ہاتھ اس قیمتی لباس پر پھیرتے ہوئے کیا کچھ نہ تھا ان حسرت بھری نگاہوں میں ۔ ۔ ۔
جوڑا یقیناً لاکھوں کا تو ہوگا۔ شاید اس کے گھر میں موجود تمام ہی کپڑے ملا کر اس ایک جوڑے کی مالیت سے بھی کم ہی ہوں۔ اور مہنگا کیوں نہ ہوتا شہر کے مشہور کاروباری شخصیت کی بیٹی کی شادی تھی اور یہ اس بچی کی شادی کا جوڑا۔
دو ماہ ہونے کو تھے اس "سیلز گرل" کو شہر کی ایک مہنگی ترین بوتیک پر کام کرتے ہوئے۔ ایک سے ایک کپڑے اس کی نظر سے گزرتے اور اکثر ہی وہ فرصت کے لمحوں میں اپنے خوابوں کی دنیا میں گم ہو جایا کرتی تھی۔ لیکن آج شاید کچھ زیادہ ہی افسردہ تھی یا جوڑا کچھ زیادہ ہی دلکش ۔ ۔ ۔ ابھی خوابوں کی دنیا کا سفر جاری ہی تھا کہ ایک تلخ نسوانی آواز نے چونکا دیا۔
ایک قریب ہی سوسائٹی سے آئی ہوئی ادھیڑ عمر خاتون تھیں جو اکثر ہی آیا جایا کرتی تھیں۔ انہیں اپنے کپڑے درکار تھے جو وہ دو دن پہلے کچھ رد و بدل کے لئے دے گئیں تھیں۔ تلخ لہجوں کی وہ عادی تو شروع سے ہی تھی، غربت سمجھوتا کرنا اور نباہ کرنا ہی تو سب سے پہلے سکھاتی ہے، سو امراء کے حقارت آمیز رویے اس لئے قطعاً پریشانی کا باعث نہ تھے۔ ہاں امیروں کے لچھن دیکھ کر اس کا منہ کھلے کا کھلا ضرور رہ جایا کرتا تھا۔ بہرحال "یس میڈم" کا نعرہ لگاتے اس نے سرعت سے خاتون کی الجھن دور کی۔ یہ دوپہر کا وقت تھا یعنی ابھی بوتیک کھلی ہی تھی، سو گاہکوں کی آمد و رفت نہ ہونے کے برابر تھی۔ وہ دوبارہ اپنی نشست پر جا کر اس قیمتی ملبوس کو تکنے لگی۔
غریب غربت میں روٹی کو اتنی حسرت سے نہیں تکتا ہوگا جتنا سفید پوش آزمائش میں اپنی ضرورت کی چیز کو دیکھتا ہے۔ کیونکہ غریب کو بہرحال ایک ڈھارس ہوتی ہے کہ دیر سے سہی لیکن اس کی بھوک مٹ تو جائے گی لیکن سفید پوش شخص کی حسرت اس کی قبر میں اس کے ساتھ دفن ہوتی یا پھر اس کے ترکے میں اس کے ورثاء تک منتقل ہو جاتی ہے۔
وہ بچپن سے دیکھتی آئی تھی کہ محلے میں کسی کھاتے پیتے گھر میں کوئی خوشی یا غمی ہوتی تو وہ لوگ انتہائی خستہ حال محلہ داروں تک تو کچھ نہ کچھ پہنچا دیتے لیکن سفید پوش بس اپنا سا منہ لے کر رہ جاتے۔ یہ خودداری بھی اعصاب شکن ہو جاتی ہے، بندہ نہ تو کسی کے سامنے ہاتھ پھیلا سکتا ہے اور نہ ہی اپنی ضروریات کا گلا گھونٹ سکتا ہے، کرنا پڑتا ہے تو صبر وہ بھی مجبوراً۔
چند جماعتیں جو اس سفید پوش بچی نے پاس کیں انہوں نے اتنا شعور تو بیدار کر ہی دیا تھا کہ برتری دولت کی بنیاد پر نہیں ہوتی لیکن اس کی مشاہدات و تجربات اس کے برعکس تھے۔ کسی سے انجانے میں تکلیف پہنچے اور وہ معذرت کر لے تو تکلیف کا اثر زائل ہو جاتا ہے لیکن اگر کوئی جان بوجھ کر آپ کے لئے آزار کا باعث ہو اور اس پر اسے ملال کی ہوا بھی نہ گزرے ۔ ۔ ۔ یہ معاشرہ یقیناً تباہی کی طرف جا رہا ہے ۔ ۔ ۔
"یس میڈم!" ۔ ۔ ۔ یہ سیلز گرل کی طرف ایک اور پکار کا جواب تھا اور اسی کے ساتھ ہی اس کے خیالات منتشر ہوئے۔
///
(فرضی خاکہ)