سبحن الذی اسری بعبدہ لیلا من المسجد الحرام الی المسجد الاقصا (بنی اسرائیل:1)
پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندہ کو رات کے ایک قلیل وقفہ میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گیا۔
معراج مصطفیٰ صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کا مبارک تذکرہ جب بھی کیا جاتا ہے، اس آیه مبارکہ کو بطور سعادت تلاوت ضرور کیا جاتا ہے۔ قرآن کا حرف حرف حکمت کے خزانوں سے مالا مال ہے اور اھلِ علم تا قیامت قرآن میں غوطہ زن ہو کر اسرار و رموز کے خزانے تلاش کرتے رہیں گے، یہ ایک مسلسل سفر ہے۔ حقیقی معنیٰ یا تو اللّه پاک کے علم مبارکہ میں ہیں یا ان نبی کریم صلی اللّه تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم کے علم میں کہ جن پر اللّه نے یہ پاک کلام نازل فرمایا۔
اس مختصر سی نشست میں، کوشش یہ ہے کہ مختلف تفاسیر کے حوالے سے لفظ سے "عبدہ" کے معنیٰ پر کچھ کلام قارئین تک پہنچایا جائے۔
عبد
علامہ حسین بن محمد راغب اصفہانی علیہ الرحمہ (متوفی 502 ھ) عبد کا ایک معنیٰ یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ "جو اپنے اختیار سے اللّه کی عبادت کرتے ہیں اور ان کی عبادت بہت کامل اور اللّه تعالیٰ کو بہت پسند ہوتی ہے، وہ اللّه تعالیٰ کے مثالی عبد ہوتے ہیں اور اللّه تعالیٰ ان کے عبد ہونے پر ناز فرماتا ہے اور فخر سے فرماتا ہے کہ وہ میرے بندے ہیں:
ان عبادی لیس لك علیھم سلطن (الحجر: 42)
(اے ابلیس) بے شک میرے بندوں پر تیرا کوئی زور نہیں (چل سکے گا)۔
عبدہٗ
1- تمام انبیاء علیھم السلام اللّه تعالیٰ کے کامل عبد ہیں لیکن سیدنا محمد صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم اللّه کے کامل ترین عبد اور محبوب ترین عبد ہیں۔
اس آیت میں یہ فرمایا: "سبحان ہے وہ جو اپنے عبد کو رات کے ایک قلیل وقت میں لے گیا"
ایک سوال یہ ہے کہ رسول کا ذکر کیوں نہیں کیا؟ یوں کیوں نہیں فرمایا: "سبحان ہے وہ جو اپنے رسول کو لے گیا"
اس کا جواب یہ ہے کہ رسول وہ ہے جو اللّه کے پاس سے بندوں کی طرف لوٹ آئے اور عبد وہ ہے جو بندوں کی طرف سے اللّه کے پاس جائے، اور یہ اللّه کے پاس سے آنے کا نہیں بلکہ اللّه کی طرف جانے کا موقع تھا، اس لئے یہاں رسول کا ذکر نہیں بلکہ عبد ہی کا ذکر مناسب تھا۔
2- اللّه تعالیٰ نے حضرت یحییٰ علیہ السلام کے متعلق ارشاد فرمایا:
ان اللّه یبشرك بیحیی مصدقا بکلمة من اللّه و سیدا و حصورا (آل عمران: 39)
(اے زکریا علیہ السلام) اللّه آپ کو یحییٰ کی بشارت دیتا ہے جو (عیسیٰ علیہ السلام) کلمتہ اللّه کے مصدق ہوں گے اور سردار ہوں گے اور عورتوں سے بہت بچنے والے ہوں گے۔
حضرت یحییٰ علیہ السلام کو "سید" کہا اور آپ صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کو "عبد" فرمایا، اس کی کیا وجہ؟
