Sunday, March 11, 2018

مجاں مجاں دیاں پیناں

عملی زندگی میں قدم رکھتے ہی چند اسباق جو سیکھے تھے انہی میں سے ایک یہ سبق بھی تھا کہ 

"مَجّاں مَجّاں دِیاں پَیناں ہُندیاں نیں" 

یعنی ایک ہی شعبہ سے تعلق رکھنے والے افراد ایک دوسرے کا درد رکھتے ہیں چاہے وہ خود ایک دوسرے کے مقابل ہی کیوں نہ ہوں۔ خاص طور پر تب جب کسی دوسرے شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والا فرد ان کی راہ میں حائل ہو۔ 

اس کی مثال یوں سمجھیئے کہ ایک کارخانہ میں دو ملازم، یوں تو ایک دوسرے سے مقابلہ کریں گے۔ چاہے وہ ہنر میں، پھرتی میں ہو یا پھر زبانی جمع خرچ ہی کیوں نہ ہو لیکن جب وہ اسی کارخانے کی انتظامیہ کے روبرو ہوں گے تو یک زبان ہوں گے کہ اسی کو وہ اپنا مشترکہ مفاد تصور کریں گے۔ یہ مشترکہ مفاد ہی ہے کہ جو دو مقابل افراد کو یک جان کر دیتا ہے لیکن اس معاملے کو تحریک دینے کے لئے بیرونی مداخلت ضروری ہے۔ جب تک کوئی بیرونی عنصر اپنا کردار ادا نہ کرے "مشترکہ مفاد" پسِ پشت ہی پڑے رہتے ہیں لیکن مداخلت ہو چکے تو اب حالات مختلف ہوں گے۔

اب جب آپ یہ سب سمجھ چکے تو آپ کے لئے یہ جاننا آسان ہے کہ منہ کالا تو خواجہ آصف کا ہوا اور جوتا تو نا اھل نواز کو پڑا لیکن سب سیاہ-ست-دان کیوں بلبلا اٹھے۔ جی ہاں، وجہ یہی ہے کہ ایک تو مشترکہ مفادات زد میں ہیں اور دوسرا مداخلت بیرونی ہے۔ 

یہی سیاستدان جب ایک دوسرے کو ننگا کرتے ہیں، گالم گلوچ کرتے ہیں، الٹا لٹکاتے ہیں، سڑکوں پر گھسیٹے ہیں، ایک دوسرے کی بہن بیٹی کو موضوع سخن ٹھہراتے ہیں، ملک فروش اور ضمیر فروش ہونے کا تمغہ دیتے ہیں اور حد تو یہ کہ اسلام ہی سے بے دخل کر دیتے ہیں تب ان کو اپنے شعبے کے تقدس کا خیال کیوں نہیں رہتا؟ صرف اور صرف اس لئے کہ یہ اس روش کے پیروکار ہیں جس میں بڑا ہونے کا دوسرا نام مقابل کو چھوٹا کرنا ہے۔ 

معاملہ واضح ہے، ایک ہی جگہ سے چارہ کھانے والے دو جانور باہم "دست و گریباں" ہی رہیں گے جب تک چرواہا ہنٹر نہ لے آئے کیونکہ مجاں مجاں دیاں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

Friday, October 13, 2017

کیا ختم نبوت کے معاملے میں ہم نے اپنی ذمہ داری ادا کر دی؟

طاغوتی طاقتوں نے جب یہ دیکھا کہ مسلمان زیر ہونے کے بعد دوبارہ اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں تو یہ کھوج لگانے نکلے کہ کونسی ایسی چیز ہے جو انہیں زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ مسلمانوں پر بدترین دن بھی آئے، ان کی کھوپڑیوں کے مینار بنائے گئے، ان کی عزتوں کے تقدس کو پامال کیا گیا، ان کی جائیدادیں لوٹی گئیں، ان کے بچوں کو ان کی آنکھوں کے سامنے کاٹا اور جلایا گیا اور یہ زمین ہر طرح سے ان پر تنگ کر دی گئی لیکن یہ پھر اپنے پاؤں پر کھڑے ہوگئے۔ آخر کیسے؟ برصغیر پاک و ہند پر قبضے کے بعد انگریز کو سب سے زیادہ خطرہ مسلمان ہی سے تھا کیونکہ ہندو تو پہلے بھی غلام تھے، ان کا صرف آقا بدلا تھا لیکن مسلمان سے حکومت چھینی تھی اور اس کی تاریخ بھی روشن سو اس سے نمٹنے کے لئے لائحہ عمل ترتیب دیا جانے لگا۔ برطانوی نو آبادیاتی وزارت اس مشن پر سرگرم ہوئی تو اسے چار چیزیں ملیں کہ جو مسلمانوں کو مٹنے نہیں دیتیں۔

حج
جہاد
حب نبی صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم
قرآن

ان چاروں بنیادی ستونوں کو کہ جو مسلمانوں کے ایمان کا بنیادی جز ہیں کھوکھلا کرنے کی کوشش کی گئی۔ حج اور جہاد کو کمزور کرنے کے لئے دو "کذاب" یعنی جھوٹے نبی کھڑے کئے گئے۔ ایران میں "بہاء اللّه" جس نے خانۂ خدا کا دوسرا ماڈل بنا ڈالا اور کہا کہ اتنا خرچ کرنے کی کیا ضرورت ہے، رکن یہیں ادا کرو اور رقم مسلمانوں کی فلاح پر خرچ کرو۔ اور دوسری طرف ہند میں مرزا غلام احمد قادیانی کو کھڑا کیا گیا، جس کی بنیادی ذمہ داری یہ تھی کہ جو جہاد کے خلاف کام کرے۔ اور ہند میں جہاد کے خلاف کام کرنے کی ضرورت انگریز نے اس لئے بھی محسوس کی کہ 1857 کی جنگ آزادی جو کہ گو "ناکام" رہی، لیکن اس کے بنیادی محرکات میں علمائے کرام کے وہ فتوے شامل تھے جو انہوں نے جہاد کے حق میں دیئے تھے۔ اور مرزا ملعون نے اپنا سونپا ہوا کام جانفشانی سے کیا، اس کا خود کا کہنا ہے کہ میں نے جہاد کے خلاف اتنا مواد لکھا ہے کہ اس سے پچاس الماریاں بھر جائیں۔ 

یہاں پر ایک نکتہ یہ بھی قابلِ غور ہے کہ ہمارے نبی کریم صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کے فرمانِ عالیشان کے مطابق کل تیس (30) کذاب ہوں گے جن میں سے کافی گزر چکے لیکن ان میں سے کسی ایک کی بھی ذریت باقی نہیں۔ اگر کسی کذاب کی کوئی "امت" یعنی پیروکار باقی ہیں تو وہ یا تو "مرزائی" ہیں یا "بہائی"۔ جس کی محض وجہ یہ ہے کہ یہ انگریز کی سرمایہ کاری کے نتیجے میں منظر پر آئے اور ان دونوں ملعونوں کے جہنم واصل ہونے کے بعد بھی انگریز نے اپنی سرمایہ کاری کو ڈوبنے نہیں دیا۔ اب بھی مرزائیوں کو اگر کہیں پناہ ملتی ہے تو وہ اسرائیل میں۔ 

