Saturday, August 23, 2014

اظہارِ رائے



کچھ دوستوں کو سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر بلاگنگ کرتے پایا، اچھا لگا تو شوق ہوا کہ ہم بھی اس میدان میں طبع آزمائی کریں۔ لیکن ہم نے اظہارِ رائے سے پہلے اظہار پر رائے ضروری سمجھی۔

اپنی کسی کیفیت، ضرورت، حقیقت یا چاہت کو کسی دوسرے پر آشکار کرنا عموماً اظہارِ رائے کے زمرے میں آتا ہے۔
اظہارِ رائے قانونِ فطرت ہے بلکہ یوں کہئیے کہ طریقِ فطرت ہے۔ اظہار فرض بھی ہے اور قرض بھی، واجب بھی ہوسکتا ہے اور مکروہ بھی۔ یہ منحصر ہے اس فعل پر کہ جس کا اظہار مقصود ہے یا اس فاعل پر کہ جو اظہار کا خواھی ہے۔

اظہار کسی واسطے یا وسیلے کا مہتاج نہیں۔ یہ کسی لب و لہجے، کسی ناز و ادا کا متقاضی بھی نہیں۔ آہ و فغاں، گریہ و زاری اظہارِ خیال کا معتبر ذریعہ تو ہیں لیکن خامشی بھی اظہار میں اپنا ثانی نہیں رکھتی۔

انسان کے جسم میں روح کے داخل ہونے سے لے کر روح کے نکلنے تک کا جتنا بھی سفر ہے وہ اظہار ہی اظہار ہے۔ ماں کے شکم میں بچے کا اپنی موجودگی کا احساس دلانا، رو کر بھوک و درد کی کیفیات کا اظہار، توتلی زبان سے ننھی خواہشات کا اظہار وغیرہ۔ وہاں روح نے جسم سے پرواز کی اور یہاں اظہار کا عمل منقطع ہوا  گویا روح اظہار میں ہمارے بدن کی معاون ہو یا روح سراپائے اظہار ہو۔

اظہارِ خیال سے قبل اس فکر کی جانچ کہ جس سے خیال وجود میں آیا، پھر مناسب الفاظ کا چناؤ کہ جو جامع ہوتے ہوئے تمام پہلوؤں کا احاطہ کریں۔ مخاطب کی طبع کو مد نظر رکھنا تو ایک الگ شعبہ اور اس کی اہمیت اپنی جگہ مصمم ہے۔ انسان بولنا تو اوائل عمری سے ہی سیکھ جاتا ہے لیکن کیا بولنا ہے اور کب بولنا ہے یہ سیکھنے میں عمریں بیت جاتی  ہیں۔

مالک نے اپنی حکمت کے تحت کچھ انسانوں کو یہ فن عطا کیا ہے کہ وہ مسحور کن الفاظ میں نہ صرف اپنا مدعا بیان کرسکتے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی متحرک رکھ سکتے ہیں۔ یہ محض فضلِ ربی ہے اور عطائے الٰہی۔

ایک انسان اپنے گرد و نواح میں جن حالات سے گزرتا ہے،جس طرح سے شب و روز بسر کرتا ہے، جس طرح سے اس کی پرورش کی گئی ہے، ان تمام چیزوں کی جھلک اس کے اندازِ بیان اور اظہارِ رائے سے نظر آسکتی ہے۔ اس حوالے سے آخری بات یہ کہ ہماری وسعتِ نظری کا ایک پیمانہ یہ ہے کہ ہم اختلاف رائے کو کتنی اہمیت دیتے ہیں اور اس کو کس جائز حد تک پذیرائی دیتے ہیں۔

 اس میدان میں چونکہ نیا ہوں لہذا "بزرک" دوستوں کی رائے میرے لیئے بہت اہمیت رکھے گی، بشرطِ زندگی، گاہے گاہے تنگ کرتا رہوں گا۔


شکریہ