اس کا جواب یہ ہے کہ سیادت، سلطنت اور مالکیت حقیقت میں اللّه تعالیٰ کی صفات ہیں، بندے کو اگر سید یا مالک یا صاحب سلطنت کہا جائے گا تو مجاز ہوگا، اور بندے کی ایسی صفت جو اس کی حقیقی صفت ہو اور اللّه کی نہ ہو وہ صرف "عبدیت" ہے، تو اللّه تعالیٰ نے یہ چاہا کہ اپنے محبوب کا ذکر حقیقی وصف کے ساتھ کرے مجاز اور مستعار وصف کے ساتھ نہ کرے۔ اور فضیلت حقیقی وصف میں ہے مجاز اور مستعار وصف میں نہیں۔
3- تیسری وجہ یہ ہے کہ آپ صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کو محض عبد نہیں فرمایا، یعنی اس کا بندہ، عبد تو دنیا میں ہزاروں ہیں لیکن کامل عبد وہ ہے جس کو مالک خود فرمائے کہ یہ میرا بندہ ہے۔ اللّه تعالیٰ نے رسول اللّه صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کا جہاں بھی ذکر فرمایا اپنی طرف اضافت کر کے فرمایا:
الحمد للّه الذی انزل علی عبدہ الکتاب (الکھف: 1)
اللّه ہی کے لئے سب تعریفیں ہیں جس نے اپنے بندہ پر کتاب نازل کی۔
الیس اللّه بکاف عبدہٗ (زمر: 36)
کیا اللّه اپنے بندہ (یعنی محمد رسول اللّه صلی اللّه علیہ وسلم) کو کافی نہیں؟
حضرت سیدنا محمد صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کے لئے اللّه تعالیٰ نے فرمایا:
"اسریٰ"
"اللّه پاک آپ ﷺ کو لے گیا"
اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے متعلق فرمایا:
ولما جآء موسیٰ لمیقاتنا (الاعراف: 143)
اور جب موسیٰ (علیہ السلام) ہمارے مقرر کیے ہوئے وقت پر آئے۔
اور حضرت ابراھیم (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا:
وقال انی ذاھب الی ربی (الصفت: 99)
اور ابراھیم (علیہ السلام) نے کہا: بے شک میں اپنے رب کی طرف جانے والا ہوں۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام خود تشریف لے گئے، حضرت ابراھیم علیہ السلام خود تشریف لے گئے اور حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللّه تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم کو اللّه تعالیٰ لے جانے والا تھا اور وہی لانے والا تھا اور ان دونوں صورتوں میں بہت فرق ہے۔
امام فخر الدین محمد بن عمر رازی (متوفی 606 ھ) لکھتے ہیں:
میں نے اپنے والد اور شیخ عمر بن الحسین رحمتہ اللّه سے سنا، انہوں نے کہا میں نے شیخ سلیمان انصاری سے سنا کہ جب سیدنا محمد صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم بلند درجات اور عظیم مراتب پر پہنچے تو اللّه تعالیٰ نے ان کی طرف وحی کی،
"اے محمد! تم کو کس وجہ سے یہ بلندی عطا کی گئی"
آپ ﷺ نے خود جواب دیا:
"اے میرے رب کیونکہ تو میرے عبد ہونے کو اپنی طرف منسوب فرماتا ہے اور مجھے اپنا عبادت گزار قرار دیتا ہے تو اللّه تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی:
سبحان الذی اسریٰ بعبدہٖ
(تفسیر کبیر، جلد 7، ص 292)
اور اسی مقام پر حکیم الامت علامہ محمد اقبال علیہ الرحمہ گویا ہوئے اور قلم ہی توڑ دیا:
عبد دیگر عبدہ چیزی دگر
ما سراپا انتظار او منتظر
(اس مضمون کا اکثر مواد میں نے علامہ غلام رسول سعیدی صاحب غفرله کی تفسیر تبیان القرآن کی جلد ششم، سورة بنی اسرائیل کے ضمن سے حاصل کیا)
No comments:
Post a Comment