Saturday, February 14, 2015

اٹھائیس کتے


آج ھمارے معاشرے میں جتنا ایک درمیانے طبقے کا استحصال ہو رہا ہے اتنا تو شاید غریب کا بھی نہیں۔ جی ھاں اور اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ درمیانے طبقے کے انسان کو دوہری اذیت کا سامنا ہے کہ وہ چکی کے دونوں پاٹوں کے درمیان پِس رہا ہے۔ متوسط طبقے کی ٹانگ ایک تو غریب آدمی کھینچ رہا ہے اور دوسرا امیر اسے اپنے برابر آنے سے روکنے کی ہر ممکن سعی کرتا ہے۔ اور انہی دو انتہاؤں کے درمیان "سعی" کرتے ایک متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والا آدمی حسرت و یاس کی تصویر بنا رہتا ہے۔

حاکم "شریف" ہوں تو عمومی تأثر یہی ہے کہ معیشت ترقی کی منازل تیزی سے طے کرتی ہے لیکن یہ بات کوئی نوٹ نہیں کرتا کہ ترقی کی منازل طے کرنے والے "لفٹ" کو اختیار کرتے ہیں، جو احباب محنت و مشقت کے راستے کا انتخاب کرتے ہیں، ان کے لئے ترقی ایک ایسا زینہ ثابت ہوتی ہے کہ جس کا زاویہ وہی ھوتا ہے جو حکمرانوں کی گردن میں ڈلے سریے کا، یعنی کہ 180 ڈگری۔ سیڑھی چڑھ گئے تو خوش نصیب وگرنہ دھڑام سے نیچے۔ سو، فی زمانہ لوگ سیڑھی چڑھنے سے زیادہ اسے تھامے رکھنے کے کلیے پر کار بند ہیں۔

انسان کے اندر مالک نے خیر و شر، دونوں ہی صلاحیتیں رکھی ہیں اور ان دونوں صلاحیتوں کا نظارہ انسان اپنی ذات پر بھی دیکھ سکتا ہے اور اپنے گرد و نواح میں بھی۔ آدمی آدمی کے لئے پیامِ رحمت بھی ہے اور سراپائے زحمت بھی۔ ستم ظریفی ہی کہیئے کہ آج کل رحمت کا پیامبر وہی معلوم ہوتا ہے کہ جس کا آپ سے مفاد وابستہ ہے۔ 

کاروبار کی بات کریں تو یہ "مشترکہ مفاد" کہلاتا ہے لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑھتا ہے کہ ھمارے معاشرے میں مفاد کی ایک تعریف دوسرے کا نقصان بھی ہے۔ اور اس مذموم کردار کو بعض اوقات ایک انسان، بعض اوقات ایک مخصوص گروہ اور بعض اوقات ادارے منظم طور پر نبھا رہے ہوتے ہیں۔

کسی بھی چھوٹے بڑے کارخانے کی بنیاد رکھنا چاہیں تو سب سے پہلے "نقشہ جات" والے دھر لیتے ہیں ۔ ۔ ۔

"جی سرکار کے لحاظ سے تو لاکھوں روپے کا ٹیکس بنتا ہے"
"ارے بھئی، اتنے کی تو جگہ بھی نہیں ۔ ۔ "

"چلیں، آپ شریف معلوم ہوتے ہیں، آپ کا کام 50 میں کر دیتے ہیں"
"اتنے زیادہ؟"

"جناب، یہ صرف آپ کے لئے ہیں، صاحب تو لاکھ سے کم بات ہی نہیں کرتے، مجھے ہی پتہ ہے کہ کیسے قائل کروں گا"

۔ ۔ ۔ ۔

اور اس کے ساتھ ہی سارے ناجائز و غیر قانونی کام، جائز ھو جاتے ہیں۔


آگے بڑھیئے، یونین کونسل، ٹی ایم اے اور پراپرٹی ٹیکس والے بھر پور استقبال کرتے ہیں۔ عام کاروباری آدمی تو سال ھا سال یہ جاننے میں ہی لگا رہتا ہے کہ وہ ٹیکس کس چیز کا بھر رہا ہے۔ ان محکمہ جات کے صاحبان کچھ ذی شعور معلوم ہوتے ہیں وجہ یہ کہ ایک سرکاری پرچی کاٹ کر آپ کے حوالے کر جاتے ہیں تاکہ "سند رہے اور بہ وقتِ ضرورت کام آئے۔" اور پھر ان صاحبان کی "خدمت" تو ہے ہی آپ کا فریضہ۔

لیبر ڈیپارٹمنٹ اور سوشل سیکیورٹی ڈیپارٹمنٹ (در حقیقت یہ وہ دو ادارے ہیں کہ جن سے لیبر کچھ حد تک مستفید ہو رہی ہے، چاہے دیر سے ہی سہی) والے حضرات جب بھی آپ سے ملیں گے تو آپ اپنے آپ کو ایک وڈیرہ محسوس کرنے لگیں گے، ایک ایسا وڈیرہ جو اپنے ذمی پر جابر حاکم کی طرح مسلط ہے۔ فیکڑی چاہے درمیانے حجم پر کام کرے، چاہے ایک کثیر حجم پر، ان کی تمام مندرجات کوئی پورا نہ کرسکا ہے نہ کبھی کرسکے گا لہٰذا لیبر کے حقوق کے لئے اور اپنی بچت کے لئے سرکاری و "غیر سرکاری" دونوں کھاتے بھرنے پڑیں گے۔ 

لوکل اخبارات کے نمائندگان خود سے کوئی نہ کوئی اشتہار چھاپ کر رقم بٹورنے کے چکر میں رہیں گے۔

کبھی عید کے عید تو کبھی نئے سال کے آغاز پر
کبھی 14 اگست پر تو کبھی 6 ستمبر پر

غرض ہر کوئی آن موجود ہوگا اپنی اپنی جیب گرم کرنے کے لئے اور یہ ان کے لئے قطعی ضروری نہیں، یہ تو فیکٹری کی مشہوری ہے۔ اور ایسے اشتہار اس اخبار کے بیچ والے صفحہ پر ہوتے ہیں کہ جس کے فرنٹ پیج کو بھی کوئی پڑھنا گوارا نہیں کرتا۔


ان سب سے بچ بچا کر آگے بڑھیئے، آپ کی "لیبر" آپ کو زچ کر رکھنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھے گی، کام چوری سے لے کر مال چوری تک تمام امور سر انجام دیتی پائی جائے گی۔ چوکیدار رکھیں گے تو اس کی چوکیداری کے لئے آپ کو خود چوکیدار بننا پڑے گا۔ اور مال چوری بھی وہ ہوگا کہ جس کی گنتی کوئی خاص نہیں ہوتی، جیسا کہ سکریپ وغیرہ۔ اگر کوئی پکڑا بھی گیا تو اللّه رسول کا واسطہ، قسم قرآن سب حاضر مگر مال جو کھا لیا، اس کی تو بات ہی مت کرو صاحب۔


جن ڈیلرز کو مال سپلائی کریں وہ اس دھن میں کہ کب کوئی ڈھیل ملے اور وہ بغیر گارنٹی کے مال کو گارنٹی شدہ ثابت کرکے آپ کے کھاتے ڈال دیں۔ آخر ان کا بھی تو حق بنتا ہے۔ 



یہ سب اور بہت کچھ، جب "بندہء مومن" کی نظر سے گزرتا ہے تو اس کی حسِ تقویٰ بیدار ہوتی ہے تو قوتِ فتویٰ کو حرکت میں لاتے ہوئے سب کچھ تہہ تیغ کرنے کے در پے ہو جاتا ہے۔ اور بات بھی کچھ حد تک صحیح ہے کیونکہ حدیث شریفہ کے مفہوم کے مطابق مسلمان نہ تو ظلم کرتا ہے اور نہ ہی ظلم سہتا ہے۔ لیکن ایمان کا کمزور درجہ بھی ایک حقیقت ہے اور عوام آج کل اسی پہ قناعت کیئے ہوئے ہیں۔

ایسے میں ایک دانا کا قول بہت شدت سے یاد آتا ہے:

"ایک فیکڑی مالک کے پیچھے 28 کتے ہوتے ہیں اور وہ اس پر تب تک نہیں بھونکتے جب تک ان کے منہ میں ہڈی موجود ہوتی ہے۔"




Saturday, February 7, 2015

دور کے "بہن بھائی"


پہلے زمانوں میں بہن بھائی بننے کے لئے ماں اور باپ دو شرائط ہوا کرتی تھیں اور اگر کوئی ایک "شرط" بھی پوری نہ ہوتی تو سوتیلے پن کا احساس عمر بھر رہتا۔ اور ایک آج کا زمانہ ہے کہ جب کچھ اور نہ بن سکے تو بہن بھائی بن گئے۔ آدم زاد کو ایک دوسرے سے نسبت تو ہے ہی لیکن ہر کوئی نسبت کو سمجھ سکے اور حل کرسکے، یہ ضروری نہیں۔

ہر رشتے کی طرح بھائیوں کی بھی اقسام ہوتی ہیں۔ کچھ بھائی صورتاً بھائی ہوتے ہیں، کچھ سیرتاً۔ کچھ کا تخلص بھائی ہوتا ہے اور کچھ کا لقب لیکن بہنیں سب ایک سی ہوتی ہیں، چونکہ بہنیں بیٹی کی طرح سراپا رحمت ہوتی ہیں اور رحمت کو مخصوص کرنا غیر مناسب ہے۔ 

