰ عنہ کی خلافت دس سال رہی، حضرت عثمان رضی اللّه تعالیٰ عنہ کی خلافت بارہ سال رہی اور حضرت علی کرم اللّه تعالیٰ وجھه الکریم و رضی اللّه تعالیٰ عنہ کی خلافت چھ سال رہی۔

(صحیح ابن حبان: 6943، المستدرک جلد دوئم، صفحہ 481 تا 482)

جب حضرت امام حسن بن علی رضی اللّه تعالیٰ عنہ نے جناب سیدنا امیر معاویہ رضی اللّه تعالیٰ عنہ کے ہاتھ پر بیعت فرمائی تو امیر معاویہ مسلمانوں کے امیر تو متفقہ طور پر مقرر ہوئے لیکن یہ حکمرانی خلافت نہ تھی۔

صحابہ کرام رضوان اللّه تعالیٰ علیھم اجمعین کا باہم اختلاف


سیدنا عثمان بن عفان ذوالنورین رضی اللّه تعالیٰ عنہ کی شہادت کے بعد بنو امیہ کا مطالبہ تھا کہ سیدنا عثمان رضی اللّه تعالیٰ عنہ کے قاتلوں کے خلاف فیصلہ کن جنگ کی جائے جبکہ سیدنا علی شیر خدا رضی اللّه تعالیٰ عنہ کا اس پر اختلاف تھا اور علماء کا اس پر اجماع ہے کہ جناب مولیٰ علی کرم اللّه تعالیٰ وجھه الکریم کا مؤقف ہی حق تھا اور جناب امیر معاویہ رضی اللّه تعالیٰ عنہ اجتہادی خطا پر تھے (یاد رہے کہ مجتہد کی خطا بھی اس کے حق میں بارگاۂ اله میں نیکی کی شمار ہوتی ہے)۔ 

مولیٰ کائنات امام علی رضی اللّه تعالیٰ عنہ کی شہادت کے بعد چھ ماہ تک امام حسن رضی اللّه تعالیٰ عنہ مسند خلافت پر تشریف فرما رہے اور یاد رہے کہ یہ چھ ماہ شامل کرنے سے ہی خلافت کے تیس سال مکمل ہوتے ہیں۔ چھ ماہ بعد حکمت کے تقاضوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے اور امت کے مفاد کو ترجیح دیتے ہوئے امام حسن رضی اللّه تعالیٰ عنہ نے جناب امیر معاویہ رضی اللّه تعالیٰ عنہ کے دست اقدس پر بیعت فرمائی اور حضور ﷺ کی ایک حدیث شریف کو سچ کر دکھایا کہ جس میں نبی رحمت صلی اللّه تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم نے امام حسن رضی اللّه تعالیٰ عنہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ میرا یہ بیٹا مسلمانوں کے دو گروہوں میں صلح کروائے گا۔

"مسلمانوں کے دو گروہوں" سے یہ بات تو واضح ہے کہ دونوں طرف اھلِ حق ہوں گے سو "مسلمان" کو یہ روا نہیں کہ کسی ایک فریق کو آڑ بنا کر دوسرے پر زبان طعن دراز کرے اور اپنے لئے جہنم کی راہ استوار کرے کیوںکہ مصطفیٰ کریم صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم نے واضح الفاظ میں تنبیہہ فرمائی کہ میرے اصحاب کے بارے میں بات کرتے ہوئے احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دو۔


فضائل امیر معاویہ رضی اللّه تعالیٰ عنہ


1- امام ابن الدنیا نے روایت کی ہے کہ حضرت عمر رضی اللّه تعالیٰ عنہ نے کہا: میرے بعد تفرقہ نہ کرنا، اگر تم نے تفرقہ کیا تو جان لو کہ معاویہ شام میں ہے۔

2- حضرت عبد الرحمن بن ابی عمیرہ، نبی کریم صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کے صحابی بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم نے حضرت معاویہ رضی اللّه تعالیٰ عنہ کے لئے دعا کی: اے اللّه! اس کو ہدایت دینے والا اور ہدایت یافتہ بنا اور اس کے سبب سے ہدایت دے۔

(سنن ترمذی: 3842)

3- حضرت عرباض بن ساریہ اسلمی رضی اللّه تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رمضان کے مہینہ میں سحر کے وقت سنا: رسول اللّه صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم فرما رہے تھے:  آؤ مبارک غذا کی طرف، پھر میں نے سنا، آپ یہ دعا کر رہے تھے: اے اللّه! معاویہ کو کتاب کا علم عطا فرما اور اس کو عذاب سے بچا۔

مسند احمد، جلد 4، صفحہ 127)

4- ابو امیہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے اپنے دادا سے سنا وہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللّه تعالیٰ عنہ کے بعد حضرت معاویہ رضی اللّه تعالیٰ عنہ نے وضو کرانے کا برتن لے لیا، حضرت ابوہریرہ بیمار ہوگئے تھے، حضرت معاویہ رسول اللّه صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کو وضو کرا رہے تھے تو آپ نے وضو کرتے ہوئے ایک یا دو مرتبہ سر اٹھا کر دیکھا، پھر فرمایا: اے معاویہ! جب تمہیں کسی جگہ کا حاکم بنایا جائے تو اللّه عزوجل سے ڈرنا اور عدل کرنا، حضرت معاویہ نے کہا: جب سے مجھے نبی کریم صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کے اس ارشاد کی وجہ سے یہ یقین تھا کہ مجھے کسی جگہ کا حاکم بنایا جائے گا حتیٰ کہ میں حکومت میں مبتلا ہوگیا۔

