یہاں "منصوبہ بندی" سے مراد وہ ہرگز نہیں جو عام طور پر مراد لیا جاتا ہے یا وہ کہ جس کے بارے میں بات کرنے سے پہلے بچوں کو نکرے لگا دیا جاتا ہے۔ ہاں اُس "منصوبہ بندی" کے بارے یہ ضرور کہنا چاہوں کہ اس پر منصوبہ بندی کی شدید ضرورت ہے۔ منصوبہ بندی یعنی لائحہ عمل یعنی سوچ بچار یعنی وہ چیز جس سے ہمارا دور دور کا بھی کوئی تعلق نہیں۔ ہم تو ایسی واہ قوم بلکہ واہیات قوم واقع ہوئے ہیں کہ جو ایک "ایگ-زاسٹ فین" لگانے کے لئے کم از کم بھی تین اطراف کی دیواروں میں سوارخ کرتے ہیں۔
تو یہ جان لیں کہ منصوبہ بندی (پلین-انگ) کہتے کسے ہیں:
منصوبہ کے لغت میں معنیٰ ہیں: نصب کی ہوئی چیز، بہت پختہ جیسے زمین میں گاڑ دیا ہو، حکمت، تدبیر، ارادہ، قصد، منشا اور منصوبہ بندی سے مراد لیا جاتا ہے کہ مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے لئے کوئی تجویز پیش کرنا اور تدبیر اختیار کرنا یا کوئی طریقِ عمل تجویز کرنا۔ (سہی کہا تھا ناں کہ ان کاموں سے ہمارا کوئی لینا دینا نہیں؟)
انگ-ریز کے معاملات مختلف ہیں، منصوبہ بندی کسی بھی قسم کی ہو، انگ-ریز اس میدان میں کافی ثابت قدم نظر آتے ہیں۔ سو وہ اس منصوبہ بندی کو چار اجزاء میں دیکھتے ہیں:
1. منزل یا مقصد کا تعین
2. اس منزل یا مقصد کو حاصل کرنے کے لئے حکمتِ عملی ترتیب دینا۔
3. ایسے ذرائع اور اسباب کو یکجا کرنا/فراہم کرنا کہ اس منزل یا مقصد کو حصول ممکن بنایا جا سکے۔
4. ترتیب دی گئی حکمتِ عملی کا نفاذ، درست سمت کی طرف نشاندہی اور ہر ہر عمل پر خود کار جانچ۔
2. اس منزل یا مقصد کو حاصل کرنے کے لئے حکمتِ عملی ترتیب دینا۔
3. ایسے ذرائع اور اسباب کو یکجا کرنا/فراہم کرنا کہ اس منزل یا مقصد کو حصول ممکن بنایا جا سکے۔
4. ترتیب دی گئی حکمتِ عملی کا نفاذ، درست سمت کی طرف نشاندہی اور ہر ہر عمل پر خود کار جانچ۔
اب یہ بات بھی نہیں کہ صرف فرنگی اس منصوبہ بندی کی تہہ تک پہنچے، علامہ اقبال کا خدا اقبال مزید بلند فرمائے، آپ رحمتہ اللّه تعالیٰ علیہ یہ فلسفہ ایک شعر میں ہی سمجھا گئے۔
"ملے گا منزل مقصود کا اسی کو سراغ
اندھیری شب میں ہے چیتے کی آنکھ جس کا چراغ"
منصوبہ بندی میں کوتاہی برتنے کے لئے جاھل ہونا شرط نہیں، پڑھے لکھے بھی اسی ہی درجہ کے غافل ہیں۔ اس بات کا اندازہ یہاں سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب "ایم-بی-ابے" کے آغاز میں ِ"انس-ٹرکٹر" صاحب نے پوری کلاس سے پوچھا کہ "ایم-بی-اے" میں آنے کی کیا وجہ ہے؟ تو یہ تین جوابات سرفہرست تھے:
1. والدین کے کہنے پر
2. دوستوں کو دیکھ کر
3. ڈگری کے لئے . . . اس کو ایسے پڑھیئے، "شادی کے لئے"
2. دوستوں کو دیکھ کر
3. ڈگری کے لئے . . . اس کو ایسے پڑھیئے، "شادی کے لئے"
اسی مثال کو لیجیئے، یہ پاکستان کی کل آبادی کا وہ تین فیصد ہے جو "یونی-ورسٹی" کی سطح پر تعلیم حاصل کرتا ہے یا کرسکتا ہے اور معاشرے کے یہ ذمہ دار افراد اپنی زندگیوں کے 4 قیمتی سال، لاکھوں روپے اور اپنی تمام تر توانائی صَرف کرنے پر تیار ہیں لیکن سامنے منزل کیا ہے؟
کوئی معاملہ اٹھا لیجیئے، کوئی بھی، گھریلو ہو، محلے کی سطح پر، مسجد، مدرسہ، سکول کالج، شہر یا پھر ملکی سطح پر ۔ ۔ ۔ ہمارے سامنے ہماری منزل کا تعین ہی نہیں ہے تو کاہے کی حکمتِ عملی؟
اس کا نقصان سب سے بڑا یہ ہو رہا ہے کہ تمام تر توانائیاں کہ جو بہتر طور پر استعمال ہو سکتی ہیں وہ ناصرف ضائع ہو رہی ہیں بلکہ ان کا غلط استعمال ہو رہا ہے۔ تو ہم لوگ ۔ ۔ ۔ "ہم"، "پڑھے لکھے" (جو پڑھنا لکھنا جانتے ہیں) افراد، ہمیں چاہیے کہ کسی بھی کام کے آغاز سے پہلے کچھ وقت منصوبہ بندی کے لئے وقف کریں۔ شروع میں کچھ وقت لگ سکتا ہے، دشواری بھی پیش آسکتی ہے لیکن جب نتائج سامنے آئیں گے تو خدا کی رحمت سے امید ہے کہ ہم روشن مستقبل کی طرف ہی گامزن ہوں گے۔
No comments:
Post a Comment