Saturday, December 27, 2014

شریکاں نوں اگ لگدی

"شریکاں نوں اگ لگدی"

کیا کہیئے گا اس لفظ کے بارے کہ جس کی ابتداء ہی "شر" سے ہو۔ یوں تو اور بھی الفاظ ہیں کہ جو "شر" سے شروع ہوتے ہیں خصوصاً شرافت تو ہے ہی "شر" اور "آفت" کا گٹھ جوڑ لیکن جس شر کی طرف توجہ مبذول کروانے کی جسارت کی اس کا شر، شرکت کے "شر" سے مستعار ہے۔ کہا جاسکتا ہے کہ جہاں شرکت ہوگی، شراکت ہوگی وہاں "شر" پیش پیش رہے گا۔ 

قصہ پہلے قتل ہونے والے بھائی کا ہو یا پھر مصر میں بکنے والے بھائی کا، شیطان کا انکار ہو یا یا پھر فرشتوں کی فریاد ہو، بات ہو ظالم فرعون کی یا مظلوم قومِ موسیٰ کی ۔ ۔ ۔ جہاں بھی بات شراکت کی ھوگی سمجھ لیجئے وہیں "شریکا" ہے۔ یہاں تک کہ مسلمانوں اور یہود و نصاریٰ کے درمیان بھی "شریکا" ہی ہے ہم مسلمان حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی نسل سے آنے والے پیغمبر کے امتی ہیں اور نصاریٰ حضرت اسحاق علیہ السلام کی اولاد سے مبعوث پیغمبر حضرتِ عیسیٰ علیہ السلام کے ماننے والے ۔ ۔ ۔

عموماً ہمارے ہاں "شریکے" سے مراد لی جاتی ہے ددھیال اور ننھیال کے قریبی رشتہ دار یعنی چچا، تایا، پھپھو، خالہ، ماموں اور ان کی اولادیں۔ یہ رشتہ دار جہاں انتہائی قریبی گِنے جاتے ہیں وہاں انتہائی فریبی بھی۔ جہاں ایک دوسرے کے بازو بنتے ہیں وہاں ایک دوسرے کے بازو کاٹتے بھی ہیں۔ جہاں ایک دوسرے کا دم بھرتے نظر آتے ہیں وہیں ایک دوسرے کی ناک میں دم کردینے میں بھی کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتے۔ 

یہ شکایت آج کل کے ہر دوسرے بڑے بزرگ کو ہے کہ بچے اپنے بڑوں کا ادب نہیں کرتے لیکن دیکھنے والی بات یہ ہے کہ ایسا تأثر ان میں کیوں پروان چڑھ رہا ہے؟ آپ کسی بھی خاندان کی مثال لے لیں: تایا پھپھو سے ناراض، پھپھو چچا سے خفا، ممانی کی خالہ سے ان بن وغیرہ وغیرہ۔ ایسے میں جب بھی کبھی کوئی خوشی کا موقع ھو تو سب کو ایک تقریب میں اکھٹا کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہی ہوتا ہے۔ عین تقریب کے وقت جو ناراض ہو جائیں انہیں "بڑی پھپھو" کہتے ہیں، جو صاحب دیگوں کی رکھوالی کا ذمہ سنبھال کر کہیں کہ "نئیں بوٹی تھوڑی کچی رہ گئی اے" وہ بڑے تایا ہوں گے اور جو ہر وقت منہ پھلائے رہیں گی وہ ممانی اور خالہ، وجہ جاننے کی کوشش میں ہلکان مت ہوں یہ وجوھات گھڑنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتیں۔ 


جب ہر پہر یہی باتیں ہوں کہ 
ان کا گھر ھمارے گھر سے بڑا ہے۔
ان کی گاڑی بڑی ہے۔
صوفے دیکھے؟
پینٹ پھر بدل لیا ہوگا؟
بھابھی کے کنگن تو کوئی چار ایک تولے کے لگ رہے تھے،
تو بچوں کے دلوں میں بغض و کینہ، دماغ میں اوچھے ہتھکنڈے اور زبان پہ زہر کیوں نہ ہو؟ ادب تو خاک ہو کر خاک بھی نہ آئے۔



