Saturday, December 27, 2014

شریکاں نوں اگ لگدی

"شریکاں نوں اگ لگدی"

کیا کہیئے گا اس لفظ کے بارے کہ جس کی ابتداء ہی "شر" سے ہو۔ یوں تو اور بھی الفاظ ہیں کہ جو "شر" سے شروع ہوتے ہیں خصوصاً شرافت تو ہے ہی "شر" اور "آفت" کا گٹھ جوڑ لیکن جس شر کی طرف توجہ مبذول کروانے کی جسارت کی اس کا شر، شرکت کے "شر" سے مستعار ہے۔ کہا جاسکتا ہے کہ جہاں شرکت ہوگی، شراکت ہوگی وہاں "شر" پیش پیش رہے گا۔ 

قصہ پہلے قتل ہونے والے بھائی کا ہو یا پھر مصر میں بکنے والے بھائی کا، شیطان کا انکار ہو یا یا پھر فرشتوں کی فریاد ہو، بات ہو ظالم فرعون کی یا مظلوم قومِ موسیٰ کی ۔ ۔ ۔ جہاں بھی بات شراکت کی ھوگی سمجھ لیجئے وہیں "شریکا" ہے۔ یہاں تک کہ مسلمانوں اور یہود و نصاریٰ کے درمیان بھی "شریکا" ہی ہے ہم مسلمان حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی نسل سے آنے والے پیغمبر کے امتی ہیں اور نصاریٰ حضرت اسحاق علیہ السلام کی اولاد سے مبعوث پیغمبر حضرتِ عیسیٰ علیہ السلام کے ماننے والے ۔ ۔ ۔

عموماً ہمارے ہاں "شریکے" سے مراد لی جاتی ہے ددھیال اور ننھیال کے قریبی رشتہ دار یعنی چچا، تایا، پھپھو، خالہ، ماموں اور ان کی اولادیں۔ یہ رشتہ دار جہاں انتہائی قریبی گِنے جاتے ہیں وہاں انتہائی فریبی بھی۔ جہاں ایک دوسرے کے بازو بنتے ہیں وہاں ایک دوسرے کے بازو کاٹتے بھی ہیں۔ جہاں ایک دوسرے کا دم بھرتے نظر آتے ہیں وہیں ایک دوسرے کی ناک میں دم کردینے میں بھی کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتے۔ 

یہ شکایت آج کل کے ہر دوسرے بڑے بزرگ کو ہے کہ بچے اپنے بڑوں کا ادب نہیں کرتے لیکن دیکھنے والی بات یہ ہے کہ ایسا تأثر ان میں کیوں پروان چڑھ رہا ہے؟ آپ کسی بھی خاندان کی مثال لے لیں: تایا پھپھو سے ناراض، پھپھو چچا سے خفا، ممانی کی خالہ سے ان بن وغیرہ وغیرہ۔ ایسے میں جب بھی کبھی کوئی خوشی کا موقع ھو تو سب کو ایک تقریب میں اکھٹا کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہی ہوتا ہے۔ عین تقریب کے وقت جو ناراض ہو جائیں انہیں "بڑی پھپھو" کہتے ہیں، جو صاحب دیگوں کی رکھوالی کا ذمہ سنبھال کر کہیں کہ "نئیں بوٹی تھوڑی کچی رہ گئی اے" وہ بڑے تایا ہوں گے اور جو ہر وقت منہ پھلائے رہیں گی وہ ممانی اور خالہ، وجہ جاننے کی کوشش میں ہلکان مت ہوں یہ وجوھات گھڑنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتیں۔ 


جب ہر پہر یہی باتیں ہوں کہ 
ان کا گھر ھمارے گھر سے بڑا ہے۔
ان کی گاڑی بڑی ہے۔
صوفے دیکھے؟
پینٹ پھر بدل لیا ہوگا؟
بھابھی کے کنگن تو کوئی چار ایک تولے کے لگ رہے تھے،
تو بچوں کے دلوں میں بغض و کینہ، دماغ میں اوچھے ہتھکنڈے اور زبان پہ زہر کیوں نہ ہو؟ ادب تو خاک ہو کر خاک بھی نہ آئے۔



اور اس جلتی پر تیل کا کام کرتا ہے ہمارا تعلیمی ماحول۔ ایک کزن کو دوسرے کا دشمن بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ اگر اس سے کم نمبر آئے تو آپ کا جینا حرام نہیں تو اس کا۔ تھوڑی سمجھ بوجھ آئے اور بچہ شادی کے قابل ہو تو نئے مسائل کہ خاندان میں شادی کرنی ہے یا نہیں؟ اور اگر کرنی ہے تو ددھیال میں کہ ننھیال میں؟ اور اگر ایسے میں کسی کے آئے ہوئے رشتے کو انکار ہوجائے تو بس جی بس! آپ ان کے لیے اور وہ آپ کے لیے مرگئے۔

یہ تمام احوال ہمارے اسی معاشرے کے رِستے ہوئے زخم ہیں اور ہر دوسرے گھر کی کہانی۔ 
کیا ہمارا پڑھا لکھا ہونا ہمیں یہی سکھاتا ہے؟
ھماری دینی تعلیمات اس بارے میں کیا رہنمائی کرتی ہیں؟
اخلاقیات کا کیا تقاضا ہے؟
کیا ہم دوسروں کے لیے بھی وہی پسند کرتے ہیں، جو خود اپنے لیے؟
حسد، کینہ اور بغض ہمارے لیے کسی خیر کا سامان ہوسکتے ہیں؟
کیا ہماری خود ساختہ انا ہماری اور ہمارے بچوں کی خوشیوں سے عزیز ہے؟

سوال بہت ہیں اور ان سب سوالوں کا جواب ہمیں جلد یا بہ دیر دینا ہی ہے۔ معاشرے میں جتنی نفرت ہم پھیلا چکے ہیں اس کا تدارک آج بھی شروع کریں تو شاید کہ آنے والی نسلیں اس ناسور سے چھٹکارا پاسکیں۔

Saturday, December 20, 2014

ماواں ٹھنڈیاں چھاواں

ماواں ٹھنڈیاں چھاواں


جملہ نیا نہیں، عنوان اچھوتا نہیں لیکن بات جب عظیم ہستی کی ہو تو اس کی مدح سرائی میں بھی چاہے کتنے ہی لب وا کیوں نہ ہوں، تشنگی باقی رہتی ہے۔ عموماً ھمارے ھاں کہا جاتا ہے کہ مائیں بچوں کو بگاڑ دیتی ہیں، اپنے قریبی اعزاءکے بچے دیکھ کر اس بات کا یقین بھی چار و ناچار کرنا ہی پڑتا ہے۔ ھاں، اگر ماں بچے کو بگاڑ سکتی ہے تو اور کون ہے جو اسے سنوارے؟ حقیقت تو یہ ہے کہ بیٹا زمانے کا ولی ہی کیوں نہ ہو، ماں کی قدموں کی خاک اس کے لیے خاکِ شفا ہی قرار پاتی ہے۔

بچے کی اچھی تربیت کے لیے ماں کا پڑھا لکھا ہونا ضروری نہیں ھاں مگر اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ ہونا ضروری ہے۔ آج کل کے دور میں تربیت کے فرائض تو ٹی-وی، ڈش، انٹرنیٹ اور کیبل وغیرہ نے سنبھال لیے ہیں اور اس کی قیمت معاشرہ بحیثت مجموعی اور ہم سب اپنے اپنے ماحول میں انفرادی طور پر ادا کر رہے ہیں۔ یاد رہے کہ کیبل کا 250 اس کے علاوہ ہے۔ 

بچے کی مثال پودے کی سی ہے اور پودا تب ہی پھلتا پھولتا ہے کہ جب اس کی کانٹ چھانٹ مناسب وقت پر، بھلے انداز میں کی جاتی رہے۔ پودا موسم کی سختی جھیلے گا تو ہی پھل کا وزن برداشت کرنے کے قابل ہوگا۔ یہ حقیقت ہے کہ ہمارے ہاں صلاحیت و قابلیت کی فراوانی ہے اور اس کے دو ہی راز ہیں، ایک ماں کی دعا اور دوسرا "آلاتِ آہ و بکا" مثلاً چپل، وائپر اور ہینگر وغیرہ۔

ھماری والدہ محترمہ نے اپنے زمانے میں "این-سی-سی" کی ٹریننگ میں سارے ہی نمبر اپنے نام کیے، جس کا ثبوت وہ اپنی بابرکت چپل سے ھماری کمر پر اکثر 
ثبت فرمایا کرتی ہیں، یعنی مجال ہے کہ کبھی نشانہ خطا ہو۔

یہ نہیں کہ بچہ پھسلتا نہیں، پھسلتا ہے۔ پودے کے ساتھ جڑی بوٹیاں تو ھوتی ہی ہیں لیکن ایک قابل مالی وہی ہے کہ جو بروقت ان جڑی بوٹیوں کو تلف کرے تاکہ پودے کی افزائش متاثر نہ ہو۔ ایسے میں "ابا حضور" کے فرمودات کھاد کا کام انجام دیتے ہیں اور ان کو پسِ پشت ڈالنا سراسر ناانصافی ہوگی لہٰذا ان کا تذکرہ مستقبل کی کسی تحریر پر موقوف ۔ ۔ ۔

والدین اپنی تمام عمر کی محنت کا ثمر اپنے بچوں کی شکل میں دیکھتے ہیں اور بے شک اللّه کسی کی محنت کو اکارت نہیں جانے دیتا۔ جو والدین اپنے بچوں پر حقیقی معنوں میں "سرمایہ کاری" کرتے ہیں ان کی اس محنت سے نہ صرف وہ خود بلکہ دنیا استفادہ کرتی ہے۔ اب اس پیڑ پہ آم لگے یا جامن یہ مالک کی تقدیر ہے اور وہی بہتر جاننے والا ہے۔

اختتام میاں محمد بخش صاحب کے ہر دلعزیز شعر سے

پیو سراں دے تاج محمد
تے ماواں ٹھنڈیاں چھاواں