Thursday, January 21, 2016

حیرت ہے ۔ ۔

حیرت ہے ۔ ۔ ۔

جنابِ صدیق رضی اللّه عنہ کو "صدیقِ اکبر" کہنے پر اعتراض نہیں؟
حیرت ہے حالانکہ اللّه صدیق بھی ہے اور اکبر بھی ۔ ۔


جنابِ عمر رضی اللّه عنہ کو "فاروقِ اعظم" کہنے پر اعتراض نہیں؟
حیرت ہے حالانکہ اللّه پاک فاروق بھی ہے اور اعظم بھی ۔ ۔


جنابِ عثمان کو غنی اور ذوالنورین کہنے پر اعتراض نہیں؟
حیرت ہے حالانکہ اللّه عزوجل غنی بھی ہے اور نور بھی ۔ ۔


//


اعتراض ہے تو
جنابِ شیر خدا علی مرتضیٰ رضی اللّه تعالیٰ عنہ کو مولیٰ کہنے پر ۔ ۔


اعتراض ہے تو
شیخ عبد القادر محی الدین رحمتہ اللّه علیہ کو غوث کہنے پر ۔ ۔ ۔
کیوں؟

؎؎؎

جب سیدنا صدیق و سیدنا عمر و سیدنا عثمان

(رضوان اللّه تعالیٰ علیھم اجمعین)

اللّه کی عطا سے تمام مذکورہ اوصاف کے حامل ہیں

تو جان لو کہ یہ "حبِ معاویہ نہیں، بغضِ علی ہے"

یعنی کہ مسئلہ اصول کا نہیں اصل کا ہے ۔ ۔ ۔

Tuesday, January 5, 2016

منصوبہ بندی

یہاں "منصوبہ بندی" سے مراد وہ ہرگز نہیں جو عام طور پر مراد لیا جاتا ہے یا وہ کہ جس کے بارے میں بات کرنے سے پہلے بچوں کو نکرے لگا دیا جاتا ہے۔ ہاں اُس "منصوبہ بندی" کے بارے یہ ضرور کہنا چاہوں کہ اس پر منصوبہ بندی کی شدید ضرورت ہے۔ منصوبہ بندی یعنی لائحہ عمل یعنی سوچ بچار یعنی وہ چیز جس سے ہمارا دور دور کا بھی کوئی تعلق نہیں۔ ہم تو ایسی واہ قوم بلکہ واہیات قوم واقع ہوئے ہیں کہ جو ایک "ایگ-زاسٹ فین" لگانے کے لئے کم از کم بھی تین اطراف کی دیواروں میں سوارخ کرتے ہیں۔ 

تو یہ جان لیں کہ منصوبہ بندی (پلین-انگ) کہتے کسے ہیں:

منصوبہ کے لغت میں معنیٰ ہیں: نصب کی ہوئی چیز، بہت پختہ جیسے زمین میں گاڑ دیا ہو، حکمت، تدبیر، ارادہ، قصد، منشا اور منصوبہ بندی سے مراد لیا جاتا ہے کہ مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے لئے کوئی تجویز پیش کرنا اور تدبیر اختیار کرنا یا کوئی طریقِ عمل تجویز کرنا۔ (سہی کہا تھا ناں کہ ان کاموں سے ہمارا کوئی لینا دینا نہیں؟)

انگ-ریز کے معاملات مختلف ہیں، منصوبہ بندی کسی بھی قسم کی ہو، انگ-ریز اس میدان میں کافی ثابت قدم نظر آتے ہیں۔ سو وہ اس منصوبہ بندی کو چار اجزاء میں دیکھتے ہیں:

1. منزل یا مقصد کا تعین
2. اس منزل یا مقصد کو حاصل کرنے کے لئے حکمتِ عملی ترتیب دینا۔
3. ایسے ذرائع اور اسباب کو یکجا کرنا/فراہم کرنا کہ اس منزل یا مقصد کو حصول ممکن بنایا جا سکے۔
4. ترتیب دی گئی حکمتِ عملی کا نفاذ، درست سمت کی طرف نشاندہی اور ہر ہر عمل پر خود کار جانچ۔ 


اب یہ بات بھی نہیں کہ صرف فرنگی اس منصوبہ بندی کی تہہ تک پہنچے،  علامہ اقبال کا خدا اقبال مزید بلند فرمائے، آپ رحمتہ اللّه تعالیٰ علیہ یہ فلسفہ ایک شعر میں ہی سمجھا گئے۔

