Monday, December 21, 2015

خود صاحبِ قرآں ہے مداحِ حضور ﷺ

اس مختصر سی تحریر میں قرآن کریم کی چند آیات، ان کا ترجمہ اور تفسیر سے یہ سمجھانا مقصود ہے کہ حضورِ پر نور، شفافع یوم النشور صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کی نعت، مدح خود رب کریم جل شانه اپنے پاک کلام میں بیان فرماتا۔

اے رضاؔ خود صاحب قرآں (یعنی اللّه تعالیٰ) ہے مداحِ حضور ﷺ
پھر تجھ سے کب ممکن ہے مِدحت رسول اللّه ﷺ کی

نیز قرآن مجید کی آیات کا ترجمہ و تفسیر اور احادیث رسول علی صاحبھا الصلوة و السلام کا ترجمہ و تفسیر سے متعلق تمام مواد میں نے تبیان القرآن، جلد 12 سے حاصل کیا جو کہ علامہ غلام رسول سعیدی صاحب رحمتہ اللّه تعالیٰ علیہ کی مرتب شدہ ہے۔ اللّه پاک آپ کی قبر انور پر بے حساب برکات کا نزول فرمائے اور آپ حضرت کے درجات کو مزید بلند فرمائے۔ آمین 

وللاٰخرة خیر لك من الاولیٰ (الضحیٰ، 4)
اور بے شک بعد والی ساعت آپ کے لئے پہلی ساعت سے بہتر ہے۔


یعنی اللّه تعالیٰ دن بہ دن آپ ﷺ کی عزت اور وجاہت میں اضافہ فرماتا رہے گا اور فراعنہ وقت اور منکروں اور معاندوں پر آپ ﷺ کو غلبہ عطا فرماتا رہے گا اور آپ ﷺ کو بہ کثرت فتوحات عطا فرماتا رہے گا اور آپ ﷺ کے متبعین اور پیروکار بڑھاتا رہے گا اور آپ ﷺ کے علوم اور معارف اور درجات میں ترقی عطا فرماتا رہے گا اور آپ ﷺ کا ہر بعد والا زمانہ پہلے زمانہ سے بڑھ چڑھ کر اور افضل اور اعلیٰ ہوگا اور اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیاوی مہمات کے مقابلہ میں اخروی درجات کی ترقی میں کوشش کرنا آپ ﷺ کے زیادہ لائق ہے۔

یہ سوال ذہن میں آ سکتا ہے کہ جب حضور نبی رحمت ﷺ کی آنے والی ساعت پہلی ساعت سے بہتر ہے یعنی آپ کی آخرت دنیا سے افضل ہوگی تو کس اعتبار سے فزوں تر ہوگی؟ چند ایک وجوھات پیشِ خدمت ہیں:

1۔ جنت آپ کی مملوک ہے


ان اللّه اشترٰی من المؤمنین انفسہم و اموالہم بان لھم الجنة (التوبہ: 111)
بے شک اللّه نے مؤمنین سے ان کی جانوں اور ان کے مالوں کو جنت کے بدلہ میں خرید لیا ہے۔

زندگی میں اللّه پاک کی عطا، جنت بھی اللّه کریم کی عطا ہے۔ کیسا مہربان رب ہے کہ جس نے اپنی عطا کی ہوئی نعمت کا ہی گویا اپنے بندے سے سودا فرمایا اور بدلے میں جنت کا مالک بنایا۔ اسی موقع پر اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ گویا ہوئے کہ 

میں تو مالک ہی کہوں گا کہ ہو مالک کے حبیب
یعنی محبوب و محب میں نہیں میرا تیرا

2۔ آپ شاھد ہیں


دنیا میں کفار و مشرکین اپنے ناپاک عزائم سے آپ ﷺ کے لئے پریشانی کا سامان کرتے ہیں جبکہ قیامت میں آپ ﷺ کی امت تمام امتوں پر گواہ ہوگی اور آپ ﷺ تمام نبیوں اور رسولوں پر گواہ ہوں گے اور اللّه پاک آپ پر گواہ ہوگا۔ اللّه تعالیٰ نے فرمایا: 