یہ تو تھے پہلے دو بنیادی ستون کے جن پر انگریز نے کام کیا اور درحقیقت انہی کے ذریعے سے اس نے باقی دو یعنی حب نبی صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم اور قرآنِ عظیم پر بھی وار کیا لیکن اس کے علاوہ حب نبی صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم اور قرآن کا باقاعدہ حدف بنا کر مزید فرقے بھی قائم کیے کہ جن کا مقصد نبی کریم صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کی ذات گرامی کو نعوذ باللّه متنازعہ بنانا اور قرآن کی مرکزیت کو ختم کرنا تھا۔ محدث دہلوی، علامہ عبد الحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ اپنی کتاب منہاج النبوہ میں تحریر فرماتے ہیں کہ (مفہوم) مسلمانوں میں مختلف عنوانات پر اختلافات موجود ہیں لیکن الحمد اللّه نبی کریم صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کی حیاتِ طیبہ پر کوئی اختلاف نہیں۔ اور یہ وہ شخصیت ہیں کہ جو تمام مسلمانوں میں مقبول ہیں چاہے وہ کسی بھی فرقے سے تعلق رکھتے ہوں۔ اور یہ اپنے وقت کے جید اور صاحب نظر بزرگ تھے۔ تو گویا محدث دہلوی کے مبارک زمانے کے بعد وہ دور آیا کہ نبی کریم صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کی ذات مبارکہ کو متنازعہ بنانے کی مزموم کوشش کی گئی۔

وہ عقائد کے جو مسلمانوں کے مسلمہ عقائد تھے،حیات نبی صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم، علم نبی صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم، اختیار نبی صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم، وسیلہء نبی صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم اور شفاعتِ نبی صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم وغیرہ ان کو متنازعہ بنایا گیا اور متنازعہ بنانے کی بنیاد قرآن مجید کی من گھڑت تشریح اور تحریف شدہ ترجمے کو بنایا گیا۔ اب بتائیے کہ جب ذاتِ گرامی، ذات عالی مرتب صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم سے تعلق کمزور ہوگا اور قرآن جو کہ اللّه کی لٹکتی ہوئی رسی ہے اس سے تعلق کمزور ہوگا تو کس کے مقاصد پورے ہوں گے؟ کس کی سرمایہ کاری رنگ لائے گی؟

پاکستان، مدینہء ثانی آج تمام قوتوں کو اسی لئے کھٹکتا ہے کہ یہ ان تمام کے مزموم مقاصد کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ اس کی فوج کا نعرہ "جہاد فی سبیل اللّه" ہے اور یہ وہ سرزمین ہے کہ جہاں سے سرورِ عالم کو ٹھنڈی ہوا آتی تھی اور یہ وہ سرزمین ہے کہ جہاں سب سے زیادہ حفاظ موجود ہیں اور یہ وہ سرزمین ہے کہ جہاں سب سے زیادہ حجاج ہیں۔ اور یہ وہ سرزمین ہے کہ جو "لا اله الا اللّه" کے نام پر حاصل کی گئی۔ پاکستان کی بد قسمتی کہ اس کا پہلے وزیر خارجہ قادیانی تھا، سر ظفر اللّه اور یہ بد قسمتی اب بھی کسی نہ کسی شکل میں قائم ہے کہ ختم نبوت کے خلاف سازشیں ہو رہی ہیں لیکن تاجدارِ ختم نبوت کے پروانے بیدار ہیں اور سر دھڑ کی بازی لگانے کے لئے بے قرار ہیں۔ کیونکہ پاکستان بننے کے بعد 53 اور 74 کی ختم نبوت کی تحریکوں میں دس ہزار شہداء کا خون ہم سے سوال کرتا ہے کہ تم نے اپنی ذمہ داری ادا کی؟ یہ سوال میرا بھی ہے، کیا ہم نے اپنی ذمہ داری ادا کر دی؟

Friday, October 6, 2017

کھلا خط بنام وزیر داخلہ جناب احسن اقبال صاحب

سلام مسنون!

آج قومی اسمبلی میں آپ کی تقریر سنی، یقیناً آپ خیریت سے ہی ہوں گے البتہ قوم کی خیریت اور خوشحالی کے لئے دعاگو ہوں۔ الیکشن لڑنے کے لئے حلف نامے میں ختم نبوت سے متعلقہ ترمیم پر آپ نے کہا کہ ختم نبوت پر حلف اٹھانے والوں پر انگلی اٹھانے کا اختیار کسی کے پاس نہیں۔ درست فرمایا، جب تک ختم نبوت پر منتخب نمائندگان پہرہ دیتے رہیں گے تو ان پر انگلی اٹھانے کا اختیار کسی کے پاس نہیں لیکن جب وہی منتخب نمائندگان اسی حلف نامے میں مجرمانہ ترمیم کرتے ہوئے پائے جائیں اور پہلے اسے ماننے سے انکار کریں اور بعد میں اسے اصل حالت میں واپس بحال کرنے پر کریڈٹ لینا چاہیں تو انگلی تو اٹھانا بنتی ہے۔ سوال تو اٹھتا ہے کہ اس گھناؤنی سازش کے پیچھے کونسے ہاتھ ملوث تھے؟ سوال تو اٹھتا ہے کہ حلف نامے میں "میں قسمیہ حلف لیتا ہوں" کے الفاظ اتنی بھاری کیوں ہوگئے کہ ان میں ترمیم کرنا پڑی؟ سوال تو اٹھتا ہے کہ وزیر اعلیٰ شہباز شریف کے مطالبے کے باوجود اب تک وزیر قانون اور وزارتِ قانون کے ذمہ داران کے خلاف کاروائی کیوں نہ ہوسکی؟

آپ نے مزید فرمایا کہ کسی محلے کے مولوی کو یہ اختیار نہیں کہ وہ کسی کے ایمان اور کفر پر فتوے دے، "یہ معاملہ اللّه تعالیٰ کا ہے جنہوں نے جنت اور جہنم کا فیصلہ کرنا ہے، یہ ہمارا کام نہیں ہے، ہمیں اللّه تعالیٰ کے کام اپنے ہاتھ میں نہیں لینے چاہیں"۔ آپ سے نا چیز کا سوال ہے کہ اگر "محلے کے مولوی" کو یہ اختیار نہیں کہ وہ فتویٰ دے سکے تو پھر فتویٰ دینے کا اختیار آخر ہے کس کے پاس؟ میں آپ کے بیان کے اس جُز سے اتفاق کرتا ہوں کہ "یہ ہمارا کام نہیں" سو فیصد متفق، یہ آپ کا کام نہیں ہے۔ یہ انہی حضرات کا کام ہے کہ جنہوں نے اپنی ساری زندگی "قال اللّه تعالیٰ و قال قال رسول اللّه" پڑھتے پڑھاتے گزار دی۔ جنت اور جنہم کا فیصلہ بے شک اللّه نے ہی فرمانا ہے لیکن اسی مالک کا فرمان ہے، "وقل جآء الحق و زھق الباطل ان الباطل کان زھوقا" (بنی اسرائیل، 81) اور تم فرماؤ کہ حق آیا اور باطل مٹ گیا، بے شک باطل کو مٹنا ہی تھا۔ جب حق بھی واضح ہے اور باطل بھی واضح ہے تو "دارالافتاء" کسی بھی مسٔولہ صورت میں تمام حقائق کو سامنے رکھ کر "فتوی" جاری کرے گا، یہی اس کا کام ہے۔ نیز یہ کہ منتخب ایوانوں میں نمائندگان کی حالت ہم سب کے سامنے ہے کہ سورۂ اخلاص کی تلاوت کرنا پڑ جائے تو جان کے لالے پڑ جاتے ہیں، ایسے میں وہ نمائندگان دین کی روح کے مطابق اس کی تشریح کیسے کر سکیں گے؟

