Wednesday, May 4, 2016

تمہارا مقصود کیا ہے؟

ایک ٹولہ معاشرے میں پایا جاتا ہے، جس کی نمائندگی سوشل میڈیا پر بھی موجود ہے، جس کا کام ہے بڑی راتوں پر گھڑے گھڑائے فتویٰ جات پوسٹ کرنا ہے۔ میلاد مصطفیٰ ﷺ کا مبارک موقع ہو یا معراج مصطفیٰ ﷺ کا، نصف شعبان کی شب ہو یا شب عاشورہ اس گروہ کا بنیادی کام عوام کے دل میں شکوک و شبہات پیدا کرنا اور غیر ضروری سوالات کو جنم دینا ہے۔ 

  • کیا یہ کام سنت ہے؟
  • ارے، یہ تو بدعت ہے۔ 
  • اس کا ثبوت تو قرون اولیٰ میں کہیں نہیں۔ 
  • یہ تو محض کھانے پینے کے بہانے ہیں۔ 


یہ اور ایسے متعدد سوالات کر کے عوام کے دل میں وساوس پیدا کیئے جاتے ہیں اور ان مبارک راتوں کی برکت سے محروم کیا جاتا ہے۔ قبل اس کے کہ میں جوابات عرض کروں میں قارئین سے یہ سوال کرنا چاہوں گا کہ ان راتوں میں ہوتا کیا ہے؟

  • قرآن خوانی
  • نعت 
  • اصلاحی بیان 
  • فکر آخرت
  • استغفار 
  • دعا
  • کھانا/سحری


ان سے مقصود کیا ہے؟ کن نتائج تک پہنچنا مقصود ہے؟ جواب اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمتہ اللّه تعالیٰ علیہ کا ایک مصرعہ 

ہم آئے یہاں تمہارے لئے، اٹھیں بھی وہاں تمہارے لئے

مقصود ہوتا ہے عظمت مصطفیٰ ﷺ کا بیان۔ جو شانیں اللّه عزوجل نے اپنے محبوب کو عطا فرمائیں ان کا بیان مقصود ہوتا ہے۔ وہ تلاوت کے ذریعے بھی بیان کی جاتی ہیں، نعت کے ذریعے بھی اور بیان کے ذریعے بھی۔ اگر ان تمام کاموں کی انفرادی حیثیت پر کچھ کلام نہیں تو ان کے یکجا کر دینے پر کیا مضائقہ؟ کسی دن کو مقرر کر دینے پر، کہ جب اسے فرض یا واجب نہیں سمجھتے اور نہ شامل ہونے والے کو برا بھی نہیں کہتے، کیا اعتراض ہے؟ اس گئے گزرے دور میں کہ جب بندہ فرائض اور واجبات سے کوتاہی برت رہا ہے اگر کسی کاوش کے ذریعے بندہ اپنے مالک سے قریب ہو تو اس کو سراہنا چاہیے یا اس کی راہ میں روڑے اٹکانے چاہیں؟

ان بڑی راتوں کے قیام کا مقصد جامع طور پرعرض کیا، عظمت مصطفیٰ ﷺ کا بیان۔ میلاد مصطفیٰ ﷺ ہے تو اس چیز کا بیان کہ مالک نے اپنے محبوب کو کن کن صفات کے ساتھ مبعوث فرمایا۔ کائنات میں کیسی نور کی برسات تھی صبح شب ولادت، یہ مقصود ہے۔ یہ مقصود ہے کہ حضور ﷺ کی ولادت باسعادت کے وقت کن کن معجزات کا ظہور ہوا۔ حضور ﷺ کے حسن و جمال کے تذکرے مقصود ہیں ۔ ۔ ۔ تو جو ان تذکروں سے روکے اس کا کیا مقصد ہے؟ اچھا اگر بارھویں تاریخ پر اعتراض ہے تو جس تاریخ پر آپ راضی ہیں اسے خود کے لئے متعین کر لیں لیکن وائے نصیب  ۔ ۔ ۔