اور اس جلتی پر تیل کا کام کرتا ہے ہمارا تعلیمی ماحول۔ ایک کزن کو دوسرے کا دشمن بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ اگر اس سے کم نمبر آئے تو آپ کا جینا حرام نہیں تو اس کا۔ تھوڑی سمجھ بوجھ آئے اور بچہ شادی کے قابل ہو تو نئے مسائل کہ خاندان میں شادی کرنی ہے یا نہیں؟ اور اگر کرنی ہے تو ددھیال میں کہ ننھیال میں؟ اور اگر ایسے میں کسی کے آئے ہوئے رشتے کو انکار ہوجائے تو بس جی بس! آپ ان کے لیے اور وہ آپ کے لیے مرگئے۔

یہ تمام احوال ہمارے اسی معاشرے کے رِستے ہوئے زخم ہیں اور ہر دوسرے گھر کی کہانی۔ 
کیا ہمارا پڑھا لکھا ہونا ہمیں یہی سکھاتا ہے؟
ھماری دینی تعلیمات اس بارے میں کیا رہنمائی کرتی ہیں؟
اخلاقیات کا کیا تقاضا ہے؟
کیا ہم دوسروں کے لیے بھی وہی پسند کرتے ہیں، جو خود اپنے لیے؟
حسد، کینہ اور بغض ہمارے لیے کسی خیر کا سامان ہوسکتے ہیں؟
کیا ہماری خود ساختہ انا ہماری اور ہمارے بچوں کی خوشیوں سے عزیز ہے؟

سوال بہت ہیں اور ان سب سوالوں کا جواب ہمیں جلد یا بہ دیر دینا ہی ہے۔ معاشرے میں جتنی نفرت ہم پھیلا چکے ہیں اس کا تدارک آج بھی شروع کریں تو شاید کہ آنے والی نسلیں اس ناسور سے چھٹکارا پاسکیں۔

Saturday, December 20, 2014

ماواں ٹھنڈیاں چھاواں

ماواں ٹھنڈیاں چھاواں


جملہ نیا نہیں، عنوان اچھوتا نہیں لیکن بات جب عظیم ہستی کی ہو تو اس کی مدح سرائی میں بھی چاہے کتنے ہی لب وا کیوں نہ ہوں، تشنگی باقی رہتی ہے۔ عموماً ھمارے ھاں کہا جاتا ہے کہ مائیں بچوں کو بگاڑ دیتی ہیں، اپنے قریبی اعزاءکے بچے دیکھ کر اس بات کا یقین بھی چار و ناچار کرنا ہی پڑتا ہے۔ ھاں، اگر ماں بچے کو بگاڑ سکتی ہے تو اور کون ہے جو اسے سنوارے؟ حقیقت تو یہ ہے کہ بیٹا زمانے کا ولی ہی کیوں نہ ہو، ماں کی قدموں کی خاک اس کے لیے خاکِ شفا ہی قرار پاتی ہے۔

بچے کی اچھی تربیت کے لیے ماں کا پڑھا لکھا ہونا ضروری نہیں ھاں مگر اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ ہونا ضروری ہے۔ آج کل کے دور میں تربیت کے فرائض تو ٹی-وی، ڈش، انٹرنیٹ اور کیبل وغیرہ نے سنبھال لیے ہیں اور اس کی قیمت معاشرہ بحیثت مجموعی اور ہم سب اپنے اپنے ماحول میں انفرادی طور پر ادا کر رہے ہیں۔ یاد رہے کہ کیبل کا 250 اس کے علاوہ ہے۔ 

بچے کی مثال پودے کی سی ہے اور پودا تب ہی پھلتا پھولتا ہے کہ جب اس کی کانٹ چھانٹ مناسب وقت پر، بھلے انداز میں کی جاتی رہے۔ پودا موسم کی سختی جھیلے گا تو ہی پھل کا وزن برداشت کرنے کے قابل ہوگا۔ یہ حقیقت ہے کہ ہمارے ہاں صلاحیت و قابلیت کی فراوانی ہے اور اس کے دو ہی راز ہیں، ایک ماں کی دعا اور دوسرا "آلاتِ آہ و بکا" مثلاً چپل، وائپر اور ہینگر وغیرہ۔