یاد رہے! یہی وہ محلے کا مولوی ہے کہ جس نے آپ کے پیدا ہونے پر آپ کے کان میں آذان کہی، یہی وہ مولوی ہے کہ جس نے آپ کا نکاح پڑھوایا، (اور میری خوش گمانی ہے کہ) یہی وہ مولوی ہے کہ جو آپ کے بچوں کو ناظرہ قرآن پڑھاتا ہوگا۔ اور بالآخر وہ اٹل حقیقت کہ جس کا کوئی کافر بھی منکر نہیں، موت ۔ ۔ ۔ جو کہ آ کر رہنی ہے، یہی وہ مولوی ہوگا کہ جو آپ کی آخری رسومات میں پیش پیش ہوگا۔ اس "محلے کے مولوی" کو اتنی اہمیت تو ضرور دیں کہ وہ آپ کی زندگی کے معاملات میں سند رہے۔ کیونکہ یہی وہ مولوی ہے جس کے اعلان سے عید ہوتی ہے اور اسی کے پیچھے نماز ہوتی ہے۔

آپ نے مزید یہ بھی کہا کہ کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی کو واجب القتل قرار دے، یہ قاضی کا حق ہے کہ وہ تعزیراتِ پاکستان کے تحت کس کو سزا سناتا ہے۔ جناب! مذہبی طبقے سے زیادہ شاید ہی کوئی اور طبقہ ہو کہ جو آپ کی بات سے اتفاق کرے گا۔ اور تبھی تو وہ آپ سے سوال پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ دو مرتبہ کی سزا یافتہ کہ جنہیں مختلف عدالتیں، مختلف اوقات میں سزائے موت سنا چکیں ہیں، وہ "عاصیہ مسیح" کیوں اب تک جیل میں ہے؟ کیوں اس گستاخِ رسول کی سزا پر عمل درآمد نہیں کیا گیا؟ جبکہ آپ ہی کے مطابق وہ واجب القتل بھی ہے کیونکہ تعزیراتِ پاکستان کے تحت معزز جج صاحبان نے اس ملعونہ کو سزا سنائی تو سزا میں تاخیر کیوں؟ امید ہے کہ آپ اپنی بات کی لاج رکھتے ہوئے اس کیس کو جلد منطقی انجام تک پہنچائیں گے جو کہ یقیناً تختۂ دار ہی ہے۔

آپ نے یہ بھی کہا کہ سوشل میڈیا پر فتوے دینے والوں کے خلاف سائبر کرائم بل کے تحت کاروائی کی جائے گی۔ جان کی امان پاؤں تو عرض یہ کرنا تھی کہ یہ بل اس وقت کہاں تھا جب گستاخانِ رسول بلاگرز کو آپ ہی کی حکومت نے تخفظ دیا اور انہیں بیرونِ ملک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا؟ یعنی کہ دین پر کوئی نکتہ چینی کرے تو اسے امان مل جائے اور حکومتِ وقت پر کوئی اعتراض اٹھائے تو اس کے خلاف بِل حرکت میں آئے گا۔

خرد کا نام جنوں پڑ گیا، جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے


آخر میں جو بات آپ نے کہی، میں اسے بھی دہرا دیتا ہوں تا کہ جانبداری کا فتویٰ نہ لگے، آپ نے فرمایا کہ ہم مسلمان ہیں، اللّه آپ کو اسلام پر قائم و دآئم رکھے اور دعا ہے کہ اللّه آپ کو اس کے تقاضے سمجھنے اور انہیں نبھانے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ آمین


ایک پر امید مسلمان پاکستانی



Sunday, August 13, 2017

کُھرَک

"حضرات ۔ ۔ ۔" تقریباً آٹھ سال کا عرصہ ہونے کو آیا ہے یہ قاری صاحب (ناٹ سو "قاری")  جب بھی فجر کے بعد بچوں کا غصہ محلے کے سپیکر پر اتارتے ہیں تو اعلان یونہی شروع کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ ان کا وقت کتنا قیمتی ہے اور بچوں کو ان کی اور ان کے وقت کی قدر کرنی چاہیے تاکہ وہ ان سے اور ان کے علم سے فیض حاصل کر سکیں۔ کوئی دو سے تین منٹ اوسط خرچ کرنے کے بعد جب وہ "ٹھنڈے" ہوتے ہیں تو محلہ سکون کا سانس لیتا ہے۔ پہلے پہل تو ناچیز کو ان کی اس حرکت پر اخیر ہی "کچیچیاں" چڑھتی تھیں پھر دھیرے دھیرے دھیان دینا شروع کیا تو سمجھ آیا کہ وہ ایک "کیفیت" میں ہوتے ہیں۔

یہ وہ کیفیت ہے کہ جو ہم میں سے ہر کوئی وقتاً فوقتاً خود پر طاری پاتا ہے، بلا تفریق جنس۔ عمر کوئی بھی ہو، جب کوئی معرکہ برسر پیکار ہو یا جانے انجانے میں معرکہ سر ہو جائے تو اِس ہی کیفیت سے پالا پڑتا ہے۔ "سوشل اینیمل" ہونے کے ناتے ہم اپنے ان مشاہدات و تجربات کو دوسروں تک منتقل کرنا چاہتے ہیں۔ یہ سوچے سمجھے بغیر کہ اس سے کوئی استفادہ کر بھی سکے گا کہ نہیں۔ کوئی بچہ کوئی کارنامہ کر آئے یا پھر کوئی خاتون (رش میں) شاپنگ کر آئیں یا پھر کوئی صاحب کوئی پیچیدہ عقدہ حل کر ڈالیں، جب تک وہ اسے بیان نہ کر لیں وہ ایک خاص کیفیت میں رہیں گے، جیسے بد ہضمی کا شکار ہوں۔  

کسی بھی "نیوز چینل" پر جب نیوز اینکر اپنے آپے سے باہر ہونے لگے یا کسی ٹاک شو پر کوئی مہمان اپنی حدود سے تجاوز کرے یا کوئی رشتہ دار اپنی اوقات سے باہر ہونے لگے یا آپ خود، جی آپ، آپ خود سے کہیں کہ "اتنا تو چلتا ہے" تو سمجھ لیں کہ آپ اُس وقت کیفیت کا شکار ہیں کہ جسے عرف عام میں "کُھرَک" کہتے ہیں۔


Monday, June 12, 2017

یوم الفرقان

ہم بچپن سے لے کر غزوۂ بدر کے تاریخ ساز واقعہ کو سنتے ہیں کہ کیسے جاں نثارانِ مصطفیٰ صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنی جانیں ہتھیلی پر رکھ کر اللّه کے محبوب اور اسلام کا تحفظ کیا۔ کیسے حق باطل سے ممتاز ہوا، کیسے اللّه کی مدد آ پہنچی اور کیسے مسلمان فتح و نصرت سے سرفراز ہوئے لیکن اس عظیم واقعہ سے ہمیں کیا کچھ سیکھنے کو ملتا ہے؟ شاید اس پہلو پر بہت کم احباب کی نظر ہو۔ سو غزوۂ بدر کے شہداء اور غازیان کو خراج تحسین پیش کرنے کی غرض سے ناچیز چند اسباق، کہ جو تاریخ کے ابواب میں واضح ہیں، ذکر کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہے۔

توکل علی اللّه

تین سو تیرا افراد، دو گھوڑوں اور آٹھ شمشیروں کے ساتھ بھی بھلا کوئی اپنے خوں ریز دشمن سے قتال کرنے نکلتا ہے؟ اور شمشیریں بھی کیسی کہ کسی کو دستہ درست نہیں تو کسی کی نوک اور کسی کو ایسے ہی دندانے پڑے ہوئے۔ ابھی مسلمانوں کی مدینة الرسول ہجرت کو عرصہ ہی کتنا بیتا تھا، محض دو سال۔ لیکن اس مختصر سے عرصے میں اسلام نے جو جڑ پکڑنا شروع کی تو اللّه اور اس کے رسول کے دشمنوں کو یہ بات گوارا نہ تھی۔ انہوں نے کوئی ہزار بھر کا لشکر تیار کیا، حرب و ضرب کے آلات سے لیس۔ بھلا یہ کوئی جوڑ تھا؟ 

یہی بات مدینہ کے یہود نے مسلمانوں کو جتانا چاہی تو صحابہ کرام رضوان اللّه تعالیٰ علیھم اجمعین نے گویا زبان حال سے عرض کیا

ان کے پاس دو گھوڑے چھ زرہیں آٹھ شمشیریں
پلٹنے آئے تھے یہ لوگ دنیا بھر کی تقدیریں

نہ تیغ و تیر پہ تکیہ نہ خنجر پر نہ بھالے پر
بھروسہ تھا تو اک سادی سی کالی کملی والے پر

صحابہ کو رسول اللّه صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم پر اور رسول اللّه صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کو اپنے مالک پر بھروسہ تھا۔ یہ توکل ہی تھا کہ حق کو باطل کا عظیم معرکہ نہ صرف برپا ہوا بلکہ اپنے تمام تر رعنائیوں کے ساتھ، اللّه کے فضل سے سر بھی ہوا۔


عشاقان مصطفیٰ ﷺ کا جذبہ

نبی کریم صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنے اصحاب رضوان اللّه تعالیٰ علیھم اجمعین کوصورتحال سے آگاہ فرما دیا تھا کہ کسی بھی صورتحال کا سامنا ہو سکتا ہے۔ مہاجرین اصحاب نے بڑے جوش اور جذبے کا اظہار فرمایا لیکن حضور صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کی نظرِ رحمت انصاری اصحاب پر تھی کیونکہ انصار نے آپ صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کے دست اقدس پر بیعت کرتے وقت اس بات کا عہد کیا تھا کہ وہ اس وقت تلوار اٹھائیں گے جب کفار مدینہ پر چڑھ آئیں گے اور بدر کا مقام مدینة الرسول سے تقریباً 80 میل کے فاصلے پر تھا۔ (مدارج النبوت، صفحہ 81 تا 83) 

انصار میں سے قبیلہء خزرج کے سردار حضرت سعد بن عبادہ رضی اللّه تعالیٰ عنہ حضور صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کا چہرۂ انور دیکھ کر بول اٹھے کہ یا رسول اللّه! (صلی اللّه علیك وسلم) کیا آپ کا اشارہ ہماری طرف ہے؟ خدا کی قسم! ہم وہ جاں نثار ہیں کہ آپ کا حکم ہو تو ہم سمندر میں کود پڑیں۔ اسی طرح انصار کے ایک اور معزز سردار حضرت مقداد بن اسود رضی اللّه تعالیٰ عنہ نے جوش میں آ کر عرض کیا یا رسول اللّه! (صلی اللّه علیك وسلم) ہم حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم کی طرح یہ نہ کہیں گے کہ آپ اور آپ کا خدا جا کر لڑیں بلکہ ہم لوگ آپ کے دائیں سے، بائیں سے، آگے سے، پیچھے سے لڑیں گے۔ انصار کے ان دونوں سرداروں کی تقریر سن کر حضور صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کا چہرہ خوشی سے چمک اٹھا۔ (صحیح بخاری، حدیث 3902)

معلوم ہوا کہ پیشوا کو چاہیے کہ اپنے پیروکاروں کے جذبات کو اہمیت دے اور اہمیت دینے کے لئے ضروری ہے کہ ان پر مطلع ہو۔

نبی کریم صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کی معاملہ فہمی

جب آپ صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم مدینہ شریف سے روانہ ہونے لگے تو حضرت عثمان غنی رضی اللّه تعالیٰ عنہ کو حضرت بی بی رقیہ رضی اللّه تعالیٰ عنھا کی تیمادداری کے لئے وہیں مدینہ شریف میں ہی رکنے کا  حکم دیا۔ (یاد رہے کہ جناب سیدنا عثمان غنی رضی اللّه تعالیٰ عنہ کا نام غزوۂ بدر کے مجاہدین میں سے لیا جاتا ہے اور آپ رضی اللّه تعالیٰ عنہ کو مال غیمت میں سے حصہ بھی ملا، یہ سب حضور صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کے اختیار کی ہی جھلک ہے) حضور صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم جانتے تھے کہ آپ کی صاحبزادی کافی علیل ہیں اور ممکن ہے کہ آپ کی غزوہ سے واپسی تک وہ پردہ فرما جائیں لیکن آپ نے اعلائے کلمتہ الحق کو ترجیح دیتے ہوئے رخت سفر باندھا۔

جب آپ صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم مقام "روحا" پر پہنچے تو منافقین اور یہودیوں کی طرف سے خطرہ کو محسوس فرمایا اور حضرت ابولبابہ بن عبد المنذر رضی اللّه تعالیٰ عنہ کو مدینہ کا حاکم مقرر فرمایا اور انہیں واپس مدینہ جانے کا حکم دیا اور حضرت عاصم بن عدی رضی اللّه تعالیٰ عنہ کو مدینہ کے چڑھائی والے گاؤں پر نگرانی رکھنے کا حکم صادر فرمایا۔

یاد رہے کہ مسلمان مدینہ میں نئے تھے اور یہود پشتوں سے آباد تھے اور چونکہ یہود فطری طور پر شریر واقع ہوئے ہیں تو ان کی طرف سے خطرہ تھا جس کے پیش نظر رحمت عالم صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم نے مدینہ شریف میں موجود دیگر مسلمانوں کی حفاظت کا بھی بندوست فرمایا۔ معلوم ہوا کہ حاکم کی نظر صرف ایک محاز سے بندھی نہیں ہونی چاہیے بلکہ اسے اپنے گرد و پیش کے تمام تر عناصر پر نظر رکھتے ہوئے ان کے لئے مناسب حکمت عملی ترتیب دینی چاہیے۔

کفار کی بد بختی

سرداران مکہ کی مکہ سے نکلنے کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ انہیں خبر ملی تھی کہ ابو سفیان کے قافلے پر مسلمان حملہ کرنے والے ہیں، اس قافلے میں تقریباً تمام مکہ والوں کو مال موجود تھا سو انہیں دوہری اذیت تھی کہ ایک تو مسلمان ویسے دشمن اور اوپر سے ان کے مال پر حملہ آور ہوں۔ لیکن جب کفار مکہ سے پوری تیاری کے ساتھ نکل چکے تو جاسوسوں نے اطلاع دی کہ ابو سفیان کا قافلہ متبادل راستہ اختیار کر کے محفوظ مقام پر پہنچ چکا ہے سو تمام سردار واپس لوٹ جائیں۔ دیگر سرداران مکہ کچھ حد تک اسے بات پر متفق نظر آئے لیکن ابوجہل کی بد بختی اور اس کے سبب اس کے دیگر گروہ کی بھی کہ انہوں نے واپس جانے کو اپنی ہتک جانا اور اس موقع کو غنیمت جانا کہ آج مسلمانوں سے حساب برابر کرنے کو موقع ہاتھ لگا ہے سو اسے خالی نہیں جانا چاہیے۔ جب نبی کریم صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم نے سرداران مکہ کے نام سنے کہ جو مد مقابل آئے تھے آپ صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنے اصحاب سے فرمایا کہ مسلمانو! سن لو! مکہ نے اپنے جگر کے ٹکڑوں کو تمہاری طرف ڈال دیا ہے۔ (مسلم شریف، صفحہ 102)

تاریخ بتاتی ہے کہ اگر ابوجہل ہٹ دھرمی نہ دکھاتا تو شاید یہ معرکہ ٹل جاتا لیکن جب جب ابوجہل کو اس کے رفقا نے جنگ سے باز رہنے کا مشورہ دیا اس نے اپنی انا اور اسلام دشمنی کی بنیاد پر اس مشورے کو نہ صرف رد کیا بلکہ دوسروں کو بزدلی کا طعنہ دے کر انہیں جنگ پر ابھارا۔ 

یہاں پر یہ بات یاد رہے کہ یہ وہی ابوجہل ہے کبھی "ابو الحکم" کے نام سے مشہور تھا، لیکن جب اس نے جناب رسالت مآب صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کے کھلے معجزات کا انکار کیا تو رسول اللّه صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم نے اسے "ابوجہل" کا لقب دیا۔ جو بندہ حکمت کا باپ کہلاتا تھا وہی جہالت کا باپ کہلایا اور میرے نبی صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم نے کیسا سچ فرمایا کہ سب کے مشورے کے خلاف جا کر جو راستہ اس نے اختیار کیا وہ نہ صرف اس کے خود کی ہلاکت کا باعث بنا پر پورے کفر کو ذلیل و رسوا کروا گیا۔

پہلی مدد آ پہنچی

کفار مسلمانوں سے پہلے بدر میں اونچے پتھریلے مقام پر خیمہ زن ہو چکے تھے، مسلمان جب بدر میں پہنچے تو ان کی جگہ ریتلی تھی کہ گھوڑوں کے پاؤں اس میں دھنستے تھے۔ نبی کریم صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم نے حضرت حباب رضی اللّه تعالیٰ عنہ کے مشورہ پر کچھ آگے جا کر چشموں پر قبضہ کیا اور وہیں پڑاؤ ڈالا۔ اللّه کی پہلی مدد اس طرح آ پہنچی کے خوب بارش ہوئی جس سے مسلمانوں کے پاؤں جمنا شروع ہوگئے اور زمین میں گڑھے کھود کر جو حوض انہوں نے بنائے تھے اس میں خوب پانی جمع ہوگیا کہ پانی اور وضو وغیرہ کے کام آسکے۔ اس کے برعکس کفار کا علاقہ چونکہ پتھریلہ تھا سو ان کے پاؤں پھسلنے لگے۔ 

جب آپ مال و اسباب سے نظر ہٹا کر اسباب پیدا فرمانے والے پر نظر کرتے ہیں تو وہ ایسی جگہ سے رزق آپ کا مقدر فرماتا ہے کہ آپ کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا۔

علم غیب مصطفیٰ ﷺ

جنگ سے پہلے رات میں مصطفیٰ کریم صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنے چند جانثاران کے ساتھ میدان جنگ کا معائنہ فرمایا، آپ کے دستِ اقدس میں ایک چھڑی تھی۔ آپ صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم اسی چھڑی کے ساتھ زمین پر لکیر بناتے اور فرماتے کہ فلاں بن فلاں یہاں مرتے، فلاں بن فلاں یہاں مرے، اسی طرح آپ صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم نے ستر نشانات لگائے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ اگلے دن جب مقتل سے کفار کی لاشیں اٹھائی گئیں تو ٹھیک ٹھیک انہی مقامات پر موجود تھیں کہ جہاں غیب دان نبی صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم نے نشاندہی فرمائی تھی۔

بے شک، اللّه کی عطا سے اللّه کے نبی کریم صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم علم غیب پر مطلع ہوتے ہیں اور حضور صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم نے توسط سے امت کے اولیاء بھی۔


رؤف نبی، رحیم نبی صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم

رات کے وقت اللّه تعالیٰ نے مسلمانوں پر ایک انعام یہ بھی فرمایا کہ ان پر گہری نیند طاری فرما دی تاکہ صبح تازہ دم ہوں اور یکسوئی سے دین کی خدمت کر سکیں۔ لیکن حضور صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم مقام عریش (وہ چھپر کہ جو صحابہ نے نبی کریم صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کے قیام کے لئے میدان بدر میں بنایا) پر جلوہ فرما تھے۔ آنکھیں مبارک نم، ہاتھ دعا کے لئے بلند اور لب ھائے مبارک پر اپنے رب سے ناز بھری دعائیں۔ "خداوند! تو نے مجھ سے جو وعدہ فرمایا ہے آج اسے پورا فرما دے۔" محویت اور رقت کا یہ عالم تھا کہ چادر مبارک دوش انور سے سرک جاتی۔

"الہٰی! اگر یہ چند نفوس ہلاگ ہوگئے تو پھر قیامت تک روئے زمین پر تیری عبادت کرنے والے نہ رہیں گے۔"
(سیرت ابن ہشام، جلد دوئم، صفحہ 627)