مغرب نے اپنے معاشرتی اقدار کے خود ہی بخیئے ادھیڑ دیئے اور اس کے ملبے سے انکل، آنٹی اور کزن ہی بچے سکے، گو مزید دو رشتوں کو بھی پذیرائی بخشی گئی لیکن انہیں ہماری اقدار کے مطابق معیوب گردانا جاتا ہے۔ 

مصنوعی رشتوں میں بندھ کر اور مصنوعی جذبات کا عکاس ہو کر انسان بے حس ہوچکا ہے۔ کاغذی پھول خوشنما تو ھوسکتے ہیں، خوشبودار نہیں۔ اسی طرح مصنوعی جذبات چند لمحات کے لئے کسی کو اپنا گرویدہ تو بنا سکتے ہیں لیکن رشتے نبھانے کے لئے خلوص اور اعتماد جیسی بنیادیں درکار ہیں وگرنہ لمحاتی عہد و پیمان کوئی معنیٰ نہیں رکھتے۔ 

ھماری سب سے بڑی کوتاہی یہ ہے کہ ہم اسلامی سانچے میں ڈھلنا تو نہیں چاہتے لیکن اپنے ساتھ لیبل مذہب کا ہی لگوانا پسند کرتے ہیں۔ چونکہ ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں وہاں گو اسلام کے اصولوں پر عمل نہیں کیا جاتا لیکن اسلامی قوانین کو پسند ضرور کیا جاتا ہے (دوسروں کے لیے)۔ لہٰذا عوام کی اکثریت اس طرف راغب ہے کہ شارٹ کٹ طریقے سے دنیا اور دین دونوں کو ساتھ ساتھ لے کر چلا جائے، (میرا اس صورتحال پر تبصرہ تو ایک طرف) لیکن قرائن کی روشنی میں یہ ناممکن ہے اور معاشرے میں ابتری کی ایک بڑی وجہ ہماری یہی کج فہمی اور جہالت پسندی ہے۔


ھم ایک ایسے معاشرے کا حصہ ہیں کہ جو فرد کو اس کی انفرادی حیثیت میں عزت دینا روا نہیں رکھتا۔ کسی کی کاوش کو، محنت کو، محبت کو سراھنا ہم اپنی ہتک تصور کرتے ہیں اور اس معاملے میں حد درجہ کنجوس واقع ہوتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جب بھی کسی ایسے فورم پر دو انسان اکٹھے ہوتے ہیں کہ جن کا آپس میں کوئی پائیدار رشتہ نہیں تو وہ کسی نہ کسی مصنوعی رشتے کا سہارا لے کر آگے بڑھتے ہیں حالانکہ ایسے میں وہ ایک دوسرے کو سیڑھی کی طرح کی استعمال کر رہے ہوتے ہیں۔

مجھے منہ بولے رشتوں سے کوئی اعتراض نہیں کیونکہ نہ تو پانچوں انگلیاں برابر ہوتی ہیں اور نہ ہی دنیا بے لوث اور مخلص لوگوں سے خالی ہوئی ہے لیکن میرا سوال محض یہ ہے کہ ھم کسی فرد کو اس کی انفرادی حیثیت میں پذیرائی بخشنے سے کیوں کتراتے ہیں؟ کسی کے مخلص یا بے لوث ہونے کے لئے ہمارا منہ بولا بھائی/بہن ہونا ہی شرط کیوں ہے؟

پنجابی میں کہتے ہیں، 

"پتر کوکھ دا"
یعنی کسی کو بیٹا کہہ دینے سے وہ بیٹا ھو نہیں جاتا، بیٹا وہی ہے کہ جسے آپ نے خود جنا ہے۔

ہر کسی کو ایک ہی ترازو میں تولنا مناسب نہیں لیکن ہمارے مخلوط نظام تعلیم میں اور دیگر دفتری معاملات میں جہاں قدرے آزادی حاصل ہے وہاں نوجوان بہن بھائی کے مقدس رشتے کو ڈھال کے طور پر بھی استعمال کرتے ہیں اور اس میں جنس کی کوئی قید نہیں۔ 

شومئی قسمت کہ دیگر شعبہ جات کی طرح، ان شعبہ جات میں کہ جہاں خواتین و حضرات کا اختلاط ہوتا ہے، ہماری رھنمائی کرنے والا کوئی نہیں۔ دین جو کہ ھمارے پاس ایک مضبوط و مربوط ضابطہ حیات ہے اس کو پڑھ کر سمجھنے اور سمجھ کر عمل کرنے کے لئے کوئی تیار نہیں۔ 

بہتری کے آثار تو کوئی خاص نظر نہیں آتے، گزرتے وقت کے ساتھ صورتحال مزید بگڑتی ہی جارہی ہے اور سنبھلے بھی کیوں، کوئی دوا کی، نہ دعا۔ دعا ہے کہ مالک ہم سب کو کھرے اور کھوٹے کی پہچان نصیب فرمائے۔ آمین