یہی بات مدینہ کے یہود نے مسلمانوں کو جتانا چاہی تو صحابہ کرام رضوان اللّه تعالیٰ علیھم اجمعین نے گویا زبان حال سے عرض کیا
صحابہ کو رسول اللّه صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم پر اور رسول اللّه صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کو اپنے مالک پر بھروسہ تھا۔ یہ توکل ہی تھا کہ حق کو باطل کا عظیم معرکہ نہ صرف برپا ہوا بلکہ اپنے تمام تر رعنائیوں کے ساتھ، اللّه کے فضل سے سر بھی ہوا۔
معلوم ہوا کہ پیشوا کو چاہیے کہ اپنے پیروکاروں کے جذبات کو اہمیت دے اور اہمیت دینے کے لئے ضروری ہے کہ ان پر مطلع ہو۔
جب آپ مال و اسباب سے نظر ہٹا کر اسباب پیدا فرمانے والے پر نظر کرتے ہیں تو وہ ایسی جگہ سے رزق آپ کا مقدر فرماتا ہے کہ آپ کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا۔
علم غیب مصطفیٰ ﷺ
جنگ سے پہلے رات میں مصطفیٰ کریم صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنے چند جانثاران کے ساتھ میدان جنگ کا معائنہ فرمایا، آپ کے دستِ اقدس میں ایک چھڑی تھی۔ آپ صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم اسی چھڑی کے ساتھ زمین پر لکیر بناتے اور فرماتے کہ فلاں بن فلاں یہاں مرتے، فلاں بن فلاں یہاں مرے، اسی طرح آپ صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم نے ستر نشانات لگائے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ اگلے دن جب مقتل سے کفار کی لاشیں اٹھائی گئیں تو ٹھیک ٹھیک انہی مقامات پر موجود تھیں کہ جہاں غیب دان نبی صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم نے نشاندہی فرمائی تھی۔
بے شک، اللّه کی عطا سے اللّه کے نبی کریم صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم علم غیب پر مطلع ہوتے ہیں اور حضور صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم نے توسط سے امت کے اولیاء بھی۔
رؤف نبی، رحیم نبی صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم
رات کے وقت اللّه تعالیٰ نے مسلمانوں پر ایک انعام یہ بھی فرمایا کہ ان پر گہری نیند طاری فرما دی تاکہ صبح تازہ دم ہوں اور یکسوئی سے دین کی خدمت کر سکیں۔ لیکن حضور صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم مقام عریش (وہ چھپر کہ جو صحابہ نے نبی کریم صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کے قیام کے لئے میدان بدر میں بنایا) پر جلوہ فرما تھے۔ آنکھیں مبارک نم، ہاتھ دعا کے لئے بلند اور لب ھائے مبارک پر اپنے رب سے ناز بھری دعائیں۔ "خداوند! تو نے مجھ سے جو وعدہ فرمایا ہے آج اسے پورا فرما دے۔" محویت اور رقت کا یہ عالم تھا کہ چادر مبارک دوش انور سے سرک جاتی۔
"الہٰی! اگر یہ چند نفوس ہلاگ ہوگئے تو پھر قیامت تک روئے زمین پر تیری عبادت کرنے والے نہ رہیں گے۔"
(سیرت ابن ہشام، جلد دوئم، صفحہ 627)
یار غار رضی اللّه تعالیٰ عنہ کہ جو حضور ﷺ کے پہرے پر مقرر تھے، حضور صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کی یہ کیفیت دیکھ کر بے قرار تھے، بالاخر آگے بڑھے اور عرض گزار ہوئے کہ حضور! اب بس کیجیئے خدا ضرور اپنا وعدہ پورا فرمائے گا۔ اپنے معتبر غلام و ساتھی کی ڈھارس سے آپ صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم نے دعا کا اختتام فرمایا اور آپ صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کی زبان اقدس پر اس آیہ مبارکہ کا ورد جاری ہوا
سیھزم الجمع و یولون الدبر (القمر، 45)
عنقریب (کفار کی) فوج کو شکست دے دی جائیگی اور وہ پیٹھ پھیر کر بھاگ جائیں گے۔
امتی بے خبر سو رہے تھے تو نبی کریم صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم ان کے لئے گڑگڑا کر دعا فرما رہے تھے، جب امتی پکار کر فریاد کرے گا تو حضور صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کا دریائے رحمت کتنا جوش میں آئے؟ کوئی اندازہ ہی نہیں!