یار غار رضی اللّه تعالیٰ عنہ کہ جو حضور ﷺ کے پہرے پر مقرر تھے، حضور صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کی یہ کیفیت دیکھ کر بے قرار تھے، بالاخر آگے بڑھے اور عرض گزار ہوئے کہ حضور! اب بس کیجیئے خدا ضرور اپنا وعدہ پورا فرمائے گا۔ اپنے معتبر غلام و ساتھی کی ڈھارس سے آپ صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم نے دعا کا اختتام فرمایا اور آپ صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کی زبان اقدس پر اس آیہ مبارکہ کا ورد جاری ہوا

سیھزم الجمع و یولون الدبر (القمر، 45)
عنقریب (کفار کی) فوج کو شکست دے دی جائیگی اور وہ پیٹھ پھیر کر بھاگ جائیں گے۔

امتی بے خبر سو رہے تھے تو نبی کریم صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم ان کے لئے گڑگڑا کر دعا فرما رہے تھے، جب امتی پکار کر فریاد کرے گا تو حضور صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کا دریائے رحمت کتنا جوش میں آئے؟ کوئی اندازہ ہی نہیں!


حضور ﷺ کا عدل

حضور صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم اپنی چھڑی مبارک سے صفیں سیدھی فرما رہے ہیں کہ پہلی ہی صف میں موجود حضرت سواد انصاری رضی اللّه تعالیٰ عنہ کہ جن کا پیٹ صف سے کچھ باہر نکلا ہوا تھا۔ آپ نے اپنی چھڑی سے ان کے پیٹ پر ایک کونچا دے کر فرمایا کہ "استو یا سواد" (یعنی اے سواد سیدھے کھڑے ہو جاؤ)۔ حضرت سواد رضی اللّه تعالیٰ عنہ گویا ہوئے کہ یا رسول اللّه صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم آپ نے میرے پیٹ پر مارا ہے میں قصاص لینا چاہتا ہوں۔

تمام اصحاب ششدر رہ گئے کہ سامنے دشمن کھڑا ہے اور یہ کیسا جانثار ہے کہ اپنے آقا کریم صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم سے ہی قصاص مانگ رہا ہے، اس نبی سے کہ جو مؤمنین کی جانوں پر ان سے زیادہ حق رکھتے ہیں۔

بہرحال نبی کریم صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا آؤ، لے لو قصاص ۔ ۔ ۔ وہ آگے بڑھے کو حضور صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم نے شکم اطہر کو بے ساختہ بوسہ دینا شروع کر دیا اور حضور ﷺ کے ساتھ لپٹ گئے۔ حضور صلی الله علیہ وآلہٖ وسلم جو کہ غیب دان نبی ہیں اپنے صحابی کی حالت جانتے تھے لیکن امت کی تعلیم کے لئے پوچھا کہ اے سواد! تم نے ایسا کیونکر کیا؟ عرض گزار ہوئے کہ اے آقا! جنگ کا میدان سامنے ہے، میں صف میں اپنا سر ہتھیلی پر رکھ کر کھڑا ہوں شاید موت کا وقت آگیا ہو، اس وقت میرے دل میں اس تمنا نے جوش مارا کہ کاش! مرتے وقت میرا بدن آپ کے جسم اطہر سے چھو جائے۔

اپنے غلام کا یہ جذبہ دیکھ کر حضور صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم نے ان کے لئے خیر و برکت کی دعا فرمائی، حضرت سواد رضی اللّه تعالیٰ عنہ نے قصاص سے معذرت کی جبکہ دیگر اصحاب اس ادائے عاشقانہ پر واری جا رہے تھے۔
(سیرت ابن ہشام، جلد دوئم، صفحہ 626)

اور اس امت کا فرعون مارا گیا

غزوہ بدر میں اصحاب رسول رضوان اللّه تعالیٰ علیھم اجمعین کی جانبازیاں ذکر کرنے پر آئیں تو یہ اپنے آپ ایک الگ ہی داستان ہے۔ کیسے فرشتوں کی مدد مسلمانوں کے شامل حال رہی اور کیسے صحابہ کرام رضوان اللّه تعالیٰ علیھم اجمعین نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیئے یہ سب تاریخ کے ابواب میں سنہری حروف سے درج ہے۔ یہاں چونکہ محض غزوۂ بدر سے اسباق اخذ کرنا مقصود ہے سو صرف ایک واقعہ پیش خدمت ہے۔

دو انصاری نوجوان، معاذ اور معوذ رضی اللّه تعالیٰ عنھم صف میں جناب عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللّه تعالیٰ عنہ کے ساتھ کچھ اس طرح سے کھڑے ہیں کہ ایک دائیں اور ایک بائیں جانب۔ دریافت کیا، چچا جان! کیا آپ ابوجہل کو جانتے ہیں؟ میدانِ جنگ میں عین جنگ کے دوران، یہ سوال صحابی رسول عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللّه تعالیٰ عنہ کے لئے چونکا دینے والا تھا، آپ نے اس نوجوان سے تجسس بھرے انداز میں دریافت فرمایا: تمہیں اس سے کیا کام ہے؟ جواب دیا: چچا جان! میں نے خدا سے یہ عہد کیا ہے کہ میں ابوجہل کو جہاں دیکھ لوں گا یا تو اس کو قتل کر دوں گا یا خود لڑتا ہوا مارا جاؤں گا کیونکہ وہ اللّه کے رسول صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کا بہت ہی بڑا دشمن ہے۔ یہ گفتگو جاری تھی کہ سامنے کفار کے لشکر میں ابوجہل نمودار ہوا، عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللّه تعالیٰ عنہ چونکہ ان دونوں جوانوں کے جذبے سے متاثر ہو چکے تھے سو ابوجہل کی طرف اشارہ کیا۔

اشارہ کرنے کی دیر ہی تھی کہ دونوں عقاب کی طرح اپنے شکار پر جھپٹے اور اسے چیڑ پھاڑ کر رکھ دیا۔ دونوں نے اپنی کامیابی کا اعلان حضور صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کی بارگاہ میں کیا اور دونوں کا یہی دعویٰ تھا کہ انہوں نے ابوجہل کو قتل کیا ہے۔ حضور صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم نے دونوں کی تلواریں ملاحظہ فرمائیں چونکہ دونوں کی تلواروں پر خون موجود تھا سو دونوں ہی کے حق میں یہ اعلان فرمایا کہ تم دونوں ہی ابوجہل کے قاتل ہو۔ حبیب خدا صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کے لب سے اپنی کامیابی کا چرچا سن لینے کے بعد دونوں دوبارہ جنگ میں شریک ہوئے، حضرت معوذ رضی اللّه تعالیٰ عنہ شہید کر دیئے گئے جبکہ حضرت معاذ رضی اللّه تعالیٰ عنہ نے اپنے ایک ہاتھ کا نذرانہ میدان بدر میں پیش کیا اور دیگر غزوات میں ایک ہاتھ کے ساتھ ہی اسلام کا اور پیمبر اسلام کا دفاع کرتے نظر آئے۔

جنگ ختم ہونے کے بعد جب نبی کریم صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم حضرت عبد اللّه بن مسعود رضی اللّه تعالیٰ عنہ کو ساتھ لے کر ابوجہل کی لاش کے پاس سے گزرے تو لاش کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ابوجہل اس زمانے کا "فرعون" ہے۔ پھر عبد اللّه بن مسعود رضی اللّه تعالیٰ عنہ نے ابوجہل کا سر کاٹ کر تاجدار دو عالم صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کے قدموں میں ڈال دیا۔ (صحیح بخاری، کتاب المغازی، باب 10، الحدیث 3988)

بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہوگئی کہ نبی کریم صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کی ناموس کے تحفظ کے لئے جان لینی پڑے یا جان دینی پڑے دونوں ہی سے گریز نہیں کرنا چاہیے۔ اور جو جتنا بڑا نبی کریم صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کے خلاف ہوگا اس کے خلاف اتنی ہی شد و مد سے جہاد کیا جائے گا۔


کفار بھاگ کھڑے ہوئے

جب کفار نے دیکھا کہ ان کے نامی گرامی سردار اور جنگجو مارے جا چکے ہیں اور مسلمان غالب آ رہے ہیں تو ان انہوں نے میدان جنگ سے بھاگنا شروع کر دیا۔ مسلمانوں نے ان میں سے کچھ کو قتل اور کچھ کو قیدی بنایا۔ 70 کفار قتل کیے گئے اور اتنے ہی قیدی بنا لیے گئے۔

حالت جنگ ہو یا حالت امن، عوام ہمیشہ اپنے پیشوا کی طرف دیکھتی ہے، اگر وہاں سے امید کی کوئی رمق نظر آئے تب ہی عوام بھی حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کرتی ورنہ ذلت اور پسپائی ہی مقدر ٹھہرتی ہے۔

کفار کی لاشوں سے خطاب

جب کفار کی لاشیں بدر کے ایک گڑھے میں پھینک دی گئی تو آپ صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم نے گڑھے کے کنارے کھڑے ہو کر مقتولین کا نام لے لے کر انہوں پکار کر کہا، کیا تم لوگوں نے اپنے رب کے وعدہ کا سچا پایا؟ ہم نے تو اپنے رب کے وعدہ کو بالکل سچا پایا۔ حضرت عمر فاروق رضی اللّه تعالیٰ عنہ نے جب دیکھا کہ حضور صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کفار کی لاشوں سے خطاب فرما رہے ہیں تو ان کو بڑا تعجب ہوا (کیونکہ نبی کریم صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کا مبارک اسوہ ان کے سامنے تھا اور وہ جانتے تھے کہ حضور صلی اللّٗه علیہ وآلہٖ وسلم نہ کوئی لغو کام کرتے ہیں اور نہ کوئی لغو کلام فرماتے ہیں)۔ چنانچہ عرض کیا کہ یا رسول اللّه صلی اللّه علیك وسلم! کیا آپ ان بے روح کے جسموں سے کلام فرما رہے ہیں؟ یہ سن کر حضور صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اے عمر! قسم خدا کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے کہ تم (زندہ لوگ) میری بات کو ان سے زیادہ نہیں سن سکتے لیکن اتنی بات ہے کہ یہ مردے جواب نہیں دے سکتے۔
(صحیح بخاری، کتاب المغازی، باب قتل ابی جھل، الحدیث: 3976)

پتہ چلا کہ جب کفار مرنے کے بعد اللّه کے حکم سے کلام سنتے ہیں تو مسلمان اور بالخصوص اولیائے کرام تو بدرجۂ اولیٰ کلام سن سکتے، ہاں ہم ان کے کلام کو سننے پر قدرت نہیں رکھتے۔

غزوۂ بدر کے معرکہ کے بعد قیدیوں سے مسلمانوں کا حسن سلوک، ان کا فدیہ اور دیگر معاملات اپنے اندر ایک انوکھی ہی داستان رکھتے ہیں لیکن یہ ناچیز اس واقعے کو یہی سمیٹتا ہے۔ جو جو سبق ہمیں حضور صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کے مبارک اسوہ اور حضور صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کے غلاموں کے اسوہ سے ملے ہیں، اللّه ان کی تعظیم کرنے اور ان پر عمل کرنے
کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

Sunday, March 5, 2017

حاصل

سکون پانا چاہتے ہو تو حاصل کرو اور اگر دائمی سکون چاہتے ہو تو حاصل کی طلب سے آزاد ہو جاؤ۔ وہ بچہ کہ جو ابھی شعور کی منزلوں سے بہت دور ہے جب کچھ پا لیتا ہے تو اضطراب سے سکون میں آ جاتا ہے۔ گویا انسان کی جبلت میں یہ بات رکھ دی گئی کہ وہ خواہش کرے، کسی چیز کی تمنا کرے پھر اس کے لئے کوشش کرے اور اگر کوشش رنگ لے آئے تو سکون جیسی عظیم نعمت پائے اور اگر اس کا مقدر اس کے خلاف ہو کہ جس کی اس نے خواہش کی تھی تو تا دیر حسرت کا شکار رہے۔

ایک بات ذہن نشین رہے کہ ہم حاصل کی نوعیت پر بات نہیں کر رہے کہ انسان جو حاصل کرنے کی خواہش کرے وہ جائز ہو کہ ناجائز، حلال ہو کہ حرام، نیک ہو کہ بد بلکہ مطلقاً حاصل کی بات کی۔ مزید یہ کہ وہ اسباب جو اپنی طلب کو پانے میں صرف کیے وہ اور وہ سکون جو اس حاصل سے پایا وہ کتنا دائمی ہے، یہ تینوں الگ الگ جہات ہیں کہ جو تفصیل طلب ہیں۔

مادیت پسندی انسان کو کبھی یہ نہیں بتائے گی کہ اس کی طلب جائز ہے کہ نا جائز۔ یہ ضابطہ دین ہی بتائے کہ کس چیز کی طلب اور کس حد تک طلب جائز ہے اور اس کے لئے کوشش کی جاسکتی ہے۔ یعنی انسان خواہش کرنے اور تمنا کرنے میں آزاد نہیں۔ واصف علی واصف کے غالباً یہی الفاظ ہیں کہ انسان کی پسند اور مالک کی پسند کے درمیان فرق کا نام ہی خوشی ہے۔ 

ہمیں ہدایت کی گئی کہ دنیا یعنی مادیت کے حوالے سے ہم اپنے سے کم درجہ کو دیکھیں اور دین یعنی زہد و تقویٰ کے حوالے سے ہم اپنے سے بہتر کو دیکھیں۔ اس رہنما اصول کو دیکھیں تو حاصل کی اہمیت اور بھی واضح ہو جاتی ہے۔ انسان جب مادیت اپنے سے کم درجہ کو دیکھے گا تو جو حاصل ہے اس پر کلمہ شکر ادا کرے گا لیکن اگر اس کے برعکس کرے گا تو ضرور نا شکری کا کلمہ ادا کر کے خود کو رسوا کرے گا۔ دوسری طرف جب دین کے معاملے میں اپنے سے بلند رتبہ کو دیکھے گا تو جو لا حاصل ہے اس کی تمنا کرے گا اور یہی تمنا تو محبوب و مقصود ہے۔

آج کے جدید نظامِ تعلیم نے جہاں اور کئی قہر ڈھائے وہیں ایک یہ بھی کہ انسان اپنی فکر میں، خواہش میں آزاد ہے۔ جب کہ دین اسلام انسان کی اس شعبہ میں بھی بھرپور رہنمائی کرتا ہے۔ یہ شتر بے مہار ہونے کا ہی نتیجہ ہے کہ جب ہم غیر متوازن خواہش کرتے ہیں تو اس کی حصول کے لئے بلا غور و فکر اور بلا تردد جت جاتے ہیں۔ جو بعد میں نہ صرف وقت و توانائی کا ضیاع ثابت ہوتا ہے بلکہ جو حاصل ہو سکتا تھا اس سے محرومی بھی نصیب ٹھہرتی ہے۔ 

حاصل میں برکت بھی ہوسکتی ہے اور بے برکتی بھی۔ برکت کے بارے میں یہ جان لیں کہ گمان پر منحصر ہے۔ اگر آپ اعتقاد رکھتے ہیں تو برکت کا تصور آپ کو محظوظ کرے گا وگرنہ نہیں۔ بہرحال حاصل میں برکت کا رہنما اصول خود باری تعالیٰ اپنے کلام میں ارشاد فرماتا ہے کہ (مفہوم) اگر تم شکر کرو گے تو ہم اسے مزید بڑھا دیں گے۔ تو حاصل میں رونق و برکت دیکھنا چاہتے ہیں تو حاصل کی قدر کرنا سیکھیں۔ اگر وہ لوگ بھی بے برکتی کا شکوہ کرتے ہیں کہ جو رزق کی بے دریغ نا شکری کرتے ہیں۔ اپنے قدموں پر خود کلہاڑی چلا کر خیر کی توقع کرنا محض حماقت ہے۔ حاصل کی قدر کریں، حاصل میں برکت پائیں۔ 


Tuesday, February 14, 2017

کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا

ہاتھ اس قیمتی لباس پر پھیرتے ہوئے کیا کچھ نہ تھا ان حسرت بھری نگاہوں میں ۔ ۔ ۔
جوڑا یقیناً لاکھوں کا تو ہوگا۔ شاید اس کے گھر میں موجود تمام ہی کپڑے ملا کر اس ایک جوڑے کی مالیت سے بھی کم ہی ہوں۔ اور مہنگا کیوں نہ ہوتا شہر کے مشہور کاروباری شخصیت کی بیٹی کی شادی تھی اور یہ اس بچی کی شادی کا جوڑا۔

دو ماہ ہونے کو تھے اس "سیلز گرل" کو شہر کی ایک مہنگی ترین بوتیک پر کام کرتے ہوئے۔ ایک سے ایک کپڑے اس کی نظر سے گزرتے اور اکثر ہی وہ فرصت کے لمحوں میں اپنے خوابوں کی دنیا میں گم ہو جایا کرتی تھی۔ لیکن آج شاید کچھ زیادہ ہی افسردہ تھی یا جوڑا کچھ زیادہ ہی دلکش ۔ ۔ ۔ ابھی خوابوں کی دنیا کا سفر جاری ہی تھا کہ ایک تلخ نسوانی آواز نے چونکا دیا۔

ایک قریب ہی سوسائٹی سے آئی ہوئی ادھیڑ عمر خاتون تھیں جو اکثر ہی آیا جایا کرتی تھیں۔ انہیں اپنے کپڑے درکار تھے جو وہ دو دن پہلے کچھ رد و بدل کے لئے دے گئیں تھیں۔ تلخ لہجوں کی وہ عادی تو شروع سے ہی تھی، غربت سمجھوتا کرنا اور نباہ کرنا ہی تو سب سے پہلے سکھاتی ہے، سو امراء کے حقارت آمیز رویے اس لئے قطعاً پریشانی کا باعث نہ تھے۔ ہاں امیروں کے لچھن دیکھ کر اس کا منہ کھلے کا کھلا ضرور رہ جایا کرتا تھا۔ بہرحال "یس میڈم" کا نعرہ لگاتے اس نے سرعت سے خاتون کی الجھن دور کی۔ یہ دوپہر کا وقت تھا یعنی ابھی بوتیک کھلی ہی تھی، سو گاہکوں کی آمد و رفت نہ ہونے کے برابر تھی۔ وہ دوبارہ اپنی نشست پر جا کر اس قیمتی ملبوس کو تکنے لگی۔

غریب غربت میں روٹی کو اتنی حسرت سے نہیں تکتا ہوگا جتنا سفید پوش آزمائش میں اپنی ضرورت کی چیز کو دیکھتا ہے۔ کیونکہ غریب کو بہرحال ایک ڈھارس ہوتی ہے کہ دیر سے سہی لیکن اس کی بھوک مٹ تو جائے گی لیکن سفید پوش شخص کی حسرت اس کی قبر میں اس کے ساتھ دفن ہوتی یا پھر اس کے ترکے میں اس کے ورثاء تک منتقل ہو جاتی ہے۔ 

وہ بچپن سے دیکھتی آئی تھی کہ محلے میں کسی کھاتے پیتے گھر میں کوئی خوشی یا غمی ہوتی تو وہ لوگ انتہائی خستہ حال محلہ داروں تک تو کچھ نہ کچھ پہنچا دیتے لیکن سفید پوش بس اپنا سا منہ لے کر رہ جاتے۔ یہ خودداری بھی اعصاب شکن ہو جاتی ہے، بندہ نہ تو کسی کے سامنے ہاتھ پھیلا سکتا ہے اور نہ ہی اپنی ضروریات کا گلا گھونٹ سکتا ہے، کرنا پڑتا ہے تو صبر وہ بھی مجبوراً۔

چند جماعتیں جو اس سفید پوش بچی نے پاس کیں انہوں نے اتنا شعور تو بیدار کر ہی دیا تھا کہ برتری دولت کی بنیاد پر نہیں ہوتی لیکن اس کی مشاہدات و تجربات اس کے برعکس تھے۔ کسی سے انجانے میں تکلیف پہنچے اور وہ معذرت کر لے تو تکلیف کا اثر زائل ہو جاتا ہے لیکن اگر کوئی جان بوجھ کر آپ کے لئے آزار کا باعث ہو اور اس پر اسے ملال کی ہوا بھی نہ گزرے ۔ ۔ ۔ یہ معاشرہ یقیناً تباہی کی طرف جا رہا ہے ۔ ۔ ۔ 

"یس میڈم!" ۔ ۔ ۔ یہ سیلز گرل کی طرف ایک اور پکار کا جواب تھا اور اسی کے ساتھ ہی اس کے خیالات منتشر ہوئے۔

///

(فرضی خاکہ)