جب معراج مصطفیٰ ﷺ کا بیان ہوگا تو کیا بیان ہوگا یہی کہ یہ قرآن کریم کے بعد دوسرا بڑا معجزہ ہے۔ یہی کہ مالک نے اپنے بندے کو کیا خوب سیر کروائی۔ یہی کہ اللّه پاک نے اپنے بندے پر کیا کیا انعام و اکرام فرمائے۔ مقصود یہی ہے کہ کل قیامت کو اور اس کے بعد جو معاملات ہونے والے ہیں ان کا پیشگی علم جو اللّه نے اپنے حبیب کریم ﷺ کو عطا فرما دیا، اسے بیان کیا جائے۔ سدرة المنتہیٰ پر جہاں جبرائیل علیہ السلام کی پرواز کی انتہا ہے وہاں وہ کیسے بشر ہیں جو اس سے بھی آگے تشریف لے گئے، یہ بیان مقصود ہیں ان راتوں میں۔ جنت میں کیا نعمتیں ہیں، جہنم میں کس گناہ پر کیا عذاب ہوگا، یہ بیان مقصود ہے اس مبارک رات میں ۔ ۔ ۔ تو جو ان تذکروں سے عوام کو گریز کرنے کا کہتے ہیں، ان کا کیا مقصود ہے؟ یہ تو سب نعمتیں یہ سب اکرام جو مالک نے اپنے بندے پر کیئے، ان کا بیان تو کرنا ہے ناں؟ کب کرنا ہے؟ جب ان مبارک راتوں میں کہ جب انوار کی برسات ہوتی ہے اور طبیعت پر ایک خاص کیف طاری ہوتا ہے تب عوام کو روکتے ہو حقیقت یہ ہے کہ اس ذکر سے بد دل کرنے والوں کے نصیب میں یہ مبارک تذکرے کہاں!

کہتے ہو کہ اس رات میں فضیلت کیا ہے؟ نماز جس کی فضیلت کے تم منکر نہیں، وہ اس رات "تحفے" میں ملی، جس شب قدر کی فضیلت کے تم قائل ہو، یہ اسی رات بطور انعام ملی، جس روزے کی عظمت کے تم بھی قائل ہو وہ اسی رات فرض کیے گئے۔ کیسی فضیلت ہے کہ جس کے تم انکاری ہو؟ یہ دراصل عظمت مصطفیٰ ﷺ کا بیان ہے کہ جس بیان سے تم پہلو تہی کیے ہوئے ہو۔ یاد رکھو! میرے آقا کریم ﷺ کی عظمت کا بیان کسی کا محتاج نہیں یہ وہ ذکر ہے کہ جسے رب کریم نے اپنے محبوب کریم ﷺ کے لئے خود بلند فرمایا ہے۔ جو اس عظمت مصطفیٰ ﷺ کا بیان سعادت سمجھ کر کرے خدا اس کے نام کو جاودانی عطا فرماتا ہے، یہ خیرات مانگنا ہمارا مقصود ہے، تمہارا مقصود کیا ہے؟ 

رجب المرجب کا مہینہ بعد میں شروع ہوتا ہے، ہر مسجد میں معراج مصطفیٰ ﷺ کا بیان پہلے شروع ہو جاتا ہے، یہ مبارک ماہ اپنے اختتام کو پہنچتا ہے لیکن یہ مبارک ذکر جاری ہی رہتا ہے۔ یہ بھی اھلسنت پر افتریٰ ہے کہ محض ایک ہی دن ذکر کیا جاتا ہے، ہاں اس دن خصوصیت کہ یہ بیان کیا جاتا ہے، اھتمام کیا جاتا ہے تا کہ انوار کی چھماچھم بارش سے دلوں کی بنجر زمین کو سیراب کیا جا سکے۔ 

آج دنیا میں کونسی جگہ ہے جہاں مسلمانوں کی عصمت پامال نہیں ہو رہی؟ اور اس کی وجہ کیا ہے؟ جب آپ کے نبی ﷺ کے خاکے تراشے جائیں اور آپ عالمی سطح پر احتجاج بھی ریکارڈ نہ کرواسکیں تو کیا سمجھتے ہیں رب آپ کی اس بیباکی پر آپ کی گرفت نہیں فرمائے گا؟ آج اس پرفتن دور میں ایک ہی جائے پناہ ہے اور وہ حضور ﷺ کی بارگاہِ بے کس پناہ ہے۔ حضور ﷺ کے دامن سے وابستہ ہو جاؤ گے تو دو جہاں سے بے پروا ہو جاؤ گے اور یہ مواقع، یہ بڑی راتیں واپس لوٹ آنے کے لئے ہی ہوتی ہیں۔ لوٹ آؤ اپنے رب کی طرف، اپنے رب کے حبیب ﷺ کی طرف ۔ ۔ ۔

شرک ٹھہرے جس میں تعظیم حبیب ﷺ 
اس برے مذہب پہ لعنت کیجیئے

ظالمو! محبوب کا حق تھا یہی
عشق کے بدلے عداوت کیجیئے

و الضحیٰ، حجرات، الم نشرح سے پھر
مؤمنو! اتمامِ حجت کیجیئے

بیٹھتے اٹھتے حضور پاک ﷺ سے
التجا و استعانت کیجیئے

یا رسول اللّه ﷺ دہائی آپ کی
گوشمالِ اھلِ بدعت کیجیئے

یا خدا تجھ تک ہے سب کا منتہیٰ
اولیاء کو حکمِ نصرت کیجیئے


Tuesday, May 3, 2016

سفرنامہ

آنکھ ہم نے ایک ایسے ماحول میں کھولی کہ جہاں سیر سپاٹے کو آوارہ گردی قرار دیا جاتا سو ہم حتی الامکان آوارہ گردی و آوارہ گرد عناصر سے دور ہی رہے۔ اتنا دور کہ سیالکوٹ میں رہتے ہوئے کبھی علامہ اقبال کی جائے پیدائش تک نہ گئے، کیوں؟ پتہ نئیں کیوں۔ اور چونکہ تمامی رشتہ دار سیالکوٹ ہی میں مقیم تھے تو کسی دوسرے شہر بھی خاص آنا جانا نہ ہوسکا، ما سوائے چند ایک پھیرے لاھور کے کیونکہ اس شہر کو امتیازی حیثت حاصل ہے۔ حکمران ہوں یا عوام سب نے لاھور سے ہمیشہ امتیازی سلوک ہی کیا ہے۔ سو پر زور فرمائش پر اور شکوہ جات کے اثر کو زائل کرنے کے لئے شہر اقتدار کو ہی حدف بنایا۔ چند ایک افراد سے مشاورت کرنے کے بعد ایک فہرست ترتیب پائی اور ہم یکم مئی کی چھٹی کا لطف اٹھانے روانہ ہوئے۔

گاؤں سید پور


سید پور گاؤں ہمارے لئے اور ہم گاؤں والوں کے لئے تقریباً عجوبا ہی تھے۔ گوگل میپ نے راستے تو بتا دیئے تھے لیکن اوقات کار نہ ہم نے پوچھے نہ گوگل انکل نے بتائے۔ سو ہمارا گاؤں پہنچ کر ناشتہ کرنے کا منصوبہ پایۂ تکمیل تک تو پہنچا لیکن جو خواب ہم سارا راستہ دیکھتے گئے تھے وہ ڈھابے پر بیٹھنے سے قبل ہی بیٹھ گئے۔ 

جو افراد اس "گاؤں" سے واقف نہیں ان کے لئے ہم چند تعارفی جملے عرض کرتے چلیں۔ سی-ڈی-اے نے اس جگہ پر چند آثار قدیمہ کو نئی حیات بخشی جن میں ایک مندر، ایک گردوارا اور ایک صوفی کی یادگار بتائی جاتی ہے۔ قریب ہی کچھ ہوٹلز اور کیفیز بھی ہیں جن کو دیسی ٹچ دے کر شام میں کافی ماحول ہوتا ہے ۔ ۔ ۔ ایسا ہم نے صرف سنا۔

پر تکلف ناشتہ کر چکنے کے بعد ہم نے کچھ فوٹو گرافی کے جوہر دکھاتے ہوئے مناظر کو عکسبند کیا اور اگلے پڑاؤ پر نظریں جمالیں۔

چڑیا گھر


چونکہ سید پور سے قریب ہی تھا تو سوچا "ہیلو ھائے" کرتے چلیں۔ شیر اور چیتے کے علاوہ تقریباً تمام ہی جانور و پرندے دیکھنے کو ملے اور ایک ایک کی بھی پھر کئی کئی قسمیں۔ ہاتھی کے بات ہی اور تھی، جب ہماری نظر پڑی تو محترم وجد میں تھے، ہم میں سے چند ایک کو یہ گمان بھی گزرا کہ کہیں "چابی والا ہاتھی" نہ ہو کہ ایک ہی طرز میں ہلتا جا رہا تھا۔ لیکن ہاتھی کی چال تب دیکھنے لائق تھی کہ جب ہاتھی کے نگران نے گنے پیش کیے۔ ریچھ ایک کونے میں دبک کے بیٹھا گھور رہا تھا گویا زبان حال سے کہہ رہا ہو کہ "میری تے مجبوری اے تہانوں کیہہ بنیاں؟" گرمی کافی تھی لیکن اپنے شہر سے پھر کچھ افاقہ ہی تھا۔