وکفیٰ باللّه شھیدا (الفتح: 28)
اور اللّه کی گواہی کافی ہے۔

3۔ فنا سے بقا


دنیا کی حسنات اور لذات، آفات اور پریشانیوں سے گھری ہوئی ہیں اور قلیل اور فانی ہیں جبکہ آخرت کی نعمتیں، پریشانیوں اور افکار سے خالی ہیں اور بہت زیادہ اور دائمی اور غیر منقطع ہیں۔


ولسوف یعطیك ربك فترضیٰ (الضحٰی، 5)
اور عنقریب آپ کا رب آپ کو اتنا دے گا کہ آپ راضی ہو جائیں گے۔

اس آیہ مبارکہ کی تفسیر میں امام ابو منصور بن محمد ماتریدی سمرقندی حنفی متوفی 333 ھجری لکھتے ہیں:

دنیا میں اللّه تعالیٰ آپ ﷺ کے ذکر اور شرف کو بلند کرے گا اور آپ کو دشمنوں پر غلبہ اور فتح اور نصرت عطا فرمائے گا اور آپ ﷺ کا دین اطراف عالم میں پھیل جائے گا اور آخرت میں آپ ﷺ کو تمام نبیوں پر فضیلت اور برتری عطا فرمائے گا، آپ سے پہلے کوئی شفاعت کے لئے لب کشائی نہیں کرے گا، لوائے حمد (حمد کا جھنڈا) آپ ﷺ کے ہاتھ میں ہوگا اور مقامِ محمود پر آپ ہی فائز ہوں گے، آپ سے پہلے کوئی جنت میں داخل نہیں ہوسکے گا، نہ آپ کی امت سے پہلے کوئی امت جنت میں داخل ہوسکے گی، حوضِ کوثر آپ ﷺ کے حوالے ہوگا اور اس دن آپ ﷺ کی عزت اور عظمت دیکھنے والی ہوگی۔

پھر بریلی کے تاجدار کی یاد آئی، فرماتے ہیں:

عرشِ حق ہے مسند رفعت رسول اللّه ﷺ کی 
دیکھنی ہے حشر میں عزت رسول اللّه ﷺ کی

لا و رب العرش جس کو جو ملا ان سے ملا
بٹتی ہے کونین میں نعمت رسول اللّه ﷺ کی

بعض مفسرینِ کرام کے مطابق یہ سب سے امید افزا آیہ کریمہ ہے کیونکہ اس میں اللّه تعالیٰ نے آپ ﷺ سے وعدہ فرمایا کہ وہ آپ ﷺ کو اتنا دے گا کہ آپ ﷺ راضی ہو جائیں گے اور حدیث شریف میں ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو نبی کریم صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: اگر میرا ایک امتی بھی دوزخ میں ہوا تو میں راضی نہیں ہوں گا۔ (الجامع لاحکام القرآن، جز 20، صفحہ 85)

مقامِ محمود:


جس دن شان یہ ہوگی کہ

لمن الملك الیوم، للّه الواحد القھار (المؤمن: 16)
آج کسی کی بادشاہی ہے؟ (خود ہی مالک ارشاد فرمائے گا) اللّه کی بادشاہی ہے جو واحد قہار ہے۔

اس دن جس دن کسی کو لب کشائی کی جرأت نہیں ہوگی اور لوگ نفسی نفسی کہیں گے اور تمام انبیاء (علیھم السلام) کے پاس جائیں گے اور سب شفاعت سے گریز کریں گے  تو سب حضور ﷺ کی بارگاہِ عالی پناہ میں حاضر ہوں گے ۔ ۔ 

حضرت ابن عمر رضی اللّه عنہما بیان کرتے ہیں کہ قیامت کے دن لوگ دو زانو بیٹھے ہوں گے، ہر امت اپنے اپنے نبی کے پاس جائے گی، وہ کہیں گے: فلاں! شفاعت کیجیئے حتیٰ کہ یہ (طلب) شفاعت نبی صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کے پاس آ کر ختم ہوگی، پس یہی وہ دن ہے جب اللّه تعالیٰ آپ ﷺ کو مقامِ محمود پر فائز فرمائے گا۔ (صحیح البخاری، رقم الحدیث: 4718)