ھماری والدہ محترمہ نے اپنے زمانے میں "این-سی-سی" کی ٹریننگ میں سارے ہی نمبر اپنے نام کیے، جس کا ثبوت وہ اپنی بابرکت چپل سے ھماری کمر پر اکثر 
ثبت فرمایا کرتی ہیں، یعنی مجال ہے کہ کبھی نشانہ خطا ہو۔

یہ نہیں کہ بچہ پھسلتا نہیں، پھسلتا ہے۔ پودے کے ساتھ جڑی بوٹیاں تو ھوتی ہی ہیں لیکن ایک قابل مالی وہی ہے کہ جو بروقت ان جڑی بوٹیوں کو تلف کرے تاکہ پودے کی افزائش متاثر نہ ہو۔ ایسے میں "ابا حضور" کے فرمودات کھاد کا کام انجام دیتے ہیں اور ان کو پسِ پشت ڈالنا سراسر ناانصافی ہوگی لہٰذا ان کا تذکرہ مستقبل کی کسی تحریر پر موقوف ۔ ۔ ۔

والدین اپنی تمام عمر کی محنت کا ثمر اپنے بچوں کی شکل میں دیکھتے ہیں اور بے شک اللّه کسی کی محنت کو اکارت نہیں جانے دیتا۔ جو والدین اپنے بچوں پر حقیقی معنوں میں "سرمایہ کاری" کرتے ہیں ان کی اس محنت سے نہ صرف وہ خود بلکہ دنیا استفادہ کرتی ہے۔ اب اس پیڑ پہ آم لگے یا جامن یہ مالک کی تقدیر ہے اور وہی بہتر جاننے والا ہے۔

اختتام میاں محمد بخش صاحب کے ہر دلعزیز شعر سے

پیو سراں دے تاج محمد
تے ماواں ٹھنڈیاں چھاواں

Saturday, September 13, 2014

جاگ بنا دودھ جم دا ناہیں


"
جاگ بنا دودھ جم دا ناہیں"

گذشتہ دنوں جناب اشفاق احمد صاحب کی برسی گزری، اللّه ان کی لحد پر رحمتوں اور برکتوں کا نزول فرمائے، ایک منفرد انداز تحریر،دل و دماغ کو جھنجھوڑ دینے والے ادیب۔ جن "بابوں" کا ذکر وہ کثرت سے کرتے ہیں، شاید ان میں سے ایک وہ خود بھی ہوں۔ صحبت اور رفاقت کے وہ پیرائے کہ جن پر خواص بھی ناز کرتے ہیں، جن کے بارے میں کہا گیا کہ ہزار سال کی عبادت سے بہتر ہیں، جو عشق کی معراج، جو طالب کی ریاضت کا ثمر اور وہ جو کہ عشق کے بام پر پہنچا دیں، یہ سب "بابوں" کی ہی مرہونِ منت ہے۔

"ایں چیز؟" 

یہ آواز ایک درویش کی تھی کہ جس نے مولانا روم کوچونکایا تھا، مولانا اپنے 

معمول کے مطابق درس و تدریس میں مشغول تھے، خوض کے کنارے ایک طرف

 طلبا تھے اور دوسری طرف ضحیم کتابوں کا انبار اور انہی نادر و نایاب کتب کی
 طرف اشارہ کرکے درویش نے سوال داغا تھا۔ 


مولانا ایک پل کے لیے درویش کو دیکھا اور پھر گویا ہوئے

 "ایں چیزِ قول و قال است، توں نہ دارد" 

یہ وقول و قال کی باتیں ہیں، تم نہیں جانتے 


یہ کہنے کی دیر تھی کہ درویش نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، ایک لمحے کی تاخیر کے 

بغیر تمام کتابوں کو خوض میں دھکیل دیا۔ سب حیران و ششدر رہ گئے اور جوں 

ہی حواس بحال ہوئے تو سب نے شور مچایا کہ یہ تو ظلم ڈھا دیا درویش نے ۔ ۔ ۔


درویش آگے بڑھا اور خوض میں داخل ہوگیا، ایک ایک کرکے تمام کتابیں اکٹھی کیں اور خوض سے باہر آیا،
سب انگشت بدنداں رہ گئے، بجائے اس کے کہ کتابوں میں سے پانی ٹپکتا، اب بھی ان میں سے گرد اٹھ رہی تھی، پانی کا ایک قطرہ بھی کتابوں پر نہ تھا ۔ ۔ ۔

یہ دیکھنا ہی تھا کہ مولانا روم چلا اٹھے

 "ایں چیز"

درویش کہ جس کے اطمینان میں چنداں فرق نہ آیا تھا، گویا ہوئے


"ایں چیز حال است، توں نہ دارد" 

یہ حال کی باتیں ہیں، جو تم نہیں جانتے

یہ سننا ہی تھا کہ مولانا روم اپنا منصب چھوڑ، اس درویش کے شاگرد ہو لیے۔  وہ دوریش، اللّه کے ولی کامل، شمس تبریز تھے۔ اس کے بعد جو فیض مولانا روم کو اپنے شیخ سے حاصل ہوا، مثنوی اس کا صرف ایک جلوہ ہے۔

ایک علم ظاہر ہے، ایک باطن۔ ایک علم موسیٰ علیہ السلام کے پاس تھا، ایک حضر علیہ السلام کے پاس۔ دونوں برحق ہیں۔ ایک کتابی شکل میں موجود ہے، ایک سینہ در سینہ منتقل ہوتا ہے۔ علم وہ بھی تھا جو مولانا روم پڑھا رہے تھے اور علم وہ بھی تھا کہ جس کے تحت پانی کو نم کرنے کا اختیار نہیں۔ علم وہ بھی ہے کہ جس کو احادیث کی شکل میں ترتیب دیا گیا اور "یا ساریا الجبل" بھی ایک علم ہے۔

میں سوچتا ہوں، پڑھے لکھے تو ہم بھی کہلاتے ہیں لیکن کیسے پڑھے لکھے کہ ایک سال بعد وہی سبق یاد نہیں؟ یہ کیسا علم ہے کہ مقروض ہوئے بغیر چارہ نہیں؟ یہ کیسا علم ہے کہ جس کے ماہرین آنے والے خطرات کا اندازہ تو دور، ان سے بچاؤ کی تدابیر بھی نہیں کرسکتے؟ یہ کیسا علم ہے کہ جس کے پڑھنے والے جب بات کریں تو حیوان شرمائیں؟ اور یہ کیسا علم ہے کہ جب قبر میں اتریں تو ساتھ نہ جائے؟

کیا کچھ ایسا کرنے کی ضرورت نہیں کہ جو بعد از مرگ، لحد میں بھی اتنا ہی مفید ہو جتنا کہ ظاہری حیاتی میں؟ شاید ہی کوئی نہ کرے لیکن اس کا آغاز کہاں سے ہوگا؟ 

صحبت ۔ ۔ ۔  


جاگ بنا دودھ جم دا ناہیں

پانوں لال ہو وے کڑھ کڑھ کے  


Saturday, September 6, 2014

مکافاتِ عمل




"باؤ جی! منڈا وغڑ جائے، تے اُہ دا کیہہ حل اے"
(باؤ جی، بیٹا خراب ہوجائے تو اس کا کیا حل ہے)



 یہ الفاظ اس کاریگر کے تھے کہ جس کو ہمارے پاس کام کرتے 15 سے 20 سال کا عرصہ ہوچکا ہے۔ مجھے فیکٹری میں عموماً اسی لقب سے مخاطب کیا جاتا ہے، یہ صاحب اپنے بیٹے کے ہاتھوں کچھ پریشان تھے ۔ ۔ ۔

میں نے تھوڑا ہلکے انداز میں ٹالتے ہوئے کہا، "وغڑن تو پہلے تے حل ہے وے، وغڑن تو بعد تے فیر دعا ای اے"

وہ تو دوبارہ کام میں مگن ہوگیا لیکن درحقیقت میری روح کے تار چھیڑ چکا تھا۔ یہ میرا یقین ہی نہیں مشاہدہ اور تجربہ بھی تھا کہ یہ دنیا مکافاتِ عمل ہے۔ انسان جو بوتا ہے وہی کاٹتا ہے لیکن جب بات والدین کی فرمانبرداری کی آئے تو میرا ایمان اور بھی پختہ اس لیے ہو جاتا ہے کہ حدیث نبوی ﷺ کے مفہوم کے مطابق والدین کی اطاعت گزاری یا نافرمانی ایسے اعمال ہیں کہ ان کا بدلہ انسان کو اس دنیا میں بھی ملتا ہے اور روزِ حشر بھی ملے گا۔