فیصل مسجد


اعلیٰ ترین فن تعمیر کا مظہر کہیں تو غلط نہ ہوگا۔ گرمی ہونے کے باوجود کافی عوام جمع تھی۔ ہم بھی خراماں خراماں مسجد کے داخلی راستے کی طرف بڑھے۔ مسجد کے احترام میں جوتے تو سبھی نے اتار کر پاؤں ننگے رکھے تھے البتہ بہت سوں کے سر بھی ۔ ۔ ۔ خیر اس پر بعد میں بات کرتے ہیں۔

اگر آپ پہلی مرتبہ فیصل مسجد جا رہے ہیں اور وہ بھی گرمی میں تو یاد رکھیں، سفید پتھر ۔ ۔ ۔ سفید پتھر پر ہی پاؤں رکھیں ورنہ کالے پتھر پر پاؤں رکھنے کی صورت میں نکلنے والی بلند چیخ کے ذمہ دار آپ خود ہوں گے۔ سفید پتھر کے اندر یہ خاصیت ہے کہ دھوپ کی تپش سے گرم نہیں ہوتا۔ بہتوں کو ہم نے اپنے اٹھائے ہوئے قدموں پر پچھتاتے ہوئے دیکھا۔

متعدد مقامات پر یہ نوٹس چسپاں تھا کہ "خواتین مسجد کے احترام کے پیش نظر اپنے لباس کا خیال رکھیں" لیکن وہاں پر موجود عوام کو دیکھ کر ہم یہی سمجھ سکے یہاں آنے والوں میں اکثر یا تو پڑھنا نہیں جانتے یا پھر اتنے ہی بچے کھچے احترام کے قائل ہیں۔ کیا "کپلز" اور کیا "فیملیز" اور کیا جوانوں کے ٹولے ۔ ۔ ۔ مسجد کو مسجد سمجھنے کے لئے کوئی تیار ہی نہیں۔ مسجد کم اور پارک زیادہ محسوس ہوا۔ غیر ملکی جوڑے بھی چند ایک نظر آئے، غیر مسلم مسجد میں داخل ہوسکتے ہیں کہ نہیں؟ چونکہ ہمیں اس مسئلے پر تفصیل نہیں معلوم سو ہم اس بابت کف لسان ہی کرتے ہیں۔

ارادہ تو ظہر سے پہلے ہی نکل جانے کا تھا لیکن مسجد کو دیکھنے اور مسجد والوں کو دیکھنے میں کچھ ایسا مگن ہوئے کہ اسی اثناء میں آذان ہوگئی، خدا کے حضور سجدہ ریز ہونے کی سعادت حاصل کی اور آگے بڑھے۔

سینچرس مال


اس مال کو تعارف ہم نے اھلِ خانہ سے یوں کرایا تھا کہ سمجھ لیجیئے جیسے گوجرانوالہ کا PACE ۔ ۔ ۔ لیکن سینچرس میں داخل ہوتے ہی جیسے دنیا ہی بدل جاتی ہے۔ گراؤنڈ فلور پر موجود برینڈز کی اکثریت سے چونکہ ہم نا واقف تھے سو خود کے پینڈو ہونے کا احساس دل میں شدت سے جنم لیا۔ دوسرے اور تیسرے فلور پر موجود برینڈر قدرے جانے پہچانے تھے سو تسلی ہوئی ہاں دیسی کھانہ سینچرس میں کھانے کی خواہش پوری نہ ہوسکی۔ شاپنگ کے نام پر چند ایک چیزیں خریدیں تاکہ سند رہیں۔

شکرپڑیاں


یہ ہمارا آخری سٹاپ تھا۔ سیدھا لوک ورثے کا رخ کیا اور تاریخ پاکستان سے منسلک یادوں کو کیمرے میں محفوظ کیا۔ پاکستان سرکار کی یہ ایک بہت اچھی کاوش ہے کہ آج کی نسل کو تاریخ سے جوڑے رکھا ہے۔ البتہ دھوپ کی وجہ سے اوپن ایریا میں مٹر گشت نہ کر سکے۔

شہر اقتدار کے جن راستوں سے ہم گزرے کوئی ھوٹل نظر نہ آیا، واپسی پر روات کے قریب ایک ریسٹورنٹ میں دوپہر کا کھانا قدرے تاخیر سے کھایا اور واپسی کے راستے پر نظر جما لی۔ تھکاوٹ کا زور تھا لیکن یہ کافی حسین یادیں سمیٹ چکے تھے، اس کی اپنی خوشی تھی۔