کہیں گے اور نبی (علیھم السلام) "اذھبو الیٰ غیری"
میرے حضور ﷺ کے لب پر "انا لھا" ہوگا 

ورفعنالك ذکرك (الم نشرح: 4)
اور ہم نے آپ کی خاطر آپ کے ذکر کو بلند کر دیا۔

اللّه تعالیٰ نے آپ ﷺ کے ذکر کی بلندی اپنے ذمہ کرم پر رکھی، مخلوق کو اس کا مکلف نہیں کیا کہ وہ آپ ﷺ کا ذکر کرے کیونکہ اگر مخلوق آپ ﷺ کا ذکر بلند کرتی تو مخلوق کی ایک حد ہے اور وہ اپنی حد تک آپ کا ذکر بلند کرتی، اللّه تعالیٰ نے آپ ﷺ کے ذکر کو خود بلند کیا اور نہ اللّه تعالیٰ کی کوئی حد ہے اور نہ آپ ﷺ کے ذکر کی بلندی کی کوئی حد ہوگی، اللّه عزوجل لا محدود ہے تو آپ کے ذکر کی بلندی بھی لا محدود ہوگی، نیز مخلوق کی ابتداء بھی ہے اور انتہا بھی ہے، اللّه تعالیٰ ازلی ابدی ہے، سو آپ ﷺ کے ذکر کی بلندی بھی ازلی ابدی ہوگی۔

اللّه پاک فرماتا ہے:

تلك الرسل فضلنا بعضھم علی بعض منھم من کلم اللّه و رفع بعضھم درجت 
یہ رسول ہیں ہم نے ان میں سے بعض کو دوسرے بعض پر فضیلت دی ہے، ان میں سے بعض سے اللّه نے کلام فرمایا اور ان میں سے بعض کو درجات میں بلندی عطا فرمائی۔

اللّه تعالیٰ نے یہ ارشاد نہیں فرمایا کہ کتنی درجات کی بلندی دی کیونکہ عالم عدد میں کوئی ایسا عدد نہیں ہے جو رسول اللّه صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کے درجات کی تعین کر سکے، سو اپ ﷺ کے درجات غیر متناہی ہیں۔ امام بوصیری شاید اسی مقام پر گویا ہوئے:

فان فضل رسول اللّه لیس له
حد فیعرب عنه ناطق بفم

رسول اللّه صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کے فضل و کمال کی کوئی حد ہے ہی نہیں،
جس کو کوئی بتانے والا بتا سکے۔


پیر مہر علی شاہ صاحب علیہ الرحمہ نے بھی حضور ﷺ کی نعت شریف لکھنے کے بعد اختتام اسی پر فرمایا:

سبحان اللّه ما اجملك
ما احسنك ما کملك

اب چونکہ دیدار کی لذت حاصل ہوچکی تھی حضرت (پیر صاحب) کو تو سبحان اللّه کو بطورِ حیرت استعمال فرمایا کہ بنانے والے نے کیسا اجمل، کیسا احسن، کیسا اکمل بنایا کہ گو میں نے بیان تو کیا نعت میں لیکن بیان کر نہ سکا

اور اس بات کی تصدیق آپ کی نعت کا آخری شعر کرتا ہے کہ

کتھے مہر علی کتھے تیری ثناء
گستاخ اکھیاں کتھے جا اڑیاں

درخت قلم اور سمندر روشنائی بنیں تو پھر خدا لم یزل کی نعمت عظمیٰ کا بیان ایسا ہے کہ مکمل نہ ہو۔ یہ ذکر جاری تھا، جاری ہے اور جاری رہے گا، ان شاء اللّه۔ خدا ہمیں ہمت دے کہ ہم، اپنی بشری استعداد کے مطابق، کما حقه اس "فرض" کو ادا کر سکیں۔ آمین بجاہ النبی الکریم ﷺ 

3 comments: