سکون پانا چاہتے ہو تو حاصل کرو اور اگر دائمی سکون چاہتے ہو تو حاصل کی طلب سے آزاد ہو جاؤ۔ وہ بچہ کہ جو ابھی شعور کی منزلوں سے بہت دور ہے جب کچھ پا لیتا ہے تو اضطراب سے سکون میں آ جاتا ہے۔ گویا انسان کی جبلت میں یہ بات رکھ دی گئی کہ وہ خواہش کرے، کسی چیز کی تمنا کرے پھر اس کے لئے کوشش کرے اور اگر کوشش رنگ لے آئے تو سکون جیسی عظیم نعمت پائے اور اگر اس کا مقدر اس کے خلاف ہو کہ جس کی اس نے خواہش کی تھی تو تا دیر حسرت کا شکار رہے۔
ایک بات ذہن نشین رہے کہ ہم حاصل کی نوعیت پر بات نہیں کر رہے کہ انسان جو حاصل کرنے کی خواہش کرے وہ جائز ہو کہ ناجائز، حلال ہو کہ حرام، نیک ہو کہ بد بلکہ مطلقاً حاصل کی بات کی۔ مزید یہ کہ وہ اسباب جو اپنی طلب کو پانے میں صرف کیے وہ اور وہ سکون جو اس حاصل سے پایا وہ کتنا دائمی ہے، یہ تینوں الگ الگ جہات ہیں کہ جو تفصیل طلب ہیں۔
مادیت پسندی انسان کو کبھی یہ نہیں بتائے گی کہ اس کی طلب جائز ہے کہ نا جائز۔ یہ ضابطہ دین ہی بتائے کہ کس چیز کی طلب اور کس حد تک طلب جائز ہے اور اس کے لئے کوشش کی جاسکتی ہے۔ یعنی انسان خواہش کرنے اور تمنا کرنے میں آزاد نہیں۔ واصف علی واصف کے غالباً یہی الفاظ ہیں کہ انسان کی پسند اور مالک کی پسند کے درمیان فرق کا نام ہی خوشی ہے۔
ہمیں ہدایت کی گئی کہ دنیا یعنی مادیت کے حوالے سے ہم اپنے سے کم درجہ کو دیکھیں اور دین یعنی زہد و تقویٰ کے حوالے سے ہم اپنے سے بہتر کو دیکھیں۔ اس رہنما اصول کو دیکھیں تو حاصل کی اہمیت اور بھی واضح ہو جاتی ہے۔ انسان جب مادیت اپنے سے کم درجہ کو دیکھے گا تو جو حاصل ہے اس پر کلمہ شکر ادا کرے گا لیکن اگر اس کے برعکس کرے گا تو ضرور نا شکری کا کلمہ ادا کر کے خود کو رسوا کرے گا۔ دوسری طرف جب دین کے معاملے میں اپنے سے بلند رتبہ کو دیکھے گا تو جو لا حاصل ہے اس کی تمنا کرے گا اور یہی تمنا تو محبوب و مقصود ہے۔
آج کے جدید نظامِ تعلیم نے جہاں اور کئی قہر ڈھائے وہیں ایک یہ بھی کہ انسان اپنی فکر میں، خواہش میں آزاد ہے۔ جب کہ دین اسلام انسان کی اس شعبہ میں بھی بھرپور رہنمائی کرتا ہے۔ یہ شتر بے مہار ہونے کا ہی نتیجہ ہے کہ جب ہم غیر متوازن خواہش کرتے ہیں تو اس کی حصول کے لئے بلا غور و فکر اور بلا تردد جت جاتے ہیں۔ جو بعد میں نہ صرف وقت و توانائی کا ضیاع ثابت ہوتا ہے بلکہ جو حاصل ہو سکتا تھا اس سے محرومی بھی نصیب ٹھہرتی ہے۔
حاصل میں برکت بھی ہوسکتی ہے اور بے برکتی بھی۔ برکت کے بارے میں یہ جان لیں کہ گمان پر منحصر ہے۔ اگر آپ اعتقاد رکھتے ہیں تو برکت کا تصور آپ کو محظوظ کرے گا وگرنہ نہیں۔ بہرحال حاصل میں برکت کا رہنما اصول خود باری تعالیٰ اپنے کلام میں ارشاد فرماتا ہے کہ (مفہوم) اگر تم شکر کرو گے تو ہم اسے مزید بڑھا دیں گے۔ تو حاصل میں رونق و برکت دیکھنا چاہتے ہیں تو حاصل کی قدر کرنا سیکھیں۔ اگر وہ لوگ بھی بے برکتی کا شکوہ کرتے ہیں کہ جو رزق کی بے دریغ نا شکری کرتے ہیں۔ اپنے قدموں پر خود کلہاڑی چلا کر خیر کی توقع کرنا محض حماقت ہے۔ حاصل کی قدر کریں، حاصل میں برکت پائیں۔