Friday, October 13, 2017

کیا ختم نبوت کے معاملے میں ہم نے اپنی ذمہ داری ادا کر دی؟

طاغوتی طاقتوں نے جب یہ دیکھا کہ مسلمان زیر ہونے کے بعد دوبارہ اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں تو یہ کھوج لگانے نکلے کہ کونسی ایسی چیز ہے جو انہیں زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ مسلمانوں پر بدترین دن بھی آئے، ان کی کھوپڑیوں کے مینار بنائے گئے، ان کی عزتوں کے تقدس کو پامال کیا گیا، ان کی جائیدادیں لوٹی گئیں، ان کے بچوں کو ان کی آنکھوں کے سامنے کاٹا اور جلایا گیا اور یہ زمین ہر طرح سے ان پر تنگ کر دی گئی لیکن یہ پھر اپنے پاؤں پر کھڑے ہوگئے۔ آخر کیسے؟ برصغیر پاک و ہند پر قبضے کے بعد انگریز کو سب سے زیادہ خطرہ مسلمان ہی سے تھا کیونکہ ہندو تو پہلے بھی غلام تھے، ان کا صرف آقا بدلا تھا لیکن مسلمان سے حکومت چھینی تھی اور اس کی تاریخ بھی روشن سو اس سے نمٹنے کے لئے لائحہ عمل ترتیب دیا جانے لگا۔ برطانوی نو آبادیاتی وزارت اس مشن پر سرگرم ہوئی تو اسے چار چیزیں ملیں کہ جو مسلمانوں کو مٹنے نہیں دیتیں۔

حج
جہاد
حب نبی صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم
قرآن

ان چاروں بنیادی ستونوں کو کہ جو مسلمانوں کے ایمان کا بنیادی جز ہیں کھوکھلا کرنے کی کوشش کی گئی۔ حج اور جہاد کو کمزور کرنے کے لئے دو "کذاب" یعنی جھوٹے نبی کھڑے کئے گئے۔ ایران میں "بہاء اللّه" جس نے خانۂ خدا کا دوسرا ماڈل بنا ڈالا اور کہا کہ اتنا خرچ کرنے کی کیا ضرورت ہے، رکن یہیں ادا کرو اور رقم مسلمانوں کی فلاح پر خرچ کرو۔ اور دوسری طرف ہند میں مرزا غلام احمد قادیانی کو کھڑا کیا گیا، جس کی بنیادی ذمہ داری یہ تھی کہ جو جہاد کے خلاف کام کرے۔ اور ہند میں جہاد کے خلاف کام کرنے کی ضرورت انگریز نے اس لئے بھی محسوس کی کہ 1857 کی جنگ آزادی جو کہ گو "ناکام" رہی، لیکن اس کے بنیادی محرکات میں علمائے کرام کے وہ فتوے شامل تھے جو انہوں نے جہاد کے حق میں دیئے تھے۔ اور مرزا ملعون نے اپنا سونپا ہوا کام جانفشانی سے کیا، اس کا خود کا کہنا ہے کہ میں نے جہاد کے خلاف اتنا مواد لکھا ہے کہ اس سے پچاس الماریاں بھر جائیں۔ 

یہاں پر ایک نکتہ یہ بھی قابلِ غور ہے کہ ہمارے نبی کریم صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کے فرمانِ عالیشان کے مطابق کل تیس (30) کذاب ہوں گے جن میں سے کافی گزر چکے لیکن ان میں سے کسی ایک کی بھی ذریت باقی نہیں۔ اگر کسی کذاب کی کوئی "امت" یعنی پیروکار باقی ہیں تو وہ یا تو "مرزائی" ہیں یا "بہائی"۔ جس کی محض وجہ یہ ہے کہ یہ انگریز کی سرمایہ کاری کے نتیجے میں منظر پر آئے اور ان دونوں ملعونوں کے جہنم واصل ہونے کے بعد بھی انگریز نے اپنی سرمایہ کاری کو ڈوبنے نہیں دیا۔ اب بھی مرزائیوں کو اگر کہیں پناہ ملتی ہے تو وہ اسرائیل میں۔ 

یہ تو تھے پہلے دو بنیادی ستون کے جن پر انگریز نے کام کیا اور درحقیقت انہی کے ذریعے سے اس نے باقی دو یعنی حب نبی صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم اور قرآنِ عظیم پر بھی وار کیا لیکن اس کے علاوہ حب نبی صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم اور قرآن کا باقاعدہ حدف بنا کر مزید فرقے بھی قائم کیے کہ جن کا مقصد نبی کریم صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کی ذات گرامی کو نعوذ باللّه متنازعہ بنانا اور قرآن کی مرکزیت کو ختم کرنا تھا۔ محدث دہلوی، علامہ عبد الحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ اپنی کتاب منہاج النبوہ میں تحریر فرماتے ہیں کہ (مفہوم) مسلمانوں میں مختلف عنوانات پر اختلافات موجود ہیں لیکن الحمد اللّه نبی کریم صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کی حیاتِ طیبہ پر کوئی اختلاف نہیں۔ اور یہ وہ شخصیت ہیں کہ جو تمام مسلمانوں میں مقبول ہیں چاہے وہ کسی بھی فرقے سے تعلق رکھتے ہوں۔ اور یہ اپنے وقت کے جید اور صاحب نظر بزرگ تھے۔ تو گویا محدث دہلوی کے مبارک زمانے کے بعد وہ دور آیا کہ نبی کریم صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کی ذات مبارکہ کو متنازعہ بنانے کی مزموم کوشش کی گئی۔

وہ عقائد کے جو مسلمانوں کے مسلمہ عقائد تھے،حیات نبی صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم، علم نبی صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم، اختیار نبی صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم، وسیلہء نبی صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم اور شفاعتِ نبی صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم وغیرہ ان کو متنازعہ بنایا گیا اور متنازعہ بنانے کی بنیاد قرآن مجید کی من گھڑت تشریح اور تحریف شدہ ترجمے کو بنایا گیا۔ اب بتائیے کہ جب ذاتِ گرامی، ذات عالی مرتب صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم سے تعلق کمزور ہوگا اور قرآن جو کہ اللّه کی لٹکتی ہوئی رسی ہے اس سے تعلق کمزور ہوگا تو کس کے مقاصد پورے ہوں گے؟ کس کی سرمایہ کاری رنگ لائے گی؟

پاکستان، مدینہء ثانی آج تمام قوتوں کو اسی لئے کھٹکتا ہے کہ یہ ان تمام کے مزموم مقاصد کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ اس کی فوج کا نعرہ "جہاد فی سبیل اللّه" ہے اور یہ وہ سرزمین ہے کہ جہاں سے سرورِ عالم کو ٹھنڈی ہوا آتی تھی اور یہ وہ سرزمین ہے کہ جہاں سب سے زیادہ حفاظ موجود ہیں اور یہ وہ سرزمین ہے کہ جہاں سب سے زیادہ حجاج ہیں۔ اور یہ وہ سرزمین ہے کہ جو "لا اله الا اللّه" کے نام پر حاصل کی گئی۔ پاکستان کی بد قسمتی کہ اس کا پہلے وزیر خارجہ قادیانی تھا، سر ظفر اللّه اور یہ بد قسمتی اب بھی کسی نہ کسی شکل میں قائم ہے کہ ختم نبوت کے خلاف سازشیں ہو رہی ہیں لیکن تاجدارِ ختم نبوت کے پروانے بیدار ہیں اور سر دھڑ کی بازی لگانے کے لئے بے قرار ہیں۔ کیونکہ پاکستان بننے کے بعد 53 اور 74 کی ختم نبوت کی تحریکوں میں دس ہزار شہداء کا خون ہم سے سوال کرتا ہے کہ تم نے اپنی ذمہ داری ادا کی؟ یہ سوال میرا بھی ہے، کیا ہم نے اپنی ذمہ داری ادا کر دی؟

Friday, October 6, 2017

کھلا خط بنام وزیر داخلہ جناب احسن اقبال صاحب

سلام مسنون!

آج قومی اسمبلی میں آپ کی تقریر سنی، یقیناً آپ خیریت سے ہی ہوں گے البتہ قوم کی خیریت اور خوشحالی کے لئے دعاگو ہوں۔ الیکشن لڑنے کے لئے حلف نامے میں ختم نبوت سے متعلقہ ترمیم پر آپ نے کہا کہ ختم نبوت پر حلف اٹھانے والوں پر انگلی اٹھانے کا اختیار کسی کے پاس نہیں۔ درست فرمایا، جب تک ختم نبوت پر منتخب نمائندگان پہرہ دیتے رہیں گے تو ان پر انگلی اٹھانے کا اختیار کسی کے پاس نہیں لیکن جب وہی منتخب نمائندگان اسی حلف نامے میں مجرمانہ ترمیم کرتے ہوئے پائے جائیں اور پہلے اسے ماننے سے انکار کریں اور بعد میں اسے اصل حالت میں واپس بحال کرنے پر کریڈٹ لینا چاہیں تو انگلی تو اٹھانا بنتی ہے۔ سوال تو اٹھتا ہے کہ اس گھناؤنی سازش کے پیچھے کونسے ہاتھ ملوث تھے؟ سوال تو اٹھتا ہے کہ حلف نامے میں "میں قسمیہ حلف لیتا ہوں" کے الفاظ اتنی بھاری کیوں ہوگئے کہ ان میں ترمیم کرنا پڑی؟ سوال تو اٹھتا ہے کہ وزیر اعلیٰ شہباز شریف کے مطالبے کے باوجود اب تک وزیر قانون اور وزارتِ قانون کے ذمہ داران کے خلاف کاروائی کیوں نہ ہوسکی؟

آپ نے مزید فرمایا کہ کسی محلے کے مولوی کو یہ اختیار نہیں کہ وہ کسی کے ایمان اور کفر پر فتوے دے، "یہ معاملہ اللّه تعالیٰ کا ہے جنہوں نے جنت اور جہنم کا فیصلہ کرنا ہے، یہ ہمارا کام نہیں ہے، ہمیں اللّه تعالیٰ کے کام اپنے ہاتھ میں نہیں لینے چاہیں"۔ آپ سے نا چیز کا سوال ہے کہ اگر "محلے کے مولوی" کو یہ اختیار نہیں کہ وہ فتویٰ دے سکے تو پھر فتویٰ دینے کا اختیار آخر ہے کس کے پاس؟ میں آپ کے بیان کے اس جُز سے اتفاق کرتا ہوں کہ "یہ ہمارا کام نہیں" سو فیصد متفق، یہ آپ کا کام نہیں ہے۔ یہ انہی حضرات کا کام ہے کہ جنہوں نے اپنی ساری زندگی "قال اللّه تعالیٰ و قال قال رسول اللّه" پڑھتے پڑھاتے گزار دی۔ جنت اور جنہم کا فیصلہ بے شک اللّه نے ہی فرمانا ہے لیکن اسی مالک کا فرمان ہے، "وقل جآء الحق و زھق الباطل ان الباطل کان زھوقا" (بنی اسرائیل، 81) اور تم فرماؤ کہ حق آیا اور باطل مٹ گیا، بے شک باطل کو مٹنا ہی تھا۔ جب حق بھی واضح ہے اور باطل بھی واضح ہے تو "دارالافتاء" کسی بھی مسٔولہ صورت میں تمام حقائق کو سامنے رکھ کر "فتوی" جاری کرے گا، یہی اس کا کام ہے۔ نیز یہ کہ منتخب ایوانوں میں نمائندگان کی حالت ہم سب کے سامنے ہے کہ سورۂ اخلاص کی تلاوت کرنا پڑ جائے تو جان کے لالے پڑ جاتے ہیں، ایسے میں وہ نمائندگان دین کی روح کے مطابق اس کی تشریح کیسے کر سکیں گے؟

یاد رہے! یہی وہ محلے کا مولوی ہے کہ جس نے آپ کے پیدا ہونے پر آپ کے کان میں آذان کہی، یہی وہ مولوی ہے کہ جس نے آپ کا نکاح پڑھوایا، (اور میری خوش گمانی ہے کہ) یہی وہ مولوی ہے کہ جو آپ کے بچوں کو ناظرہ قرآن پڑھاتا ہوگا۔ اور بالآخر وہ اٹل حقیقت کہ جس کا کوئی کافر بھی منکر نہیں، موت ۔ ۔ ۔ جو کہ آ کر رہنی ہے، یہی وہ مولوی ہوگا کہ جو آپ کی آخری رسومات میں پیش پیش ہوگا۔ اس "محلے کے مولوی" کو اتنی اہمیت تو ضرور دیں کہ وہ آپ کی زندگی کے معاملات میں سند رہے۔ کیونکہ یہی وہ مولوی ہے جس کے اعلان سے عید ہوتی ہے اور اسی کے پیچھے نماز ہوتی ہے۔

آپ نے مزید یہ بھی کہا کہ کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی کو واجب القتل قرار دے، یہ قاضی کا حق ہے کہ وہ تعزیراتِ پاکستان کے تحت کس کو سزا سناتا ہے۔ جناب! مذہبی طبقے سے زیادہ شاید ہی کوئی اور طبقہ ہو کہ جو آپ کی بات سے اتفاق کرے گا۔ اور تبھی تو وہ آپ سے سوال پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ دو مرتبہ کی سزا یافتہ کہ جنہیں مختلف عدالتیں، مختلف اوقات میں سزائے موت سنا چکیں ہیں، وہ "عاصیہ مسیح" کیوں اب تک جیل میں ہے؟ کیوں اس گستاخِ رسول کی سزا پر عمل درآمد نہیں کیا گیا؟ جبکہ آپ ہی کے مطابق وہ واجب القتل بھی ہے کیونکہ تعزیراتِ پاکستان کے تحت معزز جج صاحبان نے اس ملعونہ کو سزا سنائی تو سزا میں تاخیر کیوں؟ امید ہے کہ آپ اپنی بات کی لاج رکھتے ہوئے اس کیس کو جلد منطقی انجام تک پہنچائیں گے جو کہ یقیناً تختۂ دار ہی ہے۔

آپ نے یہ بھی کہا کہ سوشل میڈیا پر فتوے دینے والوں کے خلاف سائبر کرائم بل کے تحت کاروائی کی جائے گی۔ جان کی امان پاؤں تو عرض یہ کرنا تھی کہ یہ بل اس وقت کہاں تھا جب گستاخانِ رسول بلاگرز کو آپ ہی کی حکومت نے تخفظ دیا اور انہیں بیرونِ ملک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا؟ یعنی کہ دین پر کوئی نکتہ چینی کرے تو اسے امان مل جائے اور حکومتِ وقت پر کوئی اعتراض اٹھائے تو اس کے خلاف بِل حرکت میں آئے گا۔

خرد کا نام جنوں پڑ گیا، جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے


آخر میں جو بات آپ نے کہی، میں اسے بھی دہرا دیتا ہوں تا کہ جانبداری کا فتویٰ نہ لگے، آپ نے فرمایا کہ ہم مسلمان ہیں، اللّه آپ کو اسلام پر قائم و دآئم رکھے اور دعا ہے کہ اللّه آپ کو اس کے تقاضے سمجھنے اور انہیں نبھانے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ آمین


ایک پر امید مسلمان پاکستانی