مریم از یک نسبت عیسیٰ (علیہ السلام) عزیز
از سہ نسبت حضرت زہرا عزیز
نورِ چشم رحمتہ للعالمین
آں امام اولین و آخرین
بانوے آں تاجدار ھل اتیٰ
مرتضیٰ مشکل کشا شیر خدا
مادر آں مرکز پرکار عشق
مادر آں کارواں سالارِ عشق
سیرت فرزند ہا از امہات
جوہر صدیق و صفا از امہات
مزرعِ تسلیم را حاصل بتول
مادراں را اسوہ کامل بتول
(رضی اللّه تعالیٰ عنھا)
درمعنی ایں کہ سیدة النساء فاطمتہ الزہرا اسوہ کاملہ ایست براے نساء اسلام
رموزِ بیخودی، فارسی مجموعہ، علامہ محمد اقبال رحمتہ اللّه تعالیٰ علیہ
سیدہ مریم سلام اللّه علیھا اللّه تعالیٰ کی پاکباز بندی ہیں کہ جن کی شان قرآن مجید میں جا بجا اللّه تعالیٰ نے بیان فرمائی ہے۔ آپ کی بزرگی کا چرچا تا صبح قیامت باقی رہے گا کہ آپ کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ ہونے کا شرف حاصل ہے۔ آپ نے بغیر باپ کے بیٹے کو جنم دیا اور اپنی عزت و پارسائی کی حفاظت کرنے کے باوجود زمانے کی طعنے سہے۔ آپ سلام اللّه علیھا کو یہ شرف حاصل ہے کہ آپ ایک ایسے پیغمر علیہ السلام کی والدہ ہیں کہ جنہوں نے نہ صرف گود میں کلام کیا بلکہ اپنی نبوت کا بھی اعلان کیا اور اپنے صاحب کتاب ہونے کا بھی۔
لیکن یہ صرف ایک نسبت ہے کہ جو جناب مریم سلام اللّه علیھا کو حاصل ہے، سیدہ فاطمتہ الزھرا رضی اللّه تعالیٰ عنھا کہ جو تمام جنتی عورتوں کی سردار ہیں، سیدہ کائنات ہیں آپ کو تین نسبتوں سے فضیلت حاصل ہے۔ پہلی نسبت یہ کہ آپ نبی مکرم نور مجسم محمد مصطفیٰ رحمتہ اللعالمین صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کی نورِ نظر ہیں کہ جن کے بارے میں خود سرکار صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کا فرمان عظمت نشان ہے کہ
فاطمہ میرے جگر کا ٹکرا ہے جس نے اسے ناراض کیا تو اس نے مجھے ہی ناراض کیا۔
(صحیح بخاری: 3437)
اور حضور صلی اللّه تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم اپنی نورِ نظر کا کیسا مان رکھتے کہ جب وہ تشریف لاتی تو کھڑے ہو کر ان کا استقبال فرماتے اور انہیں اپنی نشست پر بٹھاتے، کبھی ان کی کسی بات کو نہ ٹالتے تھے۔ آپ نبی کریم صلی اللّه تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم پہلوں اور پچھلوں سب کے امام ہیں اور آپ کی شہزادی سیدہ فاطمہ الزھرا رضی اللّہ تعالیٰ عنھا تمام عورتوں کی سردار ہیں۔
دوسری نسبت یہ کہ حضرت فاطمتہ الزھرا رضی اللّه تعالیٰ عنھا "ھل اتیٰ" کے تاجدار کی حرم ہیں۔ یعنی حضرت علی مرتضیٰ شیر خدا کہ جو اللّه کے شیروں میں سے شیر ہیں اور مشکلوں کو آسان فرمانے والے ہیں وہ خود بادشاہ ہیں لیکن ایک تنگ و تاریک حجرہ ان کا گویا محل تھا اور ایک تلوار اور ایک زرہ ان کا کل سرو سامان تھا۔
آج ہم دیکھتے ہیں کہ بڑے باپوں کی بیٹیاں گھر بسانے میں مشکلات کا شکار ہوتی ہیں کہ انہیں ان کے ناز نخرے اٹھانے والے نہیں ملتے لیکن دوسری طرف ہمارے سامنے سیدہ کائنات کا اسوہ موجود ہے کہ جنہوں نے اپنے مولیٰ کی رضا اپنے شوہر کی رضا میں جانی یہاں کہ مولیٰ کائنات سیدنا علی مرتضیٰ کرم اللّه تعالیٰ وجھه الکریم نے یہ فرما دیا کہ مجھے فاطمہ سے کبھی کوئی تکلیف نہیں پہنچی۔
تیسری نسبت یہ کہ آپ ان جلیل القدر بزرگوں کی والدہ ہیں کہ جن میں سے ہر ایک اپنی مثال آپ ہے اور ان جیسا کوئی دوسرا نہ ہوا ہے نہ ہوسکتا ہے۔ ایک امام پاک امام حسن رضی اللّه تعالیٰ عنہ کہ جو حرم پاک کی شمع ہیں۔ آپ نے امت مسلمہ کی جمعیت کو مستحکم رکھا اور نانا کریم صلی اللّه تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم کے فرمان عالیشان کے تحت مسلمانوں کے دو گروہوں میں صلح کروائی اور جنگ کی آگ کو ٹھنڈا کیا اور دین اسلام کو اپنا خون دے کر عشق کے چراغ میں ایک نئی روشنی بھر دی۔ درحقیت آپ رضی اللّه تعالیٰ عنہ کی عشق کی پرکار کا مرکز ہیں۔ تاقیامت جو بھی دائرہ عشق کا کھینچا جائے گا اس کا مرکز آپ ہی کی ذات والا صفات قرار پائے گی۔