یہ ہو نہیں سکتا کہ ایک انسان نے اپنی پوری زندگی اپنے والدین کی اطاعت و فرمانبرداری میں گزاری ہو اور اس کی اولاد نافرمان ہو۔
یہ ہو نہیں سکتا کہ انسان نے اپنی اولاد کو رزقِ حلال کھلایا ہو اور  اس کی اولاد کسی حرام کام میں پڑ جائے۔
اور یہ ہو نہیں سکتا کہ انسان نے ایک سگھڑ اور قابل مالی کی طرح اپنے گلشن کی نگہبانی کی ہو اور اس کے پھول کیسی بھی غلط افکار و اطوار کے مالک بنیں۔

حکایت بیان کی جاتی ہے کہ ایک شخص کا باپ کافی ضعیف تھا، ضعف کے باعث بوڑھا باپ اپنی صفائی ستھرائی کا خیال تو دور ایک نوالہ بھی خود نہیں لے سکتا تھا، باپ کا روز روز  کا "شور شرابا" بیٹے سے برداشت نہیں ہوتا تھا۔ اسی کشمکش میں ایک دن تنگ آ کر بیٹے نے انتہائی قدم اٹھانے کا فیصلہ کیا اور باپ کو کندھوں پر اٹھا کر بہتی ندی کے کنارے جا پہنچا، قریب ہی تھا کہ وہ اپنے باپ کو اپنے ہاتھوں سے دریا برد کرتا، باپ نے کپکپاتی ہوئی آواز میں بیٹے کو پکارا اور کہا، "بیٹے مجھے یہاں مت پھینکنا، ہاں کسی اور مقام پر پھینک سکتے ہو"

بیٹے نے شرمندگی و حیرت کے ملے جلے تاثرات لے کر باپ سے پوچھا کہ ایسا کیوں؟ اگر پھینکنا ہی ہے تو یہاں کیوں نہیں؟
بوڑھے شخص نے جواب دیا، "یہ وہ مقام ہے کہ جہاں میں نے اپنے باپ کو دریا میں پھینکا تھا"

چور، لٹیرے، ڈاکو، ظالم اور دیگر برے عناصر اپنے اعمال کی سزا اگر بظاہر یہاں نہ بھی پائیں تو ہمارا عقیدہ ہے کہ آخرت میں وہ اپنے کیئے کی سزا بگتیں گے لیکن والدین کے ساتھ حسن سلوک یا بد سلوکی ہی وہ واحد عمل ہے جس کو آپ "مکافاتِ عمل" پر محیط کر سکتے ہیں۔

وہ شخص کہ جو آج کسی غیر سے اپنے بیٹے کے نشے کی شکایت کر رہا ہے جب اس کے اپنے ہاتھ میں "بھرا ہوا" سگریٹ ہوتا تھا تب اسے اپنا بیٹا یاد کیوں نہ آیا؟ کیا اس باپ نے اپنی اولاد کے لیے رزق کماتے ہوئے حلال و حرام کی تمیز کی؟ کیا اس باپ نے اپنے قیمتی وقت میں سے کچھ وقت اپنی اولاد کی پرورش کے لیے وقف کیا؟

اگر نہیں تو پھر شکوہ کیسا؟ یہ دنیا "میدانِ عمل" تو ہے ہی، ساتھ ہی ساتھ قدرت نے اسے "مکافاتِ عمل" بھی بنایا ہے۔ وہ ذات پاک ہے، بے نیاز ہے، چاہے تو اپنے کسی بندے (پیغمبر، ولی یا غیر ولی) کو آزمائش میں ڈال دے، چاہے تو خطا کو درگزر کردے، چاہے تو خطا پر گرفت فرما لے۔ یہ سب حق ہیں لیکن یہ بھی حق ہے کہ مالک کا قانون بدلا نہیں کرتا۔

آج ہم میں سے اکثر، شاید، فصل کی بوائی کے مرحلے پر ہیں اور یہ ہمارے عمل کا میدان ہے، ہم میں سے ہر ایک کو یہ چاہیئے کہ وہ اپنے لیے وہ فصل بوئے کہ جس کو کاٹتے ہوئے اس کے ہاتھوں میں روانی، دل میں سکون اور چہرے پہ اطمینان ہو۔


خدائے بزرگ و برتر سب کے والدین پر لحظہ لحظہ اپنی رحمتوں اور برکتوں کا نزول فرمائے!

