Sunday, January 18, 2015

دہن میں زباں تمہارے لیے

دہن میں زباں تمہارے لیے، بدن میں ہے جاں تمہارے لیے
ہم آئے یہاں تمہارے لیے، اٹھیں بھی وہاں تمہارے لیے 



وہ جو نہ تھے تو کچھ نہ تھا
وہ جو نہ ہو تو کچھ نہ ہو

جان ہیں وہ جہان کی
جان ہے تو جہان ہے


قلم تھامے تا دیر محو خیال رہا کہ کیا لکھوں، شروع کروں تو کہاں سے؟ کچھ موضوعات نازک ہوتے ہیں اور کچھ معاملات حساس لیکن یہ معاملہ ایسا ہے کہ حرف حرف ناپ تول کر لکھا جاتا ہے اور ہر خیال پر پہرہ دیا جاتا ہے لیکن کوئی اس سخن کو تحریر کرے بھی تو کیسے کہ جس کی ہر آنے والی ساعت بہتر سے بہتر ہے۔ یہ کسی عاشق کا قول نہیں اور نہ ھی کسی شاعر کا نعرہء مستانہ ہے بلکہ یہ فرمان ہے اس زبانِ حق ترجمان کا، نبی اکرم صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:

یا ابا بکر والذی بعثنی بالحق لم یعلمنی حقیقه غیر ربی
اے ابوبکر! قسم ہے اس ذات کی جس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث فرمایا میری حقیقت کو میرے رب کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ 
(مطالع المسرات: 129) 


یہ مہنیہ ہے ربیع الاول شریف کا، اسی ماہ مبارک میں آقائے دو عالم، شفیع معظم صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کی ولادت باسعادت ہوئی اور اسی ماہ میں آپ ﷺ نے وصال فرمایا۔ ایک زاویے سے دیکھا جائے تو یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اس ماہ مبارک کو پورے سال پر فوقیت و فضیلت حاصل ہے کیونکہ اسی ماہِ نور کے وسیلے سے رمضان ملا، قرآن ملا، نورِ یزدان ملا اور خود رحمٰن ملا۔ مسلمانانِ عالم اسی ماہ کی مناسبت سے جب آنحضرت صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کے مناقب و فضائل کی محافل سجانے میں مصروف ہیں تو باطل سے یہ برداشت نہ ہوسکا اور از سرِ نو گستاخانہ خاکوں کی ایک مہم چلا دی۔ جس سے عالمِ اسلام میں غم و غصے کی ایک نئی لہر دوڑ چکی ہے۔ 


ہم یہ دیکھتے آئے ہیں کہ جب بھی کوئی ایسی ناپاک جسارت ھوتی ہے تو مذمتوں کے انبار لگ جاتے ہیں، قراردادیں پیش کی جاتی ہیں، احتجاجی ریلیاں نکالی جاتی ہیں، کانفرنسز کا انعقاد ہوتا ہے (اور ہونا بھی چاہیئے) اور پھر دھیرے دھیرے یہ تحاریک بھی دیگر معاملات کی طرح نظر سے اوجھل ھوجاتی ہیں۔ صد افسوس

کیا ھماری محبت و عقیدت جز وقتی ہے؟
کیا ھم ھمیشہ کسی رد عمل میں ہی اپنی قوت کا اظہار کریں گے؟
یا کیا ھم واقعی بے بس ہیں؟

بات آئی ہے اختیار کی تو چلو اپنی ذات سے شروع کریں۔ میں اپنی ذات سے ہی شروع کرتا ہوں۔ الحمد للّه، ثم الحمد للّه میں مسلمان ہوں اور اس حوالے سے مجھ پر کچھ فرائض ہیں۔ آئیے ان کا جائزہ لیں:

طلب العلم فریضة علی کل مسلم (ابن ماجہ: 183)
علم حاصل کرنا ہر مسلمان (مرد و عورت) پر فرض ہے۔

کیا مجھے پتہ ہے کہ مجھ پر کس قسم کے علم کا حاصل کرنا فرض ہے؟
اگر ہاں تو میں نے اس کو حاصل کرنے کی کتنی کوشش کی؟ 


ان الصلاة علی المؤمنین کتابا موقوتا (النساء: 103)
بے شک نماز مؤمنین پر مقررہ اوقات میں فرض ہے۔

اور نبی اکرم، نورِ مجسم صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کا فرمان ہے:
و جعلت قرة عینی فی الصلاة (النسائی: 3391)
میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں کر/رکھ دی گئی۔


میں فرض نماز کا کتنا اہتمام کرتا ہوں؟
اور اگر میں نماز ادا کرتا بھی ہوں تو میں اس کے احکام سے کتنا واقف ہوں؟
کیا میری نماز واقعی معراج ہے یا صرف حجاب؟
کیا میری نماز مجھے برائی سے روکتی ہے؟


