"جاگ بنا دودھ جم دا ناہیں"
گذشتہ دنوں جناب اشفاق احمد صاحب کی برسی گزری، اللّه ان کی لحد پر رحمتوں اور
برکتوں کا نزول فرمائے، ایک منفرد انداز تحریر،دل و دماغ کو جھنجھوڑ دینے والے
ادیب۔ جن "بابوں" کا ذکر وہ کثرت سے کرتے ہیں، شاید ان میں سے ایک وہ
خود بھی ہوں۔ صحبت اور رفاقت کے وہ پیرائے کہ جن پر خواص بھی ناز کرتے ہیں، جن کے
بارے میں کہا گیا کہ ہزار سال کی عبادت سے بہتر ہیں، جو عشق کی معراج، جو طالب کی ریاضت کا ثمر اور وہ جو
کہ عشق کے بام پر پہنچا دیں، یہ سب "بابوں" کی ہی مرہونِ منت ہے۔
"ایں چیز؟"
یہ آواز ایک درویش کی تھی کہ جس نے مولانا روم کوچونکایا تھا، مولانا اپنے
معمول کے مطابق درس و تدریس میں مشغول تھے، خوض کے کنارے ایک طرف
طلبا تھے اور دوسری طرف ضحیم کتابوں کا انبار اور انہی نادر و نایاب کتب کی
طرف اشارہ کرکے درویش نے سوال داغا تھا۔
مولانا ایک پل کے لیے درویش کو دیکھا اور پھر گویا ہوئے
"ایں چیزِ قول و قال است، توں نہ دارد"
یہ وقول و قال کی باتیں ہیں، تم نہیں جانتے
یہ کہنے کی دیر تھی کہ درویش نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، ایک لمحے کی تاخیر کے
بغیر تمام کتابوں کو خوض میں دھکیل دیا۔ سب حیران و ششدر رہ گئے اور جوں
ہی حواس بحال ہوئے تو سب نے شور مچایا کہ یہ تو ظلم ڈھا دیا درویش نے ۔ ۔ ۔
یہ آواز ایک درویش کی تھی کہ جس نے مولانا روم کوچونکایا تھا، مولانا اپنے
معمول کے مطابق درس و تدریس میں مشغول تھے، خوض کے کنارے ایک طرف
طلبا تھے اور دوسری طرف ضحیم کتابوں کا انبار اور انہی نادر و نایاب کتب کی
طرف اشارہ کرکے درویش نے سوال داغا تھا۔
مولانا ایک پل کے لیے درویش کو دیکھا اور پھر گویا ہوئے
"ایں چیزِ قول و قال است، توں نہ دارد"
یہ وقول و قال کی باتیں ہیں، تم نہیں جانتے
یہ کہنے کی دیر تھی کہ درویش نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، ایک لمحے کی تاخیر کے
بغیر تمام کتابوں کو خوض میں دھکیل دیا۔ سب حیران و ششدر رہ گئے اور جوں
ہی حواس بحال ہوئے تو سب نے شور مچایا کہ یہ تو ظلم ڈھا دیا درویش نے ۔ ۔ ۔
درویش آگے بڑھا اور خوض میں داخل ہوگیا، ایک ایک کرکے تمام کتابیں اکٹھی کیں
اور خوض سے باہر آیا،
سب انگشت بدنداں رہ گئے، بجائے اس کے کہ کتابوں میں سے پانی ٹپکتا، اب بھی ان
میں سے گرد اٹھ رہی تھی، پانی کا ایک قطرہ بھی کتابوں پر نہ تھا ۔ ۔ ۔
یہ دیکھنا ہی تھا کہ مولانا روم چلا اٹھے
"ایں چیز"
درویش کہ جس کے اطمینان میں چنداں فرق نہ آیا تھا، گویا ہوئے
"ایں چیز حال است، توں نہ دارد"
یہ حال کی باتیں ہیں، جو تم نہیں جانتے
یہ سننا ہی تھا کہ مولانا روم اپنا منصب چھوڑ، اس درویش کے شاگرد ہو لیے۔ وہ دوریش، اللّه کے ولی کامل، شمس تبریز تھے۔ اس کے بعد جو فیض مولانا روم کو اپنے شیخ سے حاصل ہوا، مثنوی اس کا صرف ایک جلوہ ہے۔
ایک علم ظاہر ہے، ایک باطن۔ ایک علم موسیٰ علیہ السلام کے پاس تھا،
ایک حضر علیہ السلام کے پاس۔ دونوں برحق ہیں۔ ایک کتابی شکل میں موجود ہے، ایک
سینہ در سینہ منتقل ہوتا ہے۔ علم وہ بھی تھا جو مولانا روم پڑھا رہے تھے اور علم
وہ بھی تھا کہ جس کے تحت پانی کو نم کرنے کا اختیار نہیں۔ علم وہ بھی ہے کہ جس کو
احادیث کی شکل میں ترتیب دیا گیا اور "یا ساریا الجبل" بھی ایک علم ہے۔
میں سوچتا ہوں، پڑھے لکھے تو
ہم بھی کہلاتے ہیں لیکن کیسے پڑھے لکھے کہ ایک سال بعد وہی سبق یاد نہیں؟ یہ کیسا
علم ہے کہ مقروض ہوئے بغیر چارہ نہیں؟ یہ کیسا علم ہے کہ جس کے ماہرین آنے والے
خطرات کا اندازہ تو دور، ان سے بچاؤ کی تدابیر بھی نہیں کرسکتے؟ یہ کیسا علم ہے
کہ جس کے پڑھنے والے جب بات کریں تو حیوان شرمائیں؟ اور یہ کیسا علم ہے کہ جب قبر
میں اتریں تو ساتھ نہ جائے؟
کیا کچھ ایسا کرنے کی ضرورت
نہیں کہ جو بعد از مرگ، لحد میں بھی اتنا ہی مفید ہو جتنا کہ ظاہری حیاتی میں؟
شاید ہی کوئی نہ کرے لیکن اس کا آغاز کہاں سے ہوگا؟
صحبت ۔ ۔ ۔
جاگ
بنا دودھ جم دا ناہیں
پانوں
لال ہو وے کڑھ کڑھ کے