"ملے گا منزل مقصود کا اسی کو سراغ
اندھیری شب میں ہے چیتے کی آنکھ جس کا چراغ"

منصوبہ بندی میں کوتاہی برتنے کے لئے جاھل ہونا شرط نہیں، پڑھے لکھے بھی اسی ہی درجہ کے غافل ہیں۔ اس بات کا اندازہ یہاں سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب "ایم-بی-ابے" کے آغاز میں ِ"انس-ٹرکٹر" صاحب نے پوری کلاس سے پوچھا کہ "ایم-بی-اے" میں آنے کی کیا وجہ ہے؟ تو یہ تین جوابات سرفہرست تھے:

1. والدین کے کہنے پر
2. دوستوں کو دیکھ کر
3. ڈگری کے لئے . . . اس کو ایسے پڑھیئے، "شادی کے لئے"


اسی مثال کو لیجیئے، یہ پاکستان کی کل آبادی کا وہ تین فیصد ہے جو "یونی-ورسٹی" کی سطح پر تعلیم حاصل کرتا ہے یا کرسکتا ہے اور معاشرے کے یہ ذمہ دار افراد اپنی زندگیوں کے 4 قیمتی سال، لاکھوں روپے اور اپنی تمام تر توانائی صَرف کرنے پر تیار ہیں لیکن سامنے منزل کیا ہے؟ 

کوئی معاملہ اٹھا لیجیئے، کوئی بھی، گھریلو ہو، محلے کی سطح پر، مسجد، مدرسہ، سکول کالج، شہر یا پھر ملکی سطح پر ۔ ۔ ۔ ہمارے سامنے ہماری منزل کا تعین ہی نہیں ہے تو کاہے کی حکمتِ عملی؟ 

اس کا نقصان سب سے بڑا یہ ہو رہا ہے کہ تمام تر توانائیاں کہ جو بہتر طور پر استعمال ہو سکتی ہیں وہ ناصرف ضائع ہو رہی ہیں بلکہ ان کا غلط استعمال ہو رہا ہے۔ تو ہم لوگ ۔ ۔ ۔ "ہم"، "پڑھے لکھے" (جو پڑھنا لکھنا جانتے ہیں) افراد، ہمیں چاہیے کہ کسی بھی کام کے آغاز سے پہلے کچھ وقت منصوبہ بندی  کے لئے وقف کریں۔ شروع میں کچھ وقت لگ سکتا ہے، دشواری بھی پیش آسکتی ہے لیکن جب نتائج سامنے آئیں گے تو خدا کی رحمت سے امید ہے کہ ہم روشن مستقبل کی طرف ہی گامزن ہوں گے۔ 

Saturday, January 2, 2016

"سارا قصور ماں دا اے"

کبھی آپ کا یہ دل چاہا ہے کہ سامنے موجود بد تمیز بچے کو رکھ کر دو لگائیں؟
میرا بھی ۔ ۔ ۔


یہ خواہش اس وقت عروج پر ہوتی ہے جب موٹر سائیکل سلپ ہونے کی وجہ کوئی بچہ ہو اور آپ کے سنبھلنے سے پہلے وہ بھاگ چکا ہو یا پھر تب جب بچہ بد تمیزی کرنے کے بعد اپنی ہی ماں کی آغوش میں پناہ لے لے۔ یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ شرارت اور بد تمیزی میں فرق ہے۔ شرارت بچوں کا خاصا ہے اور ان پر سجتی بھی ہے لیکن بد تمیزی کسی بھی عمر میں برداشت نہیں، نہ والدین کے سامنے نہ ان کی غیر موجودگی میں۔


جب میٹرک کے بچے (مسلمان والدین کے بچے) اس لئے خود کشی کر لیں کہ ان کے والدین انہیں "اس جنم" میں ایک ہونے نہیں دیں گے تو یہ بات سمجھ لیں کہ دال میں کالا نہیں پوری دال ہی کالی ہے۔ ہم اپنے حواس کا مناسب استعمال کریں تو یہ معلوم ہوگا کہ بے شمار چیزیں غیر مناسب ہیں، جن میں سے اولین بچوں کا رویہ ہے۔ وہ چاہے ان کے بچوں کا آپس میں ہو، بچوں کا اپنے دیگر بڑوں کے ساتھ کہ یا پھر خود بچوں کا اپنے والدین کے ساتھ۔ جہاں سارا سارا دن گلیوں میں آوارہ گھومنے والے بچے والدین کی تربیت پر بڑا سوالیہ نشان ہیں وہیں پلنگ توڑنے والے اور ڈرامے فلموں کے شوقین بچے بھی والدین کی تربیت پر اتنا ہی بڑا نہ صرف نشان بلکہ بد نما دھبا ہیں۔

بعض اوقات دہرائے جانے والے جملے اپنی تاثیر کھو دیتے ہیں جبکہ ان کی اہمیت اجاگر کرنا مقصود ہوتا ہے۔ "ماں کی گود پہلی درسگاہ ہے" یہ جملہ بھی گو زبان زد عام ہے لیکن اس کی اہمیت شاید بہت کم لوگوں نے جانی اور ان میں سے بھی کچھ گِنے چُنے کہ جنہوں نے اس جملے کے حق کو ادا کیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ جہاں معاشرے کی دیگر اقدار تنزلی کا شکار ہوئی ہیں، وہیں "بچوں کی تربیت" بھی۔ معاشرے کی تعمیر کا یہ بنیادی جز بھی  بری طرح زوال پذیر ہوا، انتہائی مکروہ اور مسخ شدہ چہرے کے ساتھ تربیت کے جوہر آج ہمارے درمیان موجود ہیں۔ 

ماؤں نے اپنی ذمہ داری ٹی-وی، ڈش، کیبل اور انٹرنیٹ کے سپرد کر دی اور جنہوں نے لفظ "ذمہ داری" کی تشریح اپنے تئیں اچھے سے کی، انہوں نے اپنا یہ فریضہ سکول، کالج اور ٹیوشن کے حوالے کر دیا، بچوں کے زیرِ تصرف چیزیں مہیا کیں اور خود بری الذمہ ہوگئے۔ بدلے میں کچھ بچوں نے اچھی تعلیمی کارکردگی دکھا کر حساب چکتا کیا اور تربیت اس سب تماشے میں مجسم حیرت ہے۔ ہم نے بچوں کو فون دیا، ٹی وی دیا، انٹرنیٹ دیا، نہیں دیا تو طریقۂ استعمال نہیں دیا۔ 

آج کل کے والدین کی تو حد درجہ کوشش تو یہی ہے کہ بچے ان سے جتنا دور رہ سکیں رہیں۔ دو سے تین سال کی عمر میں سکول پھر سکول کے ساتھ ٹیوشین و اکیڈمی، پھر سپارے کے لئے علیحدہ سے قاری صاحب۔ کچھ وقت بچ جائے تو وہ ٹی وی اور انٹرنیٹ کی نذر۔ وہ وقت کہ جس میں بچے اپنے والدین سے اخلاقی اقدار سیکھیں، اچھے برے کی تمیز سیکھیں، اپنے پرائے کی تمیز سیکھیں، حلال و حرام کی تمیز سیکھیں، جذبۂ اخوت و جذبۂ ایثار سیکھیں، وہ وقت نہ بڑوں کے پاس ہے اور نہ ہی بچے اب اس کے لئے تیار ہیں۔ کہیں ظاہری رکھ رکھاؤ میں برتری کی دوڑ میں ہم "ضروری سامان" پیچھے چھوڑ آئے ہیں۔ ایسے میں جب بچے کو وقت و توجہ کی ضرورت ہے اور اسے وہ حاصل نہیں تو کل والدین بچوں سے یہ کیسے توقع کر سکتے ہیں کہ ان کی ضرورت کے وقت بچے انہیں وقت اور توجہ دیں گے؟

ایک باپ جب اپنے بیٹے کو اپنے احسان گنوا رہا تھا تو کہنے لگا میرے احسان تجھ پر تیرے پیدا ہونے سے پہلے کے بھی ہیں اور تیرے پیدا ہونے کے بعد بھی۔ بیٹے کو تعجب ہوا کہ میرے پیدا ہونے سے پہلے مجھ پر کونسا احسان کیا؟ باپ نے کہا: جب نیک سیرت عورت میں نے بطور بیوی تلاش کی تو اس میں مقصود یہی تھا کہ میری اولاد کی تربیت ٹھیک سے ہو سکے، میں نے تیری تربیت کو ملحوظ رکھ کر شادی کی۔ 

ماں کی گود بچے کی پہلی درسگاہ ہے اور باپ کا سایہ کڑی دھوپ میں چھاؤں۔ گو ابتدائی عمر میں بچے کی زیادہ تر ذمہ داری ماں ہی کے سپرد ہوتی ہے لیکن بڑھتی ہوئی عمر میں بچے کو باپ کی انتہائی توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہر ہر قدم پر باپ کو بچے کی شمشیر بھی بننا ہوتا ہے اور ڈھال بھی، بڑھتے ہوئے پودے کے لئے سورج کا کام بھی کرنا ہوتا ہے اور کانٹ چھانٹ کا کام بھی باپ ہی کے ذمے ہوتا ہے۔ لیکن ایک تعداد ہے صاحبِ اولاد حضرات کی کہ جو تربیت کو اپنی ذمہ داری ماننے سے ہی انکاری ہوتے ہیں۔ دراصل میں ایسے افراد اعتدال کے عنصر سے خالی ہوتے ہیں اور اس کا انداز ان کی اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب وہ کہتے ہیں کہ "ہم سختی نہیں کرنا چاہتے"۔ اور جب اسی کشمکش میں بچے کی شخصیت ادھوری رہ جاتی ہے تو یہ فقرہ اکثر سننے کو ملتا ہے کہ "سارا قصور ماں دا اے"۔

میں اس جملے میں کافی حد تک متفق بھی ہوں، بہت حد تک بلکہ اکثر حد تک بچے کو بگاڑنے میں ماں کا ہی ہوتا ہے لیکن یہ جملہ اس شخص کا حق نہیں کہ جس نے خود اپنے حق میں کوتاہی برتی ہو۔ والدین چاہے خود بد عمل بھی ہوں لیکن اولاد کے حق میں وہ ولی کا درجہ ہی رکھتے ہیں اور ولی کا بنیادی کردار ہی یہی ہے کہ سالک کو اس کی منازل طے کروانا۔ جب ماں بچے پر سختی کرے تو باپ حائل ہو جائے اور جب باپ سختی کرنا چاہے تو ماں حائل ہو جائے تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اور کچھ بھی ہو بچے کے والدین میں اتفاق نہیں اور ناپائیدار بنیاد کبھی بھی پائیدار عمارت کی ضمانت نہیں ہوسکتی۔ 

آپ کبھی نوٹ کریں، جس بچے کو آپ بگڑا ہوا کہیں گے، یہ وہی ہوگا کہ جو غلط کام کر کے اپنی ماں کے آنچل میں پناہ لے گا۔ جس کی ماں اس کی غلط حرکت پر گرفت کرنے والی ہوگی وہ پہلے تو کبھی جرات کے ساتھ غلط حرکت کی طرف آمادہ نہیں ہوگا اور اگر غلطی ہوگی بھی تو ماں کے علم میں آںے سے پہلے پہلے اس کے ازالے کی کوئی صورت نکالنا چاہے گا۔ 

جس طرح شاعر اپنے فن کے ثبوت میں کلام پیش کرتا ہے، جس طرح معمار اپنے فن کے ثبوت میں عمارت اور جس طرح جواہری اپنے فن کی نمائش کے لئے تراشا ہوا ہیرا پیش کرتا ہے اسی طرح جب بات والدین کے سر پر آتی ہے تو نری باتوں سے کام نہیں چلتا، ان کی اولاد ہی ان کی جملہ خوبیوں و خامیوں کو عملی نمونہ ہوتی ہے۔ بہت ہی شاذ و نادر ہوگا کہ کوئی مستثنہ صورت ہو۔ 


ہم بطورِ معاشرہ اجتماعیت سے انفرادیت کی طرف گامزن ہیں۔ انفرادیت کے فوائد پر تو ہم سب کی نظر ہے لیکن اس کے جملہ نقصانات پر ہم اس کبوتر کی طرح آنکھیں بند کیئے بیٹھے ہیں کہ جو بلی کو آتا دیکھ آنکھیں میچ لیتا ہے کہ گویا موجود ہی نہ ہو۔ آنے والا وقت کسی طور بہتری کا نہیں کیونکہ جس انداز سے ہم نے مستقبل کے معماروں کو تیار کیا ہے اور جس ڈھب پر ان کی پرورش جاری ہے، بہت زیادہ امید رکھنا حماقت ہے۔