دوسرے عظیم بزرگ کہ جن کی والدہ ہونے کا شرف سیدہ فاطمتہ الزھرا سلام اللّه علیھا کو نصیب ہوا وہ سید الشھداء امام عالی مقام امام حسین رضی اللّه تعالیٰ عنہ کی بابرکت اور مبارک ذات ہے کہ عشق کے قافلے کی قیادت فرمائی اور سجدے میں سر کٹا کر بھی عشق کے اس علم کو سر بلند رکھا۔ آپ دودنوں بزرگ، دونوں امام، دونوں جنت کے سردار اور دونوں فرزند بتول الزھرا ۔ ۔ ۔ یہ مقام ہے آج کی ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کے لئے سوچنے کا کہ جن کی لوری قرآن کی تلاوت ہو وہ پھر سر نیزے پر چڑھا کر بھی تلاوقت قرآن ہی کرتے ہیں، وہ پورا کنبہ قربان کر کے بھی اللّه کی رضا پر راضی رہتے ہیں، وہ سر کٹا تو دیتے ہیں لیکن باطل کے سامنے کبھی جھکاتے نہیں۔ یہ سیکھنے کا مقام ہے ہم لوگوں کے لئے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں اور ہماری آنی والی نسلیں کہاں جا رہی ہیں ۔ ۔ ۔
اقبال علیہ الرحمہ نے یہ تینوں نسبتیں بیان فرما کر جس نکتے کی طرف نشاندہی کی ہے وہ پہلی درسگاہ ہے، وہ ماں کی گود ہے۔ بیٹوں کی سیرتیں ماؤں کی آغوش میں تیار ہوتی ہیں۔ انسانی فطرت میں سچائی اور پاکیزگی ہیں اور یہ جوہر ماؤں کی نیک اور پاک تربیت ہی سے چمکتے ہیں اور چمک سکتے ہیں۔ تسلیم کی کھیتی کا حاصل سیدہ فاطمہ الزھرا سلام اللّه علیھا ہیں کہ آپ نے اپنی زندگی اپنے مالک کی خوشنودی کے لئے بسر کی، دن بھر اولاد کی کفالت اور تربیت فرمائی اور اپنی راتوں کو مالک عزوجل کے سجدوں سے سجایا۔
آپ سیدہ کائنات ہونے کے باوجودہ اپنے گھر کے کام کاج خود انجام دیتیں، یہاں تک کہ پانی کی مشک اٹھانے کے نشان پڑ جاتے اور چکی پیس پیس کر ہاتھوں پر چھالے پڑ جاتے لیکن سیرت کی کتابیں گواہ ہیں کہ سیدہ کائنات نے اپنے ان شب و روز کو قرآن کی تلاوت سے سجایا نہ کہ شکوہ و شکایت فرمایا۔
سخا کا ایسا پیکر ہے خود پہروں بھوکا پیاسا رہ کر بھی فقیروں اور مسکینوں کی مدد فرمائی۔ وہ ردا کہ جسے کبھی کسی غیر محرم نے نہ دیکھا، جب ایک محتاج در پر سوالی بن کر آیا تو خدا کے کلام کا ایسا اثر دل پر پایا، کہ کوئی سوالی خالی ہاتھ نہ لوٹنے پائے، کہ اپنی چادر مبارک اس محتاج کی امداد کے لئے ایک یہودی کے ہاتھ بیچ ڈالی۔ تمام نوری و ناری آپ کے خدام ہونے پر فخر فرماتے ہیں۔
یہ تمام صفات گنوانے کے بعد اقبال انتہا کرتے ہیں اور فرماتے ہیں:
رشتہ آئین حق زنجیر پاست
پاس فرمان جناب مصطفیٰ است
ورنہ گرد تربتش گردیدے
سجدہ ہا بر خاک اوپا شیدمے
فرماتے ہیں کہ اللّه کے قانون کی ڈوری نے میرے پاؤں باندھ رکھے ہیں اور رسول اللّه صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کے فرمان کا پاس ہے ورنہ میں سیدہ النساء کے مزار عالیشان کا طواف کروں اور اس خاک مبارک پر سجدہ ریز ہو جاؤں۔
ان ٹوٹے پھوٹے الفاظ کو مختلف مقامات سے اکٹھا کرنے کا مقصد فقط سخیوں کے دربار میں حاضری لگوانا ہے، شیخ سعدی شیرازی فرماتے ہیں:
خدایا بحق بنی فاطمہ
کہ برقول ایماں کنی خاتمہ
گر دعوتم رد کنی، ور قبول
من و دست و دامانِ آلِ رسول
اور امام شافعی جیسے عظیم الشان فقیہہ بھی فرما گئے:
خدایا بحق بنی فاطمہ
کہ برقول ایماں کنی خاتمہ
گر دعوتم رد کنی، ور قبول
من و دست و دامانِ آلِ رسول
اور امام شافعی جیسے عظیم الشان فقیہہ بھی فرما گئے:
لی خمسة اطفی بھا حر الوباء الخاتمہ
المصطفیٰ و المرتضیٰ و ابنھما و الفاطمہ
اللّه پاک میرا لکھنا، بزرگوں کا بیان کرنا اور اھل محبت کا پڑھنا اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ہمیں بزرگوں کے دامنِ کرم سے لپٹے رہنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ آمین
ماشاءاللہ۔ بہت خوب۔ اللہ پاک بارگاہ عالی میں قبول فرمائیں۔ آمین۔
ReplyDeleteآمین
ReplyDelete💞
ReplyDelete