میں مسلمان مرد ہوں تو اپنی نظر کی کتنی حفاظت کرتا ہوں؟
کیونکہ فرمانِ نبوی ﷺ ہے کہ بد نظری آنکھ کا زنا ہے (مفہوم حدیث، مشکوٰة)
(اور عورت شرعی تعلیمات کے مطابق پردے کا کتنا اہتمام کرتی ہے؟)



میں مسلمان ہوں تو کیا میرا ظاہر حضور صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم کی تعلیمات کے مطابق ہے؟
حضور صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کہ داڑھی کو بڑھاؤ اور مونچھیں پست رکھو۔ (مشکوٰة، صفحہ 380)


میں مسلمان ہوں تو کیا میرا باطن اسلامی تعلیمات سے مزین و آراستہ ہے؟
کیا حسد، کینہ، بغض ونفاق جیسی باطنی بیماریوں سے میں پاک ہوں؟
کیا میں کم از کم ان کو برا ہی سمجھتا ہوں؟
کیا میں نے ان کے تدارک کے لیے کوئی قدم اٹھایا ہے؟


ہمارے نبی مکرم صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم نے زبان اور شرمگاہ کی حفاظت پر جنت کی بشارت عطا فرمائی، (بخاری 6474)
کیا میں اپنی زبان کی حفاظت کر رہا ہوں؟
کیا میری زبان جھوٹ، چغلی، غیبت، تہمت اور خوشامد سے پاک ہے؟


اور اگر میں یہ تمام اعمال کما حقه ادا کر رہا ہوں تو کیا یہ اعمال ریا سے پاک ہیں؟
نبی آخرزماں صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
"میں اپنی امت پر کسی چیز سے اتنا نہیں ڈرتا جتنا شرکِ اصغر سے"
پوچھا گیا کہ شرکِ اصغر کیا ہے؟
فرمایا: "ریا" (مسند احمد)


کیا میری ذات تکبر سے پاک ہے؟
نبی کریم صلی اللّه علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:
جس شخص کے دل میں ایک ذرے کے برابر بھی تکبر ہوگا
وہ جنت میں داخل نہ ہوگا۔ (صحیح مسلم، 91)


احباب کہہ سکتے ہیں کہ یہ تو ہمارے کرنے کے کام ہیں ان کا کفار و مشرکین سے کیا تعلق؟ ہم نیک اعمال کریں گے تو اس کا اثر ہماری ذات پر مرتب ہوگا نہ کہ غیر مسلموں پر ۔ ۔ ۔ تو صاحبو! اس کے لیے تاریخ پر نظر دوڑانا ہوگی ۔ ۔ ۔

جب تک مسلمان اسلام کی تعلیمات پر فخر کرتے رہے اور انہیں بہ رضا و خوبی اختیار کرتے رہے، اللّه پاک نے انہیں اپنے ملک کی نگہبانی بخشی اور جب مسلمان عیش و عشرت میں ڈوب گئے اور دین کی تعلیمات کو باعث عار سمجھنے لگے تو اللّه نے انہیں ذلیل و رسوا کر دیا۔



وتعز من تشاء و تذل من تشاء (آل عمران: 26) 

تو جسے چاہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہے ذلت


اقبال شاید اسی مقام پہ گویا تھے 


تھے تو وہ آباء تمہارے ہی، تم کیا ہو؟
ہاتھ پہ ہاتھ دھرے منتظر فردا ہو

ہر کوئی مستِ مئے ذوقِ تن آسانی ہے
تم مسلمان ہو؟ یہ اندازِ مسلمانی ہے؟ 

حیدری فقر ہے، نے دولتِ عثمانی ہے
تم کو اسلاف سے کیا نسبتِ روحانی ہے

وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر


باقی دنیا کی ترقی اس میں ہے کہ وہ آگے بڑھے اور ہماری ترقی اس میں ہے کہ ہم اپنے اسلاف کی طرف پلٹیں، پلٹیں ان تعلیمات کی طرف کہ جنہیں ہم پسِ پشت ڈال چکے ہیں۔ آج وہ مسلمان کہ جو حواس باختہ ہیں، افسردہ ہیں، رنجیدہ ہیں، شعلہ فشاں ہیں، ان سب سے مؤدبانہ گزارش ہے کہ یہود و نصاریٰ کی اس چال کو سمجھو کہ وہ بار بار جھنجھوڑ کر، جھٹکے دے دے کر یہ جاننا چاہ رہے ہیں کہ "روحِ محمدی" کا اثر کتنا باقی ہے۔ اور ہماری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ اپنی توجہ ان امور پر مرکوز رکھیں کہ جن پر ہمارا اختیار ہے۔


یار دہے! میں ایک عام مسلمان سے مخاطب ہوں کہ آپ کے اور میرے اخیتار میں اپنی ہی ذات ہے۔ ہاں جو جتنے بلند مرتبے پر فائز ہوگا اس کی ذمہ داری اتنی ہی بڑھتی جائے گی۔ میں اقبال کے پیغام کو ہی دہراؤں گا۔



قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
دہر میں اسمِ محمد ﷺ سے اجالا کر دے