لفظ مَزدُور کا اصل مادہ "مزد" ہے، جس کے
معنیٰ اجرت، مزدوری، تنخواہ، صلہ، بدلہ، جزا یا پاداش کے ہیں۔ اصطلاح میں اُجرت پر
کام کرنے والے (اَجیر)
کو مزدور کہا جاتا ہے، اجیر کو آجر (اجرت پہ کام لینے والا، مالک، آقا) جس کام کے
لئے بھرتی کرے، وہ کام طے کردہ مخصوص شرائط کے ساتھ، عرفِ عام میں مزدوری کہلاتا
ہے۔
فارسی کی کہاوت ہے
"مزدور خوش دِل کند کار تبیش" کہ
اچھی اجرت پر کام کرنے والا مزدور زیادہ کام کرتا ہے۔
گو گزرتے وقت کے ساتھ اس کہاوت کی افادیت برقرار ہے یا
نہیں، اس پر کلام کیا جاسکتا ہے بہرحال ہم فارسی کے بارے نرم گوشہ رکھتے ہیں کہ اس
کے اردو سے گہرے روابط ہیں۔
مزدور ہونا کوئی بری بات نہیں بلکہ قرآن کریم میں، سورة
النجم میں ارشاد باری تعالی ہے کہ
وان لیس للانسان الا ما سعی (39)
اور یہ کہ انسان نہ پائے گا، مگر اپنی کوشش۔
ہم میں
سے اکثر دونوں ہی کردار نبھاتے نظر آتے ہیں، ہم آجر بھی ہیں اور اَجیر بھی۔ بعض
کام ہم کسی کو بھرتی کر کے اس سے اُجرت پر کرواتے ہیں اور خود کی گزر اوقات کے لئے
ہم کسی دوسرے کے کام کو بطور ملازمت اختیار کیئے ہوئے ہیں۔
آج
ہمیں خود کے حقوق تو بہت یاد ہیں لیکن فرائض، اگر یاد ہیں بھی تو ہم انہیں پسِ پشت
ڈالے بیٹھے ہیں۔ حلال کی کمائی میں حرام کی آمیزش کرنے والے یہ
"مزدور" کیوں نہیں سوچتے کہ دودھ میں ایک چھینٹ حرام کی پڑھ جائے تو
سارا ہی ناپاک ہو جاتا ہے۔ یہ کیوں نہیں سوچتے کہ کام کے دوران وقت برباد کرنا درحقیقت
خود کو برباد کرنا ہے۔ یہ کیوں نہیں سوچتے کہ کسی کے کام میں روڑے اٹکانے سے خود
کے کام کبھی پایہء تکمیل تک نہیں پہنچا کرتے۔ یہ کیوں نہیں سوچتے کہ یہ دنیا
مکافاتِ عمل ہے اور وقت کا پہیہ بہت جلد انہیں اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔
یہ مزدور صرف غریب آدمی نہیں کہ جو مستری ہے تو اپنے
گھر کی دیوار اور ڈھنگ سے بنائے اور کسی کی دیوار اور طریقے سے، یہ ہم سب
ہیں۔
سوشل
میڈیا استعمال کرنے والے افراد کی ایک تعداد ہے کہ جو نوکری پیشہ ہے اور دورانِ
کام سوشل میڈیا پر نظر آتے ہیں، اگر تو نوکری کی شرائط میں وقت ایک شرط ہے تو جو
وقت سوشل میڈیا کو دیا اس وقت کی تنخواہ کس طرح سے جائز ٹھہری؟ یہ تو پڑھے لکھے
لوگ ہیں، یہ تو ایک "بیدار معاشرے" کی ضمانت ہیں، کیا یہ اپنے فرائض سے
آگاہ ہیں؟
کیا ہم نے کبھی
یہ جاننے کی کوشش کی کہ ایک مزدور کی حیثیت سے ہمارے فرائض کیا ہیں؟ کیا ہم نے
کبھی یہ جاننے کی کوشش کی کہ جو علوم بحیثیتِ مسلم ہم پر فرض ہیں، وہ درحقیقیت ہیں
کیا؟ بطورِ مسلمان، عقائدِ اسلامیہ کو جان لینے کے بعد، ہم پر فرض ہے کہ ہم سیکھیں
کہ کیا ہمارے معاملات دین کے تقاضوں کے مطابق ہیں؟ اور رزقِ حلال کو، حسبِ حلال کو
بنیادی اہمیت اس لیے بھی حاصل ہے کہ اس کے بغیر کوئی عبادت قبول نہیں۔ (مفہوم حدیث
نبوی ﷺ،
مسندِ احمد)
کسبِ
حلال کی تگ و دو میں سب سے پہلا فرض ہم پر یہ ہے کہ اپنی بَشری استعداد کے مطابق
اپنے فرائض منصبی کو بجا لانا۔ استاد سے لے کر چپڑاسی تک اور مینجر سے لے کر کلرک
