ماواں ٹھنڈیاں چھاواں
جملہ نیا نہیں، عنوان اچھوتا نہیں لیکن بات جب عظیم ہستی کی ہو تو اس کی مدح سرائی میں بھی چاہے کتنے ہی لب وا کیوں نہ ہوں، تشنگی باقی رہتی ہے۔ عموماً ھمارے ھاں کہا جاتا ہے کہ مائیں بچوں کو بگاڑ دیتی ہیں، اپنے قریبی اعزاءکے بچے دیکھ کر اس بات کا یقین بھی چار و ناچار کرنا ہی پڑتا ہے۔ ھاں، اگر ماں بچے کو بگاڑ سکتی ہے تو اور کون ہے جو اسے سنوارے؟ حقیقت تو یہ ہے کہ بیٹا زمانے کا ولی ہی کیوں نہ ہو، ماں کی قدموں کی خاک اس کے لیے خاکِ شفا ہی قرار پاتی ہے۔
بچے کی اچھی تربیت کے لیے ماں کا پڑھا لکھا ہونا ضروری نہیں ھاں مگر اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ ہونا ضروری ہے۔ آج کل کے دور میں تربیت کے فرائض تو ٹی-وی، ڈش، انٹرنیٹ اور کیبل وغیرہ نے سنبھال لیے ہیں اور اس کی قیمت معاشرہ بحیثت مجموعی اور ہم سب اپنے اپنے ماحول میں انفرادی طور پر ادا کر رہے ہیں۔ یاد رہے کہ کیبل کا 250 اس کے علاوہ ہے۔
بچے کی مثال پودے کی سی ہے اور پودا تب ہی پھلتا پھولتا ہے کہ جب اس کی کانٹ چھانٹ مناسب وقت پر، بھلے انداز میں کی جاتی رہے۔ پودا موسم کی سختی جھیلے گا تو ہی پھل کا وزن برداشت کرنے کے قابل ہوگا۔ یہ حقیقت ہے کہ ہمارے ہاں صلاحیت و قابلیت کی فراوانی ہے اور اس کے دو ہی راز ہیں، ایک ماں کی دعا اور دوسرا "آلاتِ آہ و بکا" مثلاً چپل، وائپر اور ہینگر وغیرہ۔
ھماری والدہ محترمہ نے اپنے زمانے میں "این-سی-سی" کی ٹریننگ میں سارے ہی نمبر اپنے نام کیے، جس کا ثبوت وہ اپنی بابرکت چپل سے ھماری کمر پر اکثر
ثبت فرمایا کرتی ہیں، یعنی مجال ہے کہ کبھی نشانہ خطا ہو۔
یہ نہیں کہ بچہ پھسلتا نہیں، پھسلتا ہے۔ پودے کے ساتھ جڑی بوٹیاں تو ھوتی ہی ہیں لیکن ایک قابل مالی وہی ہے کہ جو بروقت ان جڑی بوٹیوں کو تلف کرے تاکہ پودے کی افزائش متاثر نہ ہو۔ ایسے میں "ابا حضور" کے فرمودات کھاد کا کام انجام دیتے ہیں اور ان کو پسِ پشت ڈالنا سراسر ناانصافی ہوگی لہٰذا ان کا تذکرہ مستقبل کی کسی تحریر پر موقوف ۔ ۔ ۔
والدین اپنی تمام عمر کی محنت کا ثمر اپنے بچوں کی شکل میں دیکھتے ہیں اور بے شک اللّه کسی کی محنت کو اکارت نہیں جانے دیتا۔ جو والدین اپنے بچوں پر حقیقی معنوں میں "سرمایہ کاری" کرتے ہیں ان کی اس محنت سے نہ صرف وہ خود بلکہ دنیا استفادہ کرتی ہے۔ اب اس پیڑ پہ آم لگے یا جامن یہ مالک کی تقدیر ہے اور وہی بہتر جاننے والا ہے۔
اختتام میاں محمد بخش صاحب کے ہر دلعزیز شعر سے
پیو سراں دے تاج محمد
تے ماواں ٹھنڈیاں چھاواں
موضوع بہت اچھا اور مشہور. لیکن اندازِ تحریر منفرد. :)
ReplyDeleteبہترین، ماشاء اللہ.
بہت شکریہ جناب :))
Delete