(مسند احمد، جلد 4، صفحہ 101)

اور پھر زمانے نے دیکھا کہ مسلمانوں کا امیر، کہ جس کا حکم لاکھوں مربع میل پر چلتا تھا، جب دمشق کے بازار میں نکلا تو خچر (جو کہ عاجزی کی علامت ہے) پر سوار ہے اور اس کا غلام بھی اسی سواری پر ساتھ سوار ہے اور امیر المسلمین کے کپڑوں پر پیوند لگے ہوئے ہیں۔ بے شک آپ رضی اللّه تعالیٰ عنہ نے رسول اللّه صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمان سے ٹھیک ٹھیک استفادہ فرمایا۔

سیدنا امیر معاویہ رضی اللّه تعالیٰ عنہ کی وفات


صحیح روایات کے مطابق (بائیس) رجب 60 ھجری میں حضرت معاویہ رضی اللّه تعالیٰ عنہ کی وفات ہوئی۔

(الاصابتہ جلد 6، صفحہ 123، دارلکتب العلمیہ، بیروت 1415 ھجری)

حضرت معاویہ رضی اللّه تعالیٰ عنہ نے اپنی وفات کے وقت کہا: اے میرے بیٹے! رسول اللّه صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم نے مجھے وہ چادر عطا کی تھی جو آپ ﷺ کے جسم کے ساتھ لگی ہوئی تھی، میں نے اس چادر کو اس دن کے لئے چھپا کر رکھا تھا، اس کو میرے کفن کا اندرونی حصہ بنا دینا اور رسول اللّه ﷺ نے اپنے بال کاٹے اور ناخن تراشے وہ میں نے آپ سے لے لئے، ان کو میں نے اس دن کے لئے چھپا کر رکھا تھا، ان بالوں اور ناخنوں کو میرے منہ پر اور میری آنکھوں پر اور میرے اعضاء سجود پر رکھ دینا، اگر مجھے کوئی چیز نفع دے گی تو یہی چیزیں ہیں ورنہ اللّه تعالیٰ بہت بخشنے والا بے حد مہربنا ہے۔

(الاستیعاب، جلد 3، صفحہ 473)

22 رجب کے کونڈے/غلط فہمی کا ازالہ


رجب المرجب میں امام جعفر صادق رضی اللّه تعالیٰ عنہ کے نام کی نیاز بھی کی جاتی ہے اور برصغیر پاک و ہند میں رائج یہ ہے کہ امام پاک کے نام پر کونڈوں کی نیاز کی جاتی ہے۔ اس میں روافض نے مکاری یہ کی کہ یہ نیاز بجائے یہ کہ پندرہ رجب المرجب کو (جو کہ تاریخ وصال پاک کی صحیح روایات سے مذکور ہے) کی جائے، اسے بائیس رجب پر لے گئے لیکن اھلسنت کا غلبہ ہونے کی وجہ سے اس میں بہت سے بدعات سیئہ شامل کر لی گئیں۔ جیسے کہ نیاز دلانے کے لئے اجزاء مقررہ مقدار میں ہی ڈالے جائیں گے اور جس جگہ نیاز بنے گی، بٹے گی بھی وہیں ۔ ۔ باہر نہیں لے جائی جائے گی اور اس سے پہلے لکڑھارے کی کہانی پڑھی جائے گی وغیرہ۔ یہ تمام بدعات ہیں اور جس میں عوامِ اھلسنت بھی بتدریج کم علمی اور جہالت کی وجہ سے شریک ہو چکے ہیں۔

جہاں تک نیاز و فاتحہ کا تعلق ہے تو وہ سال کے کسی بھی دن، دن کے کسی بھی وقت کسی بھی شے پر، کسی پر جگہ دلائی جاسکتی ہے، ہر خاص و عام اس نیاز سے کھا سکتا ہے اور پہلے بجائے کسی کہانی وغیرہ کے پڑھنے سے سورة یسین شریف پڑھی جائے۔ یہ وہ باتیں ہیں جو علماء سالوں سے عوام کی خدمت میں عرض کرتے ہیں۔

حضرت امام جعفر صادق رضی اللّه تعالیٰ عنہ کی وفات کے متعلق شیعہ عالم ملا باقر مجلسی متوفی 1110 ھجری لکھتے ہیں:

اس میں اختلاف نہیں ہے کہ وفات آں حضرت 148 ھجری میں واقع ہوئی، مشہور زیادہ یہ ہے کہ ماہ شوال میں آپ نے وفات فرمائی اور بعضوں کے دو شنبہ پندرھویں ماہ رجب سن مزکور لکھی ہے اور اکثر نے عمر شریف 65 سال اور بعضے اڑسٹھ سال لکھتے ہیں۔

(جلاء العیون جلد دوئم، صفحہ 394، مترجم شیعہ جنرل بک ایجنسی لاھور) 

سو جب 22 رجب کی نیاز سے اھل بیت اور صحابہ کرام رضوان اللّه تعالیٰ علیھم اجمعین دونوں کو ایصال ثواب کی ترکیب بنانا زیادہ افضل ہے۔ 

No comments:

Post a Comment