تک، سب کا اپنے عہدے کی مقصدیت سے آگاہ ہونا لازم ہے، اسے اہم جاننا اور اپنی تمام
تر صلاحیتیں بروئے کار لے آنا لازم ہے۔ اسی ضمن میں ذاتی اغراض و مقاصد کو منصبی
تقاضوں کے ماتحت رکھنا بھی شامل ہے۔
دوسرا
فرض یہ ہے کہ اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال نہ کیا جائے۔ ہمارے تمام اختیارات،
وہ تمام چیزیں کہ جن پر کسی ماحول میں رہتے ہوئے ہم قادر ہیں، ہمارے پاس اولاً اس
شخص، اس ادارے کی امانت ہیں کہ جس نے ہمیں طے کردہ اجرت پر اس کام پر مقرر کیا اور
پھر ہماری عقل، ذہانت اور قوت مالک حقیقی کی امانتیں ہیں اور بدترین خائن وہ ہے کہ
جو مالک (حقیقی و مجازی) کی امانت میں خیانت کرے۔
ادارے
کا کام افراد کی ہمہ جہت محنت و یکسوئی کی بدولت ہی پایہء تکیمل تک پہنچتا ہے
لہٰذا یہ بھی فرائض میں شامل ہے کہ اپنی تمام تر کاوشوں سے ماحول اس حد تک سازگار
بنایا جائے کہ تمام باہنر افراد اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھا سکیں۔ اور یہ تب ہی
ممکن ہوسکتا ہے کہ جب تمام افراد (ملازمین) ذاتی انا و رنجش کو بالائے طاق رکھ کر باہمی
مقاصد کے حصول کے لئے کوشاں رہیں۔
یہ
چند معروضات دیکھنے میں مشکل تو لگ سکتیں ہیں کیونکہ ہم (میں سے اکثر) ان چیزوں کے
عادی نہیں لیکن ناممکن نہیں۔ بہترین اصلاح وہ ہے کہ جو خود سے شروع کی جائے۔ ہم
معاشرے میں سب کچھ ٹھیک نہیں کرسکتے اور ہم اس کے مکلف بھی نہیں، ہاں ہم اپنی ذات
کو ایک ضابطے میں ڈھال سکتے ہیں اور ہم سے اُسی کے بارے میں پوچھا جائے گا۔
ہاں آج
بھی مزدور کے حقوق کا استحصال ہو رہا ہے، ہاں آج بھی وہ پس رہا ہے، ہاں آج بھی
ظالم موجود ہے جو خون نچوڑ رہا ہے لیکن کیا ہم ٹھیک ہیں؟ کیا ہم اپنے فرائض منصبی
بہ حسن و خوبی ادا کر رہے ہیں؟ شاید نہیں، یہاں آوے کا آوا بگڑا ہوا نظر آتا ہے،
جدھر نظر ڈالو ہر بندہ دوسرے کو موردِ الزام ٹھہرائے گا اور خود کی اصلاح محض
لفاظی تک۔
ہم سب کچھ ٹھیک نہیں کرسکتے، جو ٹھیک کرسکتے ہیں، اس کی
ابتداء خود ہماری ذات سے ہوتی ہے اور تاخیر کے ہم متحمل نہیں ہوسکتے۔ آئیے میں بھی
اور ہم سب خود اپنے آپ سے ابتداء کریں۔
اس ضمن میں مشکوة شریف، کتاب الامارة و القضاء کی ایک
حدیث شریف (رقم 3552) پر اختتام کر رہا ہوں۔
حضرت ابو درداء رضی اللّه تعالیٰ عنہ سے روایت ہے،
فرماتے ہیں کہ رسول اللّه ﷺ نے
ارشاد فرمایا۔ اللّه تعالیٰ فرماتے ہیں
میں اللّه ہوں، میرے سوا کوئی
معبود نہیں، میں بادشاہوں (حکمرانوں) کا مالک ہوں اور بادشاہوں کا بادشاہ ہوں۔
بادشاہوں کے دل میرے قبضے میں ہیں۔ جب بندے میری اطاعت کرتے ہیں، میں ان پر
بادشاہوں کے دل رحمت اور نرمی کے ساتھ پھیر دیتا ہوں اور بندے جس وقت میری
نافرمانی کرتے ہیں میں ان (حکمرانوں) کے دل خفگی اور عذاب کے ساتھ پھیر دیتا ہوں۔
اور وہ (حکمران) ان کو برا عذاب پہنچاتے ہیں۔ تم اپنے نفسوں کو بادشاہوں کے لئے بد
دعا کرنے میں مشغول نہ رکھو بلکہ (میرے) ذکر اور عاجزی میں اپنے نفسوں کو مشغول
کرو تاکہ میں تم کو بادشاہوں کے شر سے کفایت کروں۔