"باؤ جی! منڈا وغڑ جائے، تے اُہ دا کیہہ حل اے"
(باؤ جی، بیٹا خراب ہوجائے تو اس کا کیا حل ہے)
یہ
الفاظ اس کاریگر کے تھے کہ جس کو ہمارے پاس کام کرتے 15 سے 20 سال کا عرصہ ہوچکا
ہے۔ مجھے فیکٹری میں عموماً اسی لقب سے مخاطب کیا جاتا ہے، یہ صاحب اپنے بیٹے کے
ہاتھوں کچھ پریشان تھے ۔ ۔ ۔
میں نے تھوڑا ہلکے انداز میں ٹالتے ہوئے
کہا، "وغڑن تو پہلے تے حل ہے وے، وغڑن تو بعد تے فیر دعا ای اے"
وہ تو دوبارہ کام میں مگن ہوگیا لیکن
درحقیقت میری روح کے تار چھیڑ چکا تھا۔ یہ میرا یقین ہی نہیں مشاہدہ اور تجربہ بھی
تھا کہ یہ دنیا مکافاتِ عمل ہے۔ انسان جو بوتا ہے وہی کاٹتا ہے لیکن جب بات والدین
کی فرمانبرداری کی آئے تو میرا ایمان اور بھی پختہ اس لیے ہو جاتا ہے کہ حدیث نبوی
ﷺ کے مفہوم کے مطابق والدین کی اطاعت گزاری یا نافرمانی ایسے اعمال
ہیں کہ ان کا بدلہ انسان کو اس دنیا میں بھی ملتا ہے اور روزِ حشر بھی ملے گا۔
یہ
ہو نہیں سکتا کہ ایک انسان نے
اپنی پوری زندگی اپنے والدین کی اطاعت و فرمانبرداری میں گزاری ہو اور اس کی اولاد
نافرمان ہو۔
یہ ہو نہیں سکتا کہ انسان نے اپنی اولاد کو رزقِ حلال
کھلایا ہو اور اس کی اولاد کسی حرام کام
میں پڑ جائے۔
اور یہ ہو نہیں سکتا کہ انسان نے ایک سگھڑ اور قابل مالی کی
طرح اپنے گلشن کی نگہبانی کی ہو اور اس کے پھول کیسی بھی غلط افکار و اطوار کے
مالک بنیں۔
حکایت بیان کی جاتی ہے کہ ایک شخص کا باپ کافی ضعیف تھا،
ضعف کے باعث بوڑھا باپ اپنی صفائی ستھرائی کا خیال تو دور ایک نوالہ بھی خود نہیں
لے سکتا تھا، باپ کا روز روز کا "شور شرابا" بیٹے سے برداشت نہیں ہوتا تھا۔ اسی کشمکش میں ایک دن
تنگ آ کر بیٹے نے انتہائی قدم اٹھانے کا فیصلہ کیا اور باپ کو کندھوں پر اٹھا کر
بہتی ندی کے کنارے جا پہنچا، قریب ہی تھا کہ وہ اپنے باپ کو اپنے ہاتھوں سے دریا
برد کرتا، باپ نے کپکپاتی ہوئی آواز میں بیٹے کو پکارا اور کہا، "بیٹے مجھے
یہاں مت پھینکنا، ہاں کسی اور مقام پر پھینک سکتے ہو"
بیٹے نے شرمندگی و حیرت کے ملے جلے تاثرات لے کر باپ سے پوچھا کہ ایسا کیوں؟
اگر پھینکنا ہی ہے تو یہاں کیوں نہیں؟
بوڑھے شخص نے جواب دیا، "یہ وہ مقام ہے کہ جہاں میں نے اپنے باپ کو دریا
میں پھینکا تھا"
چور، لٹیرے، ڈاکو، ظالم اور دیگر برے عناصر اپنے اعمال کی سزا اگر بظاہر یہاں
نہ بھی پائیں تو ہمارا عقیدہ ہے کہ آخرت میں وہ اپنے کیئے کی سزا بگتیں گے لیکن
والدین کے ساتھ حسن سلوک یا بد سلوکی ہی وہ واحد عمل ہے جس کو آپ "مکافاتِ عمل" پر
محیط کر سکتے ہیں۔
وہ شخص کہ جو آج کسی غیر سے اپنے بیٹے کے نشے کی شکایت کر رہا ہے جب اس کے
اپنے ہاتھ میں "بھرا ہوا" سگریٹ ہوتا تھا تب اسے اپنا بیٹا یاد کیوں نہ
آیا؟ کیا اس باپ نے اپنی اولاد کے لیے رزق کماتے ہوئے حلال و حرام کی تمیز کی؟ کیا
اس باپ نے اپنے قیمتی وقت میں سے کچھ وقت اپنی اولاد کی پرورش کے لیے وقف کیا؟
اگر نہیں تو پھر شکوہ کیسا؟ یہ دنیا "میدانِ عمل" تو ہے ہی، ساتھ ہی
ساتھ قدرت نے اسے "مکافاتِ عمل" بھی بنایا ہے۔ وہ ذات پاک ہے، بے نیاز
ہے، چاہے تو اپنے کسی بندے (پیغمبر، ولی یا غیر ولی) کو آزمائش میں ڈال دے، چاہے
تو خطا کو درگزر کردے، چاہے تو خطا پر گرفت فرما لے۔ یہ سب حق ہیں لیکن یہ بھی حق
ہے کہ مالک کا قانون بدلا نہیں کرتا۔
آج ہم میں سے اکثر، شاید، فصل کی بوائی کے مرحلے پر ہیں اور یہ ہمارے عمل کا
میدان ہے، ہم میں سے ہر ایک کو یہ چاہیئے کہ وہ اپنے لیے وہ فصل بوئے کہ جس کو
کاٹتے ہوئے اس کے ہاتھوں میں روانی، دل میں سکون اور چہرے پہ اطمینان ہو۔
خدائے بزرگ و برتر سب کے والدین پر لحظہ لحظہ اپنی رحمتوں اور برکتوں کا نزول
فرمائے!
No comments:
Post a Comment