Saturday, August 23, 2014

اظہارِ رائے



کچھ دوستوں کو سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر بلاگنگ کرتے پایا، اچھا لگا تو شوق ہوا کہ ہم بھی اس میدان میں طبع آزمائی کریں۔ لیکن ہم نے اظہارِ رائے سے پہلے اظہار پر رائے ضروری سمجھی۔

اپنی کسی کیفیت، ضرورت، حقیقت یا چاہت کو کسی دوسرے پر آشکار کرنا عموماً اظہارِ رائے کے زمرے میں آتا ہے۔
اظہارِ رائے قانونِ فطرت ہے بلکہ یوں کہئیے کہ طریقِ فطرت ہے۔ اظہار فرض بھی ہے اور قرض بھی، واجب بھی ہوسکتا ہے اور مکروہ بھی۔ یہ منحصر ہے اس فعل پر کہ جس کا اظہار مقصود ہے یا اس فاعل پر کہ جو اظہار کا خواھی ہے۔

اظہار کسی واسطے یا وسیلے کا مہتاج نہیں۔ یہ کسی لب و لہجے، کسی ناز و ادا کا متقاضی بھی نہیں۔ آہ و فغاں، گریہ و زاری اظہارِ خیال کا معتبر ذریعہ تو ہیں لیکن خامشی بھی اظہار میں اپنا ثانی نہیں رکھتی۔

انسان کے جسم میں روح کے داخل ہونے سے لے کر روح کے نکلنے تک کا جتنا بھی سفر ہے وہ اظہار ہی اظہار ہے۔ ماں کے شکم میں بچے کا اپنی موجودگی کا احساس دلانا، رو کر بھوک و درد کی کیفیات کا اظہار، توتلی زبان سے ننھی خواہشات کا اظہار وغیرہ۔ وہاں روح نے جسم سے پرواز کی اور یہاں اظہار کا عمل منقطع ہوا  گویا روح اظہار میں ہمارے بدن کی معاون ہو یا روح سراپائے اظہار ہو۔

اظہارِ خیال سے قبل اس فکر کی جانچ کہ جس سے خیال وجود میں آیا، پھر مناسب الفاظ کا چناؤ کہ جو جامع ہوتے ہوئے تمام پہلوؤں کا احاطہ کریں۔ مخاطب کی طبع کو مد نظر رکھنا تو ایک الگ شعبہ اور اس کی اہمیت اپنی جگہ مصمم ہے۔ انسان بولنا تو اوائل عمری سے ہی سیکھ جاتا ہے لیکن کیا بولنا ہے اور کب بولنا ہے یہ سیکھنے میں عمریں بیت جاتی  ہیں۔

مالک نے اپنی حکمت کے تحت کچھ انسانوں کو یہ فن عطا کیا ہے کہ وہ مسحور کن الفاظ میں نہ صرف اپنا مدعا بیان کرسکتے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی متحرک رکھ سکتے ہیں۔ یہ محض فضلِ ربی ہے اور عطائے الٰہی۔

ایک انسان اپنے گرد و نواح میں جن حالات سے گزرتا ہے،جس طرح سے شب و روز بسر کرتا ہے، جس طرح سے اس کی پرورش کی گئی ہے، ان تمام چیزوں کی جھلک اس کے اندازِ بیان اور اظہارِ رائے سے نظر آسکتی ہے۔ اس حوالے سے آخری بات یہ کہ ہماری وسعتِ نظری کا ایک پیمانہ یہ ہے کہ ہم اختلاف رائے کو کتنی اہمیت دیتے ہیں اور اس کو کس جائز حد تک پذیرائی دیتے ہیں۔

 اس میدان میں چونکہ نیا ہوں لہذا "بزرک" دوستوں کی رائے میرے لیئے بہت اہمیت رکھے گی، بشرطِ زندگی، گاہے گاہے تنگ کرتا رہوں گا۔


شکریہ