حضور ﷺ کا عدل
حضور صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم اپنی چھڑی مبارک سے صفیں سیدھی فرما رہے ہیں کہ پہلی ہی صف میں موجود حضرت سواد انصاری رضی اللّه تعالیٰ عنہ کہ جن کا پیٹ صف سے کچھ باہر نکلا ہوا تھا۔ آپ نے اپنی چھڑی سے ان کے پیٹ پر ایک کونچا دے کر فرمایا کہ "استو یا سواد" (یعنی اے سواد سیدھے کھڑے ہو جاؤ)۔ حضرت سواد رضی اللّه تعالیٰ عنہ گویا ہوئے کہ یا رسول اللّه صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم آپ نے میرے پیٹ پر مارا ہے میں قصاص لینا چاہتا ہوں۔
تمام اصحاب ششدر رہ گئے کہ سامنے دشمن کھڑا ہے اور یہ کیسا جانثار ہے کہ اپنے آقا کریم صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم سے ہی قصاص مانگ رہا ہے، اس نبی سے کہ جو مؤمنین کی جانوں پر ان سے زیادہ حق رکھتے ہیں۔
بہرحال نبی کریم صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا آؤ، لے لو قصاص ۔ ۔ ۔ وہ آگے بڑھے کو حضور صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم نے شکم اطہر کو بے ساختہ بوسہ دینا شروع کر دیا اور حضور ﷺ کے ساتھ لپٹ گئے۔ حضور صلی الله علیہ وآلہٖ وسلم جو کہ غیب دان نبی ہیں اپنے صحابی کی حالت جانتے تھے لیکن امت کی تعلیم کے لئے پوچھا کہ اے سواد! تم نے ایسا کیونکر کیا؟ عرض گزار ہوئے کہ اے آقا! جنگ کا میدان سامنے ہے، میں صف میں اپنا سر ہتھیلی پر رکھ کر کھڑا ہوں شاید موت کا وقت آگیا ہو، اس وقت میرے دل میں اس تمنا نے جوش مارا کہ کاش! مرتے وقت میرا بدن آپ کے جسم اطہر سے چھو جائے۔
اپنے غلام کا یہ جذبہ دیکھ کر حضور صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم نے ان کے لئے خیر و برکت کی دعا فرمائی، حضرت سواد رضی اللّه تعالیٰ عنہ نے قصاص سے معذرت کی جبکہ دیگر اصحاب اس ادائے عاشقانہ پر واری جا رہے تھے۔
(سیرت ابن ہشام، جلد دوئم، صفحہ 626)
اور اس امت کا فرعون مارا گیا
غزوہ بدر میں اصحاب رسول رضوان اللّه تعالیٰ علیھم اجمعین کی جانبازیاں ذکر کرنے پر آئیں تو یہ اپنے آپ ایک الگ ہی داستان ہے۔ کیسے فرشتوں کی مدد مسلمانوں کے شامل حال رہی اور کیسے صحابہ کرام رضوان اللّه تعالیٰ علیھم اجمعین نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیئے یہ سب تاریخ کے ابواب میں سنہری حروف سے درج ہے۔ یہاں چونکہ محض غزوۂ بدر سے اسباق اخذ کرنا مقصود ہے سو صرف ایک واقعہ پیش خدمت ہے۔
دو انصاری نوجوان، معاذ اور معوذ رضی اللّه تعالیٰ عنھم صف میں جناب عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللّه تعالیٰ عنہ کے ساتھ کچھ اس طرح سے کھڑے ہیں کہ ایک دائیں اور ایک بائیں جانب۔ دریافت کیا، چچا جان! کیا آپ ابوجہل کو جانتے ہیں؟ میدانِ جنگ میں عین جنگ کے دوران، یہ سوال صحابی رسول عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللّه تعالیٰ عنہ کے لئے چونکا دینے والا تھا، آپ نے اس نوجوان سے تجسس بھرے انداز میں دریافت فرمایا: تمہیں اس سے کیا کام ہے؟ جواب دیا: چچا جان! میں نے خدا سے یہ عہد کیا ہے کہ میں ابوجہل کو جہاں دیکھ لوں گا یا تو اس کو قتل کر دوں گا یا خود لڑتا ہوا مارا جاؤں گا کیونکہ وہ اللّه کے رسول صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کا بہت ہی بڑا دشمن ہے۔ یہ گفتگو جاری تھی کہ سامنے کفار کے لشکر میں ابوجہل نمودار ہوا، عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللّه تعالیٰ عنہ چونکہ ان دونوں جوانوں کے جذبے سے متاثر ہو چکے تھے سو ابوجہل کی طرف اشارہ کیا۔
اشارہ کرنے کی دیر ہی تھی کہ دونوں عقاب کی طرح اپنے شکار پر جھپٹے اور اسے چیڑ پھاڑ کر رکھ دیا۔ دونوں نے اپنی کامیابی کا اعلان حضور صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کی بارگاہ میں کیا اور دونوں کا یہی دعویٰ تھا کہ انہوں نے ابوجہل کو قتل کیا ہے۔ حضور صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم نے دونوں کی تلواریں ملاحظہ فرمائیں چونکہ دونوں کی تلواروں پر خون موجود تھا سو دونوں ہی کے حق میں یہ اعلان فرمایا کہ تم دونوں ہی ابوجہل کے قاتل ہو۔ حبیب خدا صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کے لب سے اپنی کامیابی کا چرچا سن لینے کے بعد دونوں دوبارہ جنگ میں شریک ہوئے، حضرت معوذ رضی اللّه تعالیٰ عنہ شہید کر دیئے گئے جبکہ حضرت معاذ رضی اللّه تعالیٰ عنہ نے اپنے ایک ہاتھ کا نذرانہ میدان بدر میں پیش کیا اور دیگر غزوات میں ایک ہاتھ کے ساتھ ہی اسلام کا اور پیمبر اسلام کا دفاع کرتے نظر آئے۔
جنگ ختم ہونے کے بعد جب نبی کریم صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم حضرت عبد اللّه بن مسعود رضی اللّه تعالیٰ عنہ کو ساتھ لے کر ابوجہل کی لاش کے پاس سے گزرے تو لاش کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ابوجہل اس زمانے کا "فرعون" ہے۔ پھر عبد اللّه بن مسعود رضی اللّه تعالیٰ عنہ نے ابوجہل کا سر کاٹ کر تاجدار دو عالم صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کے قدموں میں ڈال دیا۔ (صحیح بخاری، کتاب المغازی، باب 10، الحدیث 3988)
بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہوگئی کہ نبی کریم صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کی ناموس کے تحفظ کے لئے جان لینی پڑے یا جان دینی پڑے دونوں ہی سے گریز نہیں کرنا چاہیے۔ اور جو جتنا بڑا نبی کریم صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کے خلاف ہوگا اس کے خلاف اتنی ہی شد و مد سے جہاد کیا جائے گا۔
کفار بھاگ کھڑے ہوئے
جب کفار نے دیکھا کہ ان کے نامی گرامی سردار اور جنگجو مارے جا چکے ہیں اور مسلمان غالب آ رہے ہیں تو ان انہوں نے میدان جنگ سے بھاگنا شروع کر دیا۔ مسلمانوں نے ان میں سے کچھ کو قتل اور کچھ کو قیدی بنایا۔ 70 کفار قتل کیے گئے اور اتنے ہی قیدی بنا لیے گئے۔
حالت جنگ ہو یا حالت امن، عوام ہمیشہ اپنے پیشوا کی طرف دیکھتی ہے، اگر وہاں سے امید کی کوئی رمق نظر آئے تب ہی عوام بھی حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کرتی ورنہ ذلت اور پسپائی ہی مقدر ٹھہرتی ہے۔
کفار کی لاشوں سے خطاب
جب کفار کی لاشیں بدر کے ایک گڑھے میں پھینک دی گئی تو آپ صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم نے گڑھے کے کنارے کھڑے ہو کر مقتولین کا نام لے لے کر انہوں پکار کر کہا، کیا تم لوگوں نے اپنے رب کے وعدہ کا سچا پایا؟ ہم نے تو اپنے رب کے وعدہ کو بالکل سچا پایا۔ حضرت عمر فاروق رضی اللّه تعالیٰ عنہ نے جب دیکھا کہ حضور صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کفار کی لاشوں سے خطاب فرما رہے ہیں تو ان کو بڑا تعجب ہوا (کیونکہ نبی کریم صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کا مبارک اسوہ ان کے سامنے تھا اور وہ جانتے تھے کہ حضور صلی اللّٗه علیہ وآلہٖ وسلم نہ کوئی لغو کام کرتے ہیں اور نہ کوئی لغو کلام فرماتے ہیں)۔ چنانچہ عرض کیا کہ یا رسول اللّه صلی اللّه علیك وسلم! کیا آپ ان بے روح کے جسموں سے کلام فرما رہے ہیں؟ یہ سن کر حضور صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اے عمر! قسم خدا کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے کہ تم (زندہ لوگ) میری بات کو ان سے زیادہ نہیں سن سکتے لیکن اتنی بات ہے کہ یہ مردے جواب نہیں دے سکتے۔
(صحیح بخاری، کتاب المغازی، باب قتل ابی جھل، الحدیث: 3976)
پتہ چلا کہ جب کفار مرنے کے بعد اللّه کے حکم سے کلام سنتے ہیں تو مسلمان اور بالخصوص اولیائے کرام تو بدرجۂ اولیٰ کلام سن سکتے، ہاں ہم ان کے کلام کو سننے پر قدرت نہیں رکھتے۔
غزوۂ بدر کے معرکہ کے بعد قیدیوں سے مسلمانوں کا حسن سلوک، ان کا فدیہ اور دیگر معاملات اپنے اندر ایک انوکھی ہی داستان رکھتے ہیں لیکن یہ ناچیز اس واقعے کو یہی سمیٹتا ہے۔ جو جو سبق ہمیں حضور صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کے مبارک اسوہ اور حضور صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کے غلاموں کے اسوہ سے ملے ہیں، اللّه ان کی تعظیم کرنے اور ان پر عمل کرنے
کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین