عملی زندگی میں قدم رکھتے ہی چند اسباق جو سیکھے تھے انہی میں سے ایک یہ سبق بھی تھا کہ
"مَجّاں مَجّاں دِیاں پَیناں ہُندیاں نیں"
یعنی ایک ہی شعبہ سے تعلق رکھنے والے افراد ایک دوسرے کا درد رکھتے ہیں چاہے وہ خود ایک دوسرے کے مقابل ہی کیوں نہ ہوں۔ خاص طور پر تب جب کسی دوسرے شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والا فرد ان کی راہ میں حائل ہو۔
اس کی مثال یوں سمجھیئے کہ ایک کارخانہ میں دو ملازم، یوں تو ایک دوسرے سے مقابلہ کریں گے۔ چاہے وہ ہنر میں، پھرتی میں ہو یا پھر زبانی جمع خرچ ہی کیوں نہ ہو لیکن جب وہ اسی کارخانے کی انتظامیہ کے روبرو ہوں گے تو یک زبان ہوں گے کہ اسی کو وہ اپنا مشترکہ مفاد تصور کریں گے۔ یہ مشترکہ مفاد ہی ہے کہ جو دو مقابل افراد کو یک جان کر دیتا ہے لیکن اس معاملے کو تحریک دینے کے لئے بیرونی مداخلت ضروری ہے۔ جب تک کوئی بیرونی عنصر اپنا کردار ادا نہ کرے "مشترکہ مفاد" پسِ پشت ہی پڑے رہتے ہیں لیکن مداخلت ہو چکے تو اب حالات مختلف ہوں گے۔
اب جب آپ یہ سب سمجھ چکے تو آپ کے لئے یہ جاننا آسان ہے کہ منہ کالا تو خواجہ آصف کا ہوا اور جوتا تو نا اھل نواز کو پڑا لیکن سب سیاہ-ست-دان کیوں بلبلا اٹھے۔ جی ہاں، وجہ یہی ہے کہ ایک تو مشترکہ مفادات زد میں ہیں اور دوسرا مداخلت بیرونی ہے۔
یہی سیاستدان جب ایک دوسرے کو ننگا کرتے ہیں، گالم گلوچ کرتے ہیں، الٹا لٹکاتے ہیں، سڑکوں پر گھسیٹے ہیں، ایک دوسرے کی بہن بیٹی کو موضوع سخن ٹھہراتے ہیں، ملک فروش اور ضمیر فروش ہونے کا تمغہ دیتے ہیں اور حد تو یہ کہ اسلام ہی سے بے دخل کر دیتے ہیں تب ان کو اپنے شعبے کے تقدس کا خیال کیوں نہیں رہتا؟ صرف اور صرف اس لئے کہ یہ اس روش کے پیروکار ہیں جس میں بڑا ہونے کا دوسرا نام مقابل کو چھوٹا کرنا ہے۔
معاملہ واضح ہے، ایک ہی جگہ سے چارہ کھانے والے دو جانور باہم "دست و گریباں" ہی رہیں گے جب تک چرواہا ہنٹر نہ لے آئے کیونکہ مجاں